EPISODE 9|ISLAMIC HISTORY| OR NEEL BEHTA RAHA|NEW EPISODE TODAY

•🇵🇰┅❂❀﷽❀❂┈🇵🇰•❂*

URDU DASTAN EPISODE 9

OR NEEL BEHTA RAHA BY INAYATULLAH ALTAMAMSH



EPISODE NO1   EPISODE NO2  EPISODE NO.3  EPISODE 4  EPISODE 5  EPISODE 6  EPISODE 7 EPISODE 8

╗═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╔

       *🌌🌟اور نــیـل بہـــتـارھـا🌟🌌*

╝═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╚

*_🔲🌻قـســــــط نـــمـــبـــــر /9🌻🔲_*

(urdu dastaan,urdu story,urdu novel,urdu,novel,islamic,historical,instructive,ibrat angaiz,na qabil faramosh,amazing,siqlia ka mujahid \ 02 : urdu historical novel,eloquent adab extras,rahbartv,bia aur mala,ksvoice,roxen,urdu pages,eloquent adab,urdu center voice,online audio library,dastaan,audio novel lovers,our ambition,eagle eye,syeda voice,adbi duniya,urdu audio books,munna bhai tv,tauro,urdu center plus,our history,novel audio,unique stories,moral story,urdu books our pride)

*سورج کبھی کا غروب ہو چکا تھا لیکن چاند نے رات کو تاریک نہ ہونے دیا ہرے بھرے جنگل کی چاندنی اتنی شفاف تھی کہ سورج کے غروب ہونے کا احساس خاصہ کم رہ گیا تھا، حدید اور شارینا سونے کی تیاری کرنے لگے،*
*اب بے فکر ہو جاؤ حدید،،، شارینا نے کہا۔۔۔ اب ہمارے پیچھے کوئی نہیں آئے گا آرام اور اطمینان سے سو جاؤ۔*
 *میرے پاس تلوار ہے میں بے فکر ہوں، حدید نے کہا،،، کوئی آ بھی گیا تو پورا مقابلہ کرونگا۔*
*وہ تین سوار جو ہم نے دیکھے تھے ہماری فوج کے تھے شارینا نے کہا ۔۔۔اچھا ہوا انہوں نے ہمیں نہیں دیکھا تھا اتنی دور سے میں پہچان تو نہیں سکی شک ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک کو میں جانتی پہچانتی ہوں وہ اگلے گھوڑے پر سوار تھا اور اس کا سر جھکا ہوا تھا  وہ جو کوئی بھی تھے دور نکل گئے ہونگے حدید نے کہا ۔۔۔صاف پتہ چلتا تھا کہ کسی میدان جنگ سے بھاگ آئے ہیں اور کسی شہر کو جارہے ہیں ۔*
*وہ لیٹنے ہی لگے تھے کہ انہیں دوڑتے قدموں کی آہٹ سنائی دی دونوں نے چونک کر اس طرف دیکھا وہاں ایک رومی سپاہی کھڑا تھا کیا تم دوڑتے آئے تھے؟*
*شارینا نے اس سے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو؟ کہاں جا رہے ہو؟*
بھوکا ہوں رومی سپاہی نے بھکاریوں کی طرح کہا ۔۔۔مسلمانوں نے ہماری فوج کو بہت نقصان پہنچایا ہے باقی جو لوگ بچ گئے وہ ایسے پسپا ہوئے کہ بکھر کر ادھر ادھر بھاگ نکلے مسلمان بڑی ظالم قوم ہے ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ عرب کے بدو ہیں جو صرف لوٹ مار کرنا جانتے ہیں ان سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں لیکن وہ تھوڑے سے مسلمان جب ہمارے مقابلے میں آئے تو ہمیں شک ہونے لگا کہ یہ انسان نہیں جنات ہیں ہماری اتنی بڑی فوج کو انہوں نے خون میں نہلادیا میں آگے جا رہا تھا آپ کو دیکھا تو آپ کے پاس چلا آیا کچھ کھانے کو دے دیں ورنہ بھوک سے مر جاؤں گا۔
 میدان جنگ سے بھاگنے والے بزدلوں کو بھوکا ہی مرنا چاہیے شارینا نے کہا۔۔۔ وہیں بیٹھ جاؤ میں کھانے کو تمہیں کچھ دیتی ہوں۔
حدید نے کھانے کی ایک دو چیزیں نکالی اور اٹھ کر اس رومی سپاہی کو دے دیں ۔ وہ وہیں بیٹھ گیا تھا وہ بے تابی اور بے صبری سے کھانے لگا یہی مت بیٹھے رہو شارینا نے کہا۔۔۔ یہاں سے چلے جاؤ اور کہیں جاکر کھانا
شارینا کا انداز اور لہجہ شہزادیوں والا تھا حدید نے شارینا سے کہا کہ وہ اس طرح رعونت سے بات نہ کرے اور بیچارے کو اطمینان سے کھانا کھانے دے رومی سپاہی وہیں بیٹھا کھانا کھاتا رہا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔
رات کی خاموشی میں ایک گھوڑے کی ٹاپ سنائی دینے لگیں جو قریب ہی قریب آتی جارہی تھی حدید کا ہاتھ فوراً تلوار کے دستے پر چلا گیا۔
 جوں جوں رات گزرتی جا رہی تھی چاندنی اور زیادہ شفاف ہوتی چلی جا رہی تھی جس طرف سے گھوڑے کی ٹاپ آگے بڑھ رہے تھے اس طرف دو چھوٹی ٹھیکریوں کے سرے آپس میں ملتے تھے لیکن ان کے درمیان راستہ تھا ایک رومی سپاہی اس راستے پر نمودار ہوا اس نے ایک گھوڑے کی باگ پکڑی ہوئی تھی اور گھوڑے پر ایک آدمی سوار تھا انہیں دیکھ کر وہ رومی سپاہی جو شارینا کا دیا ہوا کھانا کھا رہا تھا ۔ اٹھ کھڑا ہوا اور گھوڑ سوار کی طرف چل پڑا وہ تو جھکا جھکا مریل سا آدمی تھا اور لگتا تھا جیسے وہ واقعی بھوک سے مرا جا رہا ہے لیکن وہ جب اٹھ کر سوار کی طرف گیا تو اس کی چال میں تیزی بھی تھی اور مستعدی بھی حدید تلوار ہاتھ میں لیے اٹھ کھڑا ہوا لیکن اس نے آگے ایک قدم بھی نہ اٹھایا۔
شارینا بھی اٹھ کھڑی ہوئی تھی دونوں رومی سپاہیوں نے مل کر گھوڑ سوار کو گھوڑے سے اٹھایا اور اسے اٹھائے اٹھائے وہاں تک لے آئے جہاں حدید اور شارینا نے سونے کے لیے کمبل بچھا ئے تھے ۔
سپاہیوں نے سوار کو ایک کمبل پر بٹھادیا ۔
میں یقیناً خواب نہیں دیکھ رہا شارینا !،،،سوار نے کہا۔۔۔میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں یہ حقیقت ہے۔  حیران اس لئے ہو رہا ہوں کہ ہماری ملاقات کہاں آ کر ہوئی ہے تم نے مجھے نہیں دیکھا تھا میں نے تمہیں دیکھ لیا تھا۔
ہاں کیلاش!،،، شارینا نے کہا ۔۔۔تمہیں اس سے زیادہ حیران ہونا چاہئے جتنا ہو رہے ہو۔ میں نے ایسی توقع خواہش دل میں رکھی ہی نہیں تھی کہ تم مجھے راستے میں مل جاؤ گے،،، کیا تم زخمی ہو ؟ 
ہاں شارینا! ۔۔۔اس نے جواب دیا۔۔۔ دونوں ٹانگیں بری طرح زخمی ہیں۔
شاید ایک ٹانگ کی ہڈی بھی مجروح ہو گئی ہے تم یہاں کیسے آ پہنچی ہو اور یہ کون ہے؟ 
تم یقین نہیں کرو گے شارینا نے کہا ۔۔۔میں کہوں کہ میں تمہاری تلاش میں نکلی ہوں اور تمہارے پیچھے ٹھوکریں کھاتی ہوں تو تم نہیں مانو گے۔
میں نہیں مانو گا اس زخمی نے کہا اگر تمہارے ساتھ تین چار یا ایک دو ہی سہی رومی سپاہی ہوتے تو میں مان لیتا لیکن تمہارا یہ ساتھی رومی نہیں یہ عربی معلوم ہوتا ہے اور یہ تمہارا محافظ لگتا ہی نہیں میں تمہارے خلاف کچھ بھی نہیں کر سکتا مجھ سے تو پاؤں پر کھڑا نہیں ہوا جا رہا تم سچ بولو گی تو میں تمہارا راستہ نہیں روکوں گا نہ مجھ میں ہمت ہے بہتر ہے سچ بول دو۔
یہ زخمی خوبرو اور جواں سال آدمی تھا رومی فوج میں افسر عہدے پر تھا اور شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا اس کا نام کیلاش تھا وہ ایک چھاپہ مار گروہ کا کمانڈر تھا بہت ہی دلیر اور اپنی جان پر کھیل جانے کے لیے ہر وقت تیار، اس کے شب خون ہرقل کی فوج میں بہت ہی مشہور تھے ،وہ چیتے کی طرح اپنے شکار پر جھپٹتا تھا اور بیشتر اس کے کہ اس کا شکار ذرا سنبھلے وہ اپنا کام کر کے غائب ہوچکا ہوتا تھا ۔
شارینا کو یہ خوب رو چھاپا مار لڑکپن سے ہی اچھا لگتا تھا اور اس نے کیلاش کو اپنا آئیڈیل بنا لیا تھا کیونکہ وہ شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا اس لیے شارینا سے ملنے میں اسے کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی۔
شارینا نوجوانی میں داخل ہوئی تو لڑکپن کی پسندیدگی والہانہ محبت میں بدل گئی کیلاش اسے ویسی ہی محبت سمجھتا تھا جیسے اکثر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں ہو جایا کرتی ہے لیکن شارینا کا یہ جذباتی معاملہ اس کی فطرت کا پابند تھا اس نے حدید کو اپنے متعلق سنایا تھا کہ اس کی فطرت میں عسکری جذبہ غالب حیثیت رکھتا ہے ،اس نے اپنی فطرت کا جو نقشہ حدید کو دکھایا تھا وہ کیلاش کو بھی دکھایا لیکن کیلاش اس محبت کو صرف جذباتی رنگ دیتا تھا اور اس کی تان اس پر ٹوٹی تھی کہ وہ شارینا کے ساتھ شادی کرے گا شارینا نے اسے واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ جس روز وہ مسلمانوں کے کسی لشکر کو شکست دے کر آئے گا اس روز وہ اس کے ساتھ شادی کر ے گی۔
کیلاش کی بہادری اور بے جگری کو تو وہ بڑی اچھی طرح جانتی تھی اور یہی وہ وصف تھا جس نے اسے کیلاش کی محبت میں گرفتار کر لیا تھا لیکن اس محبت کا کیلاش پر یہ اثر ہوا کہ اس نے جنگ پر جانے سے گریز شروع کر دیا اور کسی نہ کسی بہانے پیچھے ہی رہنے کی کوشش کی ۔
شارینا کو اس کی یہ عادت اچھی نہ لگی وہ تو اسے کہا کرتی تھی کہ مجھے بھی ساتھ لے چلو اور میں بھی مردوں کی طرح لڑوں گی کیلاش کو شارینا کی یہ باتیں اچھی نہیں لگتی تھیں۔
وہ کہا کرتا تھا کہ وہ ایک خوشبودار پھول ہے جسے وہ پھول کی صورت میں دیکھنا اور سونگھنا چاہتا ہے ۔اور اسکی خواہش یہ ھیکہ جب وہ میدان جنگ واپس آئے تو شارینا اسے اپنے بازوؤں میں لے کر اپنے ساتھ لگا لیاکرے ۔
شارینا پر اس کا اثر یہ ہوا کہ اس نے کیلاش کی جو تصویر اپنے ذہن میں بنائی تھی اسے کیلاش نے بدنما اور داغدار کر دیا شارینا نے اسے یہ تو نہ کہا کہ وہ جس کیلاش سے محبت کرتی تھی وہ کیلاش محض ایک تصور تھا اور شارینا تصور پرست لڑکی نہیں بننا چاہتی۔ پھر یوں ہوا کہ خالد بن ولید، ابو عبیدہ ،شرجیل بن حسنہ، رضی اللہ عنھم اور دوسرے نامور سالاروں کے قیادت میں مجاہدین اسلام کا لشکر قیصر روم کے خلاف طوفان کی طرح بڑھا تو کیلاش کو حکم ملا کہ وہ اپنا چھاپا مار گروہ لے کر آگے چلا جائے اور مسلمانوں کے خیمہ گاہوں پر شب خون مارے۔
یہ جنگ طول پکڑتی جارہی تھی اور ہر محاذ پر فتح مسلمانوں کی ہوتی تھی اور قیصر روم کی فوج پیچھے ہی پیچھے ہٹتی آرہی تھی۔ شارینا کے خیالوں میں وہ انقلاب آنے لگا تھا جو وہ بڑی تفصیل سے حدید کو سنا چکی تھی۔
 کیلاش اس کے دل سے اتر گیا تھا۔
اس رات کیلاش بستیوں اور چھوٹی بڑی آبادیوں سے دور ایک جنگل میں شارینا کے راستے میں
آ گیا اور ایسی حالت میں آیا کہ اس کی دونوں ٹانگیں بہت ہی بری طرح زخمی تھی، اور ان زخموں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھی، چلنے پھرنے سے معذور تھا اسے توقع تھی کہ شارینا کے دل میں اس کی محبت اگر پہلے سے بڑھی نہیں تو کم بھی نہیں ہوئی ہوگی۔
 لیکن وہ شارینا کو اس جنگل میں ایک مسلمان کے ساتھ دیکھ کر پریشان ہو گیا اور اس کا چہرہ دل سے اٹھنے والے قہر اور عتاب سے سرخ ہو گیا تھا۔
مجھے زیادہ حیرت اور پریشانی میں نہ رکھو شارینا! ۔۔۔۔کیلاش نے کہا۔۔۔ اب بتا دو کہ یہ کون ہے اور تم اس کے ساتھ کہاں جا رہی ہو؟ اگر یہ تمہیں زبردستی اپنے ساتھ لے جا رہا ہوتا تو تم ہم کو دیکھ کر خوش ہوتی اور دوڑ کر ہماری پناہ میں آ جاتیں۔
یہ مجھے نہیں لے جارہا کیلاش! ۔۔۔شارینا نے بڑی پختہ آواز میں کہا۔۔۔ میں اسے لے جا رہی ہوں اور تمہاری دنیا سے ہمیشہ کے لیے غائب ہو رہی ہوں، مجھے بھول جاؤ کیلاش ہمارے راستے جدا ہوگئے ہیں۔
تمہیں لڑکیاں پاگل کہا کرتی ہیں،،، کیلاش نے کہا۔۔۔وہ ٹھیک ہی کہتی ہیں تمہیں یہاں دیکھ کر بھی مجھے یقین نہیں آتا کہ تم ایک مسلمان کے ساتھ بھاگی جا رہی ہو، تم نے شاہی خاندان کی عزت خاک میں ملا دی ہے۔
کیا تمہارے شاہی خاندان کی کوئی عزت رہ گئی ہے؟،،، حدید نے مسکراتے ہوئے پوچھا اور اسے بولنے کی مہلت دیئے بغیر کہا۔۔۔ دوسروں کی عزت کے ساتھ کھیلنے والوں کا یہی انجام ہوا کرتا ہے جس انجام کو تمہارا شاہی خاندان پہنچ گیا ہے ۔ان بادشاہوں کی بیویاں گن لو،، ۔۔۔شارینا بول پڑی ۔۔۔ان کی داشتائیں گن لو۔ نہیں گن سکو گے۔ شاہی خاندان کے آدمی جہاں کہیں کوئی خوبصورت لڑکی دیکھتے ہیں حکم دے دیتے ہیں کہ اسے محل میں پہنچا دو فوراً ان کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے ماں باپ اور بھائی بہنوں سے کم سن لڑکیاں چھین جھپٹ کر اپنے ساتھ لے آتے ہیں، جو علاقے فتح کرتے ہیں وہاں ان کی فوج لڑکیوں پر ٹوٹ پڑتی ہے، میری ماں کو قافلے سے اغوا کیا گیا اور روم کے بادشاہ فوکاس کے پاس پہنچا دیا گیا تھا۔
 بادشاہ کا فرض یہ ہونا چاہئے کہ وہ انکے والدین کی فریاد سنے جن کی بیٹیاں اغوا ہو جاتی ہیں اور ان بیٹیوں کو ڈھونڈ نکالنے کا حکم دے، لیکن یہاں بادشاہ قزاقوں سے بدتر ہیں یہی وہ وجوہات ہیں جنہوں نے میرے دل میں اس شاہی خاندان کی نفرت پیدا کی ہے۔
کیلاش بھائی! ۔۔۔حدید نے کہا ۔۔۔آج تمہاری ایک لڑکی جارہی ہے اور تم کہتے ہو کہ شاہی خاندان کی بےعزتی ہو گئی ہے میں اس لڑکی کو زبردستی نہیں لے جارہا ۔یہ میری یا کسی اور کی داشتہ نہیں بنے گی نہ اسے تفریح طبع کا ذریعہ بنایا جائے گا ،اگر میں اس کے ساتھ شادی کرنا چاہوں تو سپہ سالار کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکوں گا ایسا بھی نہیں ہوگا کہ یہ سپہ سالار کو اچھی لگے تو وہ اس پر قبضہ کر لے گا اسے ہمارے یہاں اتنی ہی عزت ملے گی اور اتنا ہی وقار ملے گا جتنا ہمارے خلیفہ کے گھر کی مستورات کو اور سپہ سالاروں کی بہو بیٹیوں کو ملتا ہے عزت اور وقار دیکھنا چاہتے ہو تو میرے ساتھ چلو وہاں تمہارا علاج ہوگا اور تم نے اگر اسلام قبول کر لیا تو تمہاری عسکری قابلیت کے مطابق تمہیں عہدہ ملے گا۔
 تم خوش قسمت ہو کے میں زخمی ہوں کیلاش نے کہا۔۔۔ میں زخمی نہ ہوتا تو تمہیں اس سے زیادہ بولنے کی مہلت نہ دیتا جتنا تم بول چکے ہو، حدید کی مسکراہٹ کچھ اور زیادہ کھل اٹھی اور اس نے کچھ بھی نہ کہا ۔کیلاش کے ساتھ جو دو سپاہی تھے وہ اس کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور شاید کیلاش کے حکم کے منتظر تھے وہ اس گفتگو میں دخل نہیں دے رہے تھے ،کیلاش ایک تو افسر تھا اور دوسرے شاہی خاندان کا آدمی تھا یہی وجہ تھی کہ اس کے دونوں سپاہیوں کو بولنے کی جرات نہیں ہورہی تھی، کیلاش یہاں تک اس طرح پہنچا تھا کہ جب وہ اور اس کے دونوں سپاہی حدید اور شارینا کو دور گھوڑے پر سوار نظر آئے تھے تو ان دونوں نے ان تینوں کو دیکھ لیا تھا ان کا خیال تھا کہ کیلاش اور اس کے سپاہیوں نے انہیں نہیں دیکھا لیکن انہوں نے دیکھ لیا تھا۔
 کیلاش کو کچھ شک ہوا تھا کہ یہ شارینا ہے یا جو کوئی بھی ہے اس کی شکل و صورت شارینا سے ملتی جلتی ہے اگر یہ شارینا نہیں تھی تو آخر ایک خوبصورت لڑکی تھی اور اس کے ساتھ صرف ایک آدمی تھا جبکہ کیلاش کے ساتھ دو سپاہی تھے اس نے لڑکی کو پکڑنے کے لئے اپنے گھوڑے کا رخ ادھر کو کر لیا تھا۔
 حدید اور شارینا ایک بڑی لمبی ٹیکری کی اوٹ میں اپنے سفر کو جارہے تھے کیلاش کے گھوڑ سوار سپاہی انہیں ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔
 کیلاش نے انہیں روک کر کہا کہ گھوڑوں سے اترے گھوڑے پیچھے رہنے دیں اور پاپیادہ دبے پاؤں انہیں تلاش کریں۔
 کیلاش کہیں پیچھے رک گیا تھا حدید اور شارینا نے چشمہ دیکھا اور وہ جگہ انہیں اچھی لگی اور وہیں رک گئے رات تاریک ہو چکی تھی اور پورا چاند ابھر آیا تھا آخر وہ دونوں سپاہیوں کو نظر آ گئے دونوں اکٹھے آگے آئے تھے ،ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ کیلاش کو اطلاع دینے جا رہا ہے وہاں سے دوڑ پڑا اور یہ تھی وہ قدموں کی آہٹ جو حدید اور شارینا نے سنی تھی اور ادھر دیکھا تو ایک سپاہی کھڑا تھا۔
 شارینا نے اس سے پوچھا تھا کہ وہ دوڑتا آیا ہے،سپاہی نے یہ فریب کاری کی کہ وہ بھوکا بھکاری بن گیا اور روٹی کی بھیک مانگنے لگا شارینا نے اس پر کچھ غصہ جاڑا تھا لیکن اسے واقعی بھوکا اور مجبور دیکھ کر کھانے کو کچھ دے دیا تھا۔ اتنے میں اس کا ساتھی کیلاش تک پہنچ گیا اور وہ کیلاش کو اور اپنے ساتھی کے گھوڑوں کو ساتھ لے آیا۔ کیلاش نے جب شارینا کو قریب سے دیکھا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ تو تھی ہی شارینا اور اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ شاہی خاندان کی ایک لڑکی جنگل میں ایک اجنبی کے ساتھ پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے۔
 کیلاش نے شارینا کے ساتھ اور بھی بہت سی باتیں کیں لیکن شارینا پر کچھ اثر نہ ہوا اس نے مسلمان پر لعن طعن کی اور اسلام کی بھی توہین کر ڈالی شارینا کو یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی کہ یہ مسلمان ڈاکو اور لٹیرے ہیں اور ان کا نہ کوئی خدا ہے نہ مذہب! میں خوش قسمت نہیں کہ تم زخمی ہو ،،،حدید نے کہا۔۔۔ تم خوش قسمت ہو کے معذور ہو اور پاؤں پر کھڑے نہیں ہو سکتے ہم زخمی پر عورت پر بچے اور بوڑھے پر ہاتھ نہیں اٹھایا کرتے تم نے میری بےعزتی کی ہے میرے مذہب کی توہین کی ہے لیکن میں تم پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا، یہ اس اسلام کا حکم ہے جسے تم اچھا نہیں سمجھ رہے بلکہ کہتے ہو کہ یہ تو کوئی مذہب ہی نہیں۔
 شارینا! ۔۔۔کیلاش نے کہا۔۔۔ اگر تم برا نہ جانو تو میں اپنے ان سپاہیوں کے ساتھ رات یہیں گزار لوں۔
 میں برا کیوں جانو گی؟ ۔۔۔شارینا نے کہا جہاں جی چاہتا ہے وہاں لیٹ جاؤ۔
 اور ہمارے پاس کھانے کا سامان ہے ۔۔۔حدید نے کیلاش سے کہا۔۔۔ لے لو اور کھا لو ۔۔۔کوئی اور ضرورت یا تکلیف ہو تو مجھے بتانا۔
مجھے کچھ نہیں چاہیے کیلاش نے کہا ۔۔۔اور شارینا سے مخاطب ہوا شارینا تم مجھ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو رہی ہو میری صرف یہ بات مان لو کہ تھوڑی سی دیر کے لیے الگ میرے پاس بیٹھنا۔۔۔ بیٹھ جاؤں گی شارینا نے کہا۔۔۔لیکن ایک بات میری بھی مان لوں مجھ سے دور جا کر لیٹنا۔
کیلاش نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ وہ یہاں سے تھوڑی دور ٹیکری کے قریب میرا بستر بچھا دیں ۔
سپاہی دوڑے گئے گھوڑوں سے سفری بستر کھول لائے اور کچھ دور زمین پر بچھا دیا۔ دونوں نے کیلاش کو اٹھایا اور بستر پرلیٹا دیا، کیلاش کے کہنے پر سپاہیوں نے اپنے سونے کا انتظام اس سے کچھ دور کیا۔*
 *شارینا کیلاش کے بستر پر جا بیٹھی اور اس سے پوچھا کہ وہ اور کیا بات کہنا چاہتا ہے۔ کیلاش اسے قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ چلی چلے۔*
 *شارینا اسے اپنا فیصلہ سناچکی تھی کہ وہ واپس جانے کے لئے نہیں جارہی ،کیلاش منت سماجت پر اتر آیا اور پھر اسے مسلمانوں سے ڈرایا لیکن شارینا پر کچھ اثر نہ ہوا ۔*
*آخر شارینا اسے مایوس چھوڑ کر واپس حدید کے پاس جا پہنچی اور اس کے ساتھ بچھے ہوئے کمبل پر لیٹ گئی ،وہ دن بھر کے تھکے ہوئے تھے بڑی جلدی سو گئے۔*


*جاری ہے بقیہ قسط۔10۔میں پڑھیں*
*<=======۔==========>*
RELATED POSTS


Post a Comment

if you have any doubt please let me know

Previous Post Next Post