URDU NOVEL OR NEEEL BEHTA RAHA EPISODE 8
INAYATULLAH ALTAMSH OR NEEL BEHTA RAHA ISLAMIC NOVEL
nischal prem stories,nischal prem,nischal prem poetry,subin bhattrai,nepali novel,nepali literature,shruti shambeg,saaya,ujyalo network,คั่นกู,2gethertheseries,2gether ep8,2gether episode 8,gmmtv,brightwin,byulsarang,2gether novel,2gether spoilers,เพราะเราคู่กัน,bright,win,salawat,tine,2gether reaction,2gether review,ไบร์ทวิน,ไบร์ท,วิน,bl,inka,episode 8,horror,urdu hindi,audio novel,ksvoice,khalid syed,khofnak kahaniya,horror stories,tharntype,thai bl,tharntypetheseries
*🌌🌟اور نــیـل بہـــتـارھـا🌟🌌*
*_🔲🌻قـســــــط نـــمـــبـــــر /8🌻🔲_*
EPISODE 8
*شارینا کا دماغ اس آگ کو سمجھنے سے قاصر تھا جو اس کے وجود میں بھڑک اٹھی تھی۔ حدید اس کی یہ روداد سنتا چلا جا رہا تھا۔ گھوڑے درمیانی رفتار سے چل رہے تھے۔* *سورج اپنا سفر پورا کر رہا تھا اور افق کے قریب جا پہنچا تھا۔*
*ہری بھری ٹیکریاں ایک دوسرے سے دور ھٹتی جارھی تھیں۔*
*حدید نے اپنے ذہن میں انطاکیہ کی سمت رکھی ہوئی تھی۔*
*ہر چالیس پچاس قدموں پر ٹیکریاں گھوڑوں کا رخ موڑ دیتی تھیں لیکن حدید اپنے ذہن سے صحیح سمت کو نکلنے نہیں دے رہا تھا۔*
*شارینا روانی سے بولتی چلی جا رہی تھی اس کی آواز میں جلترنگ جیسے ساز کا ترنم بھی تھا اور جذبات کا سوز بھی، لیکن جب وہ اس آگ کا تجربہ کرنے لگی جو اس کے وجود میں بھڑکی تھی تو اس کی زبان رکنے لگی ۔*
اس نے اپنا سارا ماضی بیان کر دیا تھا ، لیکن اس کی سوچوں میں جو انقلاب آیا تھا اسے وہ صحیح طور پر بیان کرنے سے قاصر ہوئی جا رہی تھی۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ انقلاب اللہ کا ایک عظیم انعام ہے جو خوش بختوں کو ہی ملا کرتا ہے۔
شارینا بڑی حسین اور نوجوان شہزادی تھی لیکن اس نے اپنے وجود کو اور اپنے کردار کو اور اپنی سوچوں کو شہنشاہیت سے پاک رکھا تھا ، شہنشاہیت کا مقصد ہوتا ہے عیش و عشرت اللہ کے بندوں کو حشرات الارض سمجھنا اور فرعونیت۔
شارینا نے نہ عشق و محبت کا کھیل کھیلا نہ اپنے حسن و جوانی کو دانہ و دام کی طرح استعمال کیا وہ ان جذبوں اور احساسات میں الجھتی چلی گئی جو اس کی سوچیں بیدار کرتی چلی جا رہی تھیں۔
شارینا حدید کو اپنی خوش بختی کی جو داستان سنا رہی تھی وہ دراصل اس پورے خطے کی داستان تھی وہ خطہ جسے آج عراق اور شام کہاں جاتا ہے باطل کی بڑی بے رحم گرفت میں آیا ہوا تھا عراق پر آتش پرست ایرانی اور شام اور مصر رومیوں کے قبضے میں تھے۔
پہلے متعدد بار بیان ہوچکا ہے کہ اس وقت یہ دو ہی جنگی اور شاہی طاقتیں تھیں ایرانی تو آگ کی پوجا کرتے تھے، اور رومی جنہوں نے(اپنی سوچ کے کےمطابق) حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا تھا اب عسائیت کے پیروکار تھے، اور بیت المقدس کو انہوں نے دنیا بھر کے عسائیوں کے لئے ایک کعبہ جیسا مقدس مقام بنا دیا تھا۔ مسجد اقصی کو وہ اپنی عبادت گاہ سمجھتے تھے۔
شارینا نے حدید کو ٹھیک سنایا تھا کہ ایرانیوں نے رومیوں سے شام اور مصر چھین لیے تھے۔ تاریخ کے مطابق یہ 614 عیسوی کا واقعہ ہے اس وقت روم کا بادشاہ فوکاس تھا وہ اپنی شاہانہ عیش پرستی میں ڈوبا ہوا تھا ۔اس نے اتنی بڑی شکست کو ہضم کر لیا، فوکاس صرف عیش و عشرت میں ہی نہ پڑا رہا بلکہ اس نے اپنے رعایا پر ظلم و تشدد شروع کردیا۔وہ اب لڑنے کی اور ایرانیوں سے مصر وشام فتح کرنے کی بات کرتا ہی نہیں تھا نہ سنتا تھا۔
اس نے جب دیکھا کہ رعایا بھی احتجاج کررہی ہے اور رعایا میں سے یہ آوازیں اٹھنے لگیں ہیں کہ ایرانیوں پر جوابی حملہ نہ کیا گیا تو وہ ان کے وطن روم پر بھی حملہ کر کے رومیوں کو غلام بنا لیں گے ، شاہ فوکاس نے لوگوں کے منہ بند کرنے کے لئے اپنی فوج استعمال کی اور فوج نے لوگوں پر بے پناہ ظلم و ستم ڈھائے۔
شارینا نے ہرقل کی بغاوت کی بات بھی صحیح سنائی تھی اس بغاوت کی تفصیلات تاریخ میں آج بھی موجود ہے ھرقل شارینا کی ماں کے ہاتھوں فوکاس کو زہر پلا کر بغاوت کی اور کامیاب ہو گیا وہ خود روم کے تخت پر بیٹھا اور 625 عیسوی میں اس نے مصر و شام پر ایسی یلغار کی ایرانیوں کو وہاں سے بھگا دیا اور ان دونوں ملکوں کو سلطنت روم میں شامل کرلیا۔
اس کے بعد ایرانیوں نے رومیوں سے ٹکر لینے کی جرات نہ کی ایران اور روم جنہیں تاریخ اسلام میں قیصر روم اور کسری ایران کہا گیا ہے یہ طاقت آپس میں ٹکراتی رہتی اور لوگ پستے رہتے اور ان کا خون بہتا ہی رہتا تھا۔
اس وقت کے وقائع نگار اس قسم کی تحریریں چھوڑ گئے ہیں کہ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ان دو طاقتوں میں سے کسی ایک کو بھی کوئی اور طاقت اٹھ کر کمزور کر سکے گی لیکن ایک تیسری طاقت ابھرتی چلی آ رہی تھی یہ صرف ایک جنگی طاقت نہیں تھی بلکہ ایک نظریہ تھا ، ابتدا میں ایرانیوں اور رومیوں کے محلات میں اس کی خبریں پہنچی تو ان دونوں قوموں نے کہا کہ یہ صحرائے عرب کے لٹیرے بدو ہیں انہوں نے مذاق اڑا کر ان خبروں کو نظرانداز کردیا۔
یہ تیسری طاقت افق سے اس طرح اٹھی جس طرح طوفان باد باراں کی کالی گھٹائیں بجلیوں سے لدی ہوئی اٹھا کرتی ہیں یا وہ صحرائی طوفان اٹھتا ہے جو ٹیلوں اور ٹھیکریوں کو اپنے ساتھ اڑا لے جاتا ہے، یہ تیسری طاقت ہتھیاروں سے کم اور ایک ایسے جذبے سے زیادہ لیس تھی جو اللہ نے وحی کے ذریعہ ان پر اتارا تھا یہ ایک ایسا لشکر تھا جس کی نفری بہت ہی تھوڑی تھی لیکن اسے اللہ نے ایسی قوت عطا کی تھی جسے ایمان کی قوت کہا جاتا ہے۔
عرب کے ریگزاروں میں سے یہ جو لشکر اٹھا تھا اس کے سپہ سالاروں کے دلوں میں ملک گیری کی ہوس نہیں تھی بلکہ وہ اللہ کا یہ پیغام لے کر نکلے تھے کہ روئے زمین پر حکمرانی صرف اللہ تبارک وتعالی کی ہے اور اللہ کا کوئی بندہ کسی بندے کو اپنا غلام نہیں بنا سکتا، اللہ نے اپنا یہ پیغام اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اتارا تھا ،اللہ کے یہ پراسرار بندے باطل کو نیست و نابود کرنے کے لئے انسانوں کو آزاد کرنے کرانے کے لئے، بنی نوع انسان کو بدی سے بچانے کے لئے ، اور اللہ کے بندوں میں حقوق العباد کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے نکلے تھے۔
یہ تیسری طاقت ایسی ابھری کہ تیز و تند طوفانوں کی طرح باطل کی قوتوں کو خس و خاشاک کی طرح اڑا اور بہا لے گئی ،اور ان بادشاہوں پر جو اپنے آپ کو ناقابل تسخیر قوت سمجھتے تھے یہ لشکر آسمانی بجلی بن کر گرے، پھر زمین و آسمان نے دیکھا کہ دنیا کی سب سے بڑی جنگی طاقتوں میں مٹھی بھر مجاہدین کے آگے ٹھہرنے کی تاب نہ رہی تھی، انہی مجاہدین کو ایرانیوں اور رومیوں نے عرب کے بدو کہا اور ہنس کر نظر انداز کر دیا تھا۔
عراق اور شام کے نصیب جاگے اور اللہ کا پیغام ان خطوں میں پہنچ گیا۔
اور اب ہرقل بھاگا بھاگا پھر رہا تھا اور اسے کہیں ایسی پناہ نہیں مل رہی تھی جہاں وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا یہ 634 اور 635 عیسوی کا دور تھا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
شارینا اور حدید کے گھوڑے اپنی چال سے چلے جا رہے تھے دوپہر کے وقت انہوں نے ایک جگہ بیٹھ کر کچھ آرام کیا اور گھوڑوں کو کھلا چھوڑ دیا کہ وہ کچھ کھا پی لیں، شارینا اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان لے آئی تھی دونوں نے کھانا کھا لیا اور پھر چل پڑے۔ شارینا کی داستان ابھی ختم نہیں ہوئی تھی وہ حدید کو گزرے دنوں کی باتیں اور وہ حادثات اور واقعات سنا رہی تھی جن کی وہ عینی شاہد تھی۔ اتنی سی عمر میں ہی اس نے زمانے کے کئی تغیر اور نشیب و فراز دیکھ لیے تھے۔
ان کے جو اثرات شارینا پر مرتب ہوئے تھے وہ بھی حدید کو سناتی چلی جا رہی تھی۔
جانتے ہو حدید ہرقل کی شکست کا اصل باعث کیا ہے؟ ۔۔۔شارینا نے کہا اس نے جب شاہ فوکاس کا تختہ الٹا اور خود اس کا جانشین بن گیا تو لوگ بہت خوش ہوئے تھے لوگ شاہ فوکاس کے ظلم و تشدد سے بہت ہی تنگ آگئے تھے، اور کچھ لوگ تو اپنے وطن سے ہمیشہ کے لئے چلے گئے تھے۔
لوگوں کو ایک تو یہ خوشی ہوئی کہ اب ہرقل ایرانیوں کو شکست دے گا اور روم کا وقار بحال ہو جائے گا ۔ رومیوں نے کبھی کسی سے شکست نہیں کھائی تھی اس لیے وہ ہرقل کوہی دل و جان سے چاہتے تھے کہ ان کا یہ طاقتور اور انتہائی قابل جرنیل ان کی قومی ابرو سے شکست کا داغ دھو ڈالے گا اور رومی قوم کے سر پھر اونچے ہو جائیں گے۔
لوگوں کو دوسری خوشی اس وجہ سے ہوئی کہ شاہ فوکاس نے اپنی عیش و عشرت اور شاہانہ بد مستی کے اخراجات عوام کا خون چوس کر پورے کرنے شروع کر دیے تھے ،لوگ روزبروز غریب ہوتے چلے جارہے تھے اور شاہ فوکاس محصولات میں اضافہ کرتا چلا جا رہا تھا ،لوگ روٹی کے ایک ایک نوالے کو ترسنے لگے اور ان کے دلوں میں شاہ فوکاس کی نفرت بیٹھ گئی، اگر روم کی فوج بغاوت میں ہرقل کا ساتھ نہ دیتے تو تمام لوگ اس کی مدد کو پہنچ جاتے اور اس بغاوت کو ہر قیمت پر کامیاب کرتے۔
بغاوت کے دوران کہیں کہیں شاہ پرست فوجی دستوں نے لوگوں پر مظالم توڑے تھے لیکن فوج کامیاب نہ ہوسکی کیونکہ لوگ مسلح ہوکر ان فوجی دستوں کے خلاف میدان میں نکل آئے تھے خونریز لڑائیاں بھی لڑی گئی تھی ، جن میں غیر فوجی لوگ خاصی تعداد میں مارے گئے تھے اور شاہ پرست فوج کا بھی جانی نقصان کچھ کم نہ تھا آخرکار یہ دستے لوگوں کے غیض و غضب کے آگے نہ ٹھہر سکے اور بچے کھچے سپاہی بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔
میں ہرقل کی شکست کی وجہ بتانے لگی تھی،لوگوں نے ہرقل کی تخت نشینی پر جشن منائے تھے ، ہرقل نے بھی لوگوں کو مراعات دے کر انہیں غربت سے نجات دلائی تھی اور لوگ رضاکارانہ طور پر اس کی فوج میں شامل ہو گئے تھے، تم جانتے ہو کہ فوجی تنخواہ کی خاطر لڑا کرتے ہیں انہیں مال غنیمت کا لالچ ہوتا ہے ۔
ان کے اندر کوئی جذبہ تو ہوتا نہیں نتیجہ یہ کہ دشمن کا ذرا سا بھی دباؤ برداشت نہیں کرتے اور فوج کی فوج بھاگ اٹھتی ہے لیکن جب ہرقل نے ایرانیوں پر حملہ کیا تو اس کی فوج جانوں کی بازی لگا کر لڑی ان کے دل میں اب تنخواہ اور مال غنیمت کا لالچ نہیں تھا بلکہ قومی جذبہ تھا اور یہ لوگ اپنے قومی ساکھ بحال کرنے کے لیے خون اور جان کے نذرانے دینے پر آمادہ تھے، اور انہوں نے یہ نذرانے دیے اگر یہ جذبہ نہ ہوتا تو ایرانیوں کو شکست دینا بڑا ہی محال تھا ہرقل نے شام بھی فتح کرلیا اور مصر بھی رومیوں نے فتح کے جشن ایسے انداز سے منائے جیسے خوشی نے انہیں پاگل کر ڈالا ہو۔
ہرقل نے مصر اور شام کے شہری انتظامات صحیح کر کے رواں کردیا اور فوج میں جو کمی واقع ہو گئی تھی وہ پوری کی اور دونوں ملکوں کے حالات نارمل ہوگئے ہرقل نے جب دیکھا کہ اب اس کی بادشاہی کو کسی طرف سے کوئی خطرہ نہیں تو اس نے لوگوں پر ٹیکس لگانے شروع کر دیے ایرانیوں کے خلاف جنگ اسے بہت مہنگی پڑی تھی خزانہ خالی ہو گیا تھا، شاہی خاندان نے عیاشیاں بھی کرنی ہوتی ہے، ہرقل نے شاہی اخراجات پورے کرنے کے لئے اور خالی خزانے کو بھرنے کے لئے اسی طرح لوگوں کا خون نچوڑنا شروع کردیا جس طرح شاہ فوکاس کیا کرتا تھا۔
ان ٹیکسوں کے نفاذ سے پہلے شام اور مصر کے لوگ بھی ہرقل کو پسند کرنے لگے تھے لیکن ہرقل نے ان سے نظر پھیر لی اور ان پر ایسابوجھ ڈال دیا کہ وہ ایک بار پھر نیم فاقہ کشی کی حالت کو پہنچ گئے،،،،،
ہرقل نے اپنے مذہب عیسائیت کی طرف توجہ دی اس وقت عیسائیت چند ایک فرقوں میں بٹ گئی تھی، اگر ان فرقوں کا وجود ہی ہوتا اور ہر فرقہ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق عبادت وغیرہ کررہا ہوتا تو ہرقل اس فرقہ بندی کی طرف توجہ ہی نہ دیتا لیکن اس نے دیکھا کہ یہ فرقے ایک دوسرے کو دشمن سمجھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً ان میں لڑائیاں بھی ہوتی ہیں اور ہر لڑائی میں کچھ آدمی مارے جاتے اور کچھ ایسے زخمی ہوتے کہ ٹانگ یا بازو یا دونوں سے معذور ہیں ہوجاتے تھے۔
یہ ایسی صورت حال تھی جو خانہ جنگی کی صورت اختیار کرسکتی تھی ہرقل نے ہر فرقے کے مذہبی پیشواؤں کے ساتھ بات کی تو اس نے دیکھا کہ ہر مذہبی پیشوا اپنے اپنے محاذ پر ڈٹا ہوا ہے اور وہ اپنے ہی فرقے کو صحیح العقیدہ سمجھتا ہے۔
ہرقل نے فیصلہ کیا کہ وہ اس فرقہ بندی کو ختم کرکے دم لے گا اس نے ایک سرکاری عیسائی مذہب تشکیل دے ڈالا اور حکم نامہ جاری کیا کہ تمام فرقوں کے عیسائی اس فرقے میں آ جائیں اور کوئی دوسرا فرقہ موجود نہ رہے ، ہرقل نے فرقہ بندی کو جرم قرار دے دیا، تم جانتے ہو کہ لوگ اپنے مذہبی عقیدے سے دست بردار نہیں ہواکرتے ،لوگوں نے ہرقل کا حکم تو سن لیا لیکن اپنے اپنے فرقے کے وفادار رہے اور ہرقل کا سرکاری مذہب قبول نہ کیا ، ہرقل نے لوگوں کا یہ ردعمل اور رویہ دیکھا تو اس نے فوج کو پوری اجازت دے دی کہ وہ لوگوں کو سرکاری مذہب کی طرف لائیں اور جو کوئی مزاحمت کرتا ہے اسے قتل کردیں چاہے قید خانے میں ڈال دیں۔ فوج نے من مانی شروع کردی گھر والوں کو خوف میں مبتلا کر کے عورتوں کی بے حرمتی کرتے اور ظاہر یہ کرتے کہ یہ گھر یا یہ خاندان فرقہ بندی سے دستبردار نہیں ہو رہا۔
ایک طرف لوگ ٹیکسوں کے بوجھ تلے پڑے کراہ رہے تھے اور دوسری طرف ان پر زبردستی ایسا مذہب چھوڑ دیا گیا جسے وہ صحیح اور کامل عسائیت نہیں سمجھتے تھے، وہ لوگ بادشاہ کا تو کچھ بگاڑ نہ سکتے تھے لیکن ہوا یہ کہ ان کے دلوں میں ہرقل کی نفرت پیدا ہو گئی اور انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ایک غلط قیصر روم کے خاطر قربانیاں دی تھیں۔
لوگوں کا ردعمل اس وقت سامنے آیا جب تم لوگوں نے شام پر حملہ کیا میں جانتی ہوں کہ ہمارے محل میں مسلمان کا نام آتا تھا تو سب ہنس پڑتے اور مذاق کے لہجے میں کہتے تھے کہ یہ عرب کے بدو حملہ کرنے آ رہے ہیں، وہ یہی کہتے تھے کہ یہ لوگ صرف لوٹ مار کرنا ہی جانتے ہیں لیکن میں نے دیکھا کہ ہرقل کی فوج مسلمانوں کی پہلی ضرب ہی نہ سہ سکی۔
یہ تو میں نے کبھی بھی نہیں مانا تھا کہ مسلمان اتنی بڑی طاقت ہو سکتے ہیں کہ ہماری فوج کو شکست دے دیں گے، لیکن ادھر ایرانیوں کو انہوں نے بھگا دیا اور ادھر ہرقل کے پاؤں اکھاڑ دیے۔
میں باہر نکل جایا کرتی تھی اور لوگوں سے پوچھتی تھی کہ مسلمان کیسے ہوتے ہیں اور وہ اتنی بڑی طاقت کس طرح بن گئے ہیں؟ ۔۔۔آہستہ آہستہ مجھے مسلمانوں کے متعلق معلوم ہوتا گیا کہ یہ کیسے لوگ ہیں ہر کوئی کہتا تھا کہ مسلمان صرف خدا کی حکمرانی کو مانتے ہیں اور وہ بنی نوع انسان کے خیر خواہ ہیں، میں اپنے دو تین فوجی افسروں سے بھی ملی تھی جو محاذوں سے بھاگ کر پیچھے آئے تھے ،انہوں نے بتایا کہ مسلمان جب کسی شہر یا کسی بستی کو فتح کر لیتے ہیں تو وہ لوگوں کے گھروں میں لوٹ مار نہیں کرتے اور کسی عورت کو خواہ وہ کیسی ہی حسین کیوں نہ ہو ہاتھ لگانا تو دور کی بات ہے اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے، پھر ان میں خوبی یہ دیکھی کہ وہ مفتوح لوگوں پر واجبی سا جزیہ عائد کر دیتے ہیں ،اور تمام لوگوں کی عزت اور جان و مال کے ضامن بن جاتے ہیں، یہاں کے لوگوں کے دلوں میں ہرقل کی نفرت بیٹھی ہوئی تھی انہوں نے مسلمانوں کا سلوک اور رویہ دیکھا تو لوگوں نے بازو پھیلا کر ان کا خیرمقدم کیا۔
لیکن شارینا!،،،، حدید نے کہا تمہاری فوج کی شکست کی وجہ صرف یہ نہیں کہ یہاں کے لوگ ھرقل سے نفرت کرتے تھے اور ان کے دلوں میں مسلمانوں کی محبت پیدا ہوگئی تھی تم نے شاید سنا نہیں کہ مسلمان کس بہادری بے خوفی اور بے جگری سے لڑتے ہیں ہر محاذ پر اور ہر لڑائی میں ہماری تعداد دشمن کی فوج سے چار گناہ کم ہوتی ہے،،، سنا ہے شارینا نے کہا۔۔۔۔ مسلمان مجھے اپنے کردار اور اخلاق کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ لڑنے کے جذبے کی بدولت اچھے لگتے ہیں یہی وجہ ہے کہ میں تمہارے ساتھ آ گئی ہوں حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس شخص ہرقل سے اتنی نفرت ہوگئی ہے کہ میں اب وہاں دل پر جبر کر کے وقت گزار رہی تھی مجھے پوری امید ہے کہ تم مجھے دھوکا نہیں دو گے۔
دھوکا دینا ہمارے ہاں گناہ ہے ۔حدید نے کہا۔۔۔ ایک عورت کو دھوکہ دینا تو ہمارے ہاں گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے میں تمہیں اتنی سی بات بتا دیتا ہوں کہ میں تم سے محبت کر سکتا ہوں لیکن اپنے فرائض اس محبت پر قربان نہیں کروں گا۔
میں تمہیں پہلے بتا چکی ہوں کہ مجھے صرف شہزادی نہ سمجھ لینا شارینا نے کہا ۔۔۔میں تمہیں بتا نہیں سکتی کہ تمہیں دیکھ کر اچانک میرے دل میں تمہاری محبت کس طرح پیدا ہوگی لیکن میں تمہارے ساتھ محبت کا جذباتی کھیل کھیلنے نہیں آئی، یہ تمہیں بتا دیتی ہوں کہ تم میرے دل میں اتر گئے ہو لیکن تمہاری جس خوبی نے مجھے تمہارا گرویدہ بنایا ہے وہ یہ تھی کہ تم نے ہرقل کے سامنے پوری جرات کے ساتھ بات کی اور بالکل صحیح بات کی یہ جانتے ہوئے کہ تم ہرقل کے قیدی ہو اور ہرقل تمہیں قتل کروا سکتا تھا تم نے وہی بات کی تھی جو تمہیں کرنی چاہیے تھی کوئی شخص ہرقل کے منہ پر ایسی بات نہیں کر سکتا میں نے مسلمانوں کے کردار کے متعلق جو کچھ سنا تھا وہ تم نے سچ ثابت کردکھایا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
شارینا کا حدید پر فریفتہ ہو جانا عجیب بات نہیں تھی، حدید خوبرو اور قدآور جوان تھا اس کی تراشی ہوئی داڑھی اس کے چہرے کی رونق کو دوبالا کرتی تھی اس کے چہرے پر جلال تھا ، ایسا جلال انہی لوگوں کے چہرے پر ہوا کرتا ہے جو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔
اب وہ ایسے علاقے میں چلے جا رہے تھے جہاں ایک اور خطرہ پیدا ہو گیا تھا وہ خطرہ یہ تھا کہ روم کی فوج کے شکست خوردہ سپاہی ایسی بری طرح پسپا ہوئے تھے کہ کئی ایک جنگلوں میں جا چھپے تھے۔
یہ سب فرداً فرداً یا دو دو چار چار کی ٹولیوں میں بکھرے ہوئے کسی ایسے شہر کی طرف جارہے تھے جو ابھی تک رومی فوج کے قبضے میں تھا ۔
حدید اور شارینا نے دور سے ایسے تین فوجی دیکھے تھے لیکن وہ فوجی انہیں نہیں دیکھ سکے تھے فاصلہ خاصا زیادہ تھا۔
سورج افق پر پہنچ گیا تھا اور اب ان دونوں کو کہیں رک کر رات بسر کرنی تھی ،کچھ اور آگے گئے تو حدید نے گھوڑا روک لیا اور شارینا کے کندھے پر ہاتھ رکھا شارینا نے بھی گھوڑا روک لیا حدید نے کان کھڑے کر لیے تھے اس نے شارینا سے کہا کہ اسے گھوڑے کی ہنہنانے کی آواز سنائی دی ہے اور شاید کچھ آدمی باتیں بھی کر رہے ہیں۔
جس طرف سے یہ آوازیں آئیں تھیں حدید اور شارینا نے اس طرف دیکھا اس طرح چھوٹی چھوٹی ٹیکریاں تھیں جو اتنی اونچی نہیں تھی کہ کسی آدمی کو پوری طرح اپنے پیچھے چھپا سکتی۔
ہری گھاس اونچی تھی اور جنگلی پودے وغیرہ بھی تھے تقریبا تین سو قدم دور حدید اور شارینا کو تین آدمیوں کے کندھے اور سر نظر آئے وہ گھوڑوں پر سوار تھے اور گھوڑوں کے کان نظر آ رہے تھے۔
*سورج ابھی غروب ہو رہا تھا ابھی اتنی روشنی موجود تھی کہ اتنی دور سے آدمی دیکھے اور پہچانے جا سکتے تھے، حدیداور شارینا نے بڑی تیزی سے اپنے گھوڑے ایک طرف کو موڑ لیے اور قریبی ٹیکری کے پیچھے چلے گئے تاکہ وہ تین آدمی انہیں نہ دیکھ سکے انہیں توقع یہی تھی کہ ان سواروں نے انھیں نہیں دیکھا وہ ایک بلند ٹیکری کے اوٹ میں ہو گئے تھے اور گھوڑوں کی رفتار ذرا تیز کر لی تھی*
*ان تینوں سواروں کا رخ مشرق کی طرف تھا اور حدید شارینا مغرب کی طرف جارہے تھے یعنی ان کی سمتیں ایک دوسرے سے الٹ تھی ابھی وہ ایک میل بھی دور نہیں گئے ہونگے کہ انہیں ایک بڑی ہی خوبصورت جگہ نظر آئیں وہاں شفاف پانی کا چشمہ تھا اور یہ پانی چند گز لمبے چوڑے تالاب کی صورت میں اکٹھا ہو گیا تھا اور ایک طرف سے بہ رہا تھا ،ارد گرد ذرا اونچی ٹھیکریاں تھیں جن پر خوشنما درخت اور ہری بھری جھاڑیاں تھیں ٹیکریاں اور پانی کے درمیان کشادہ جگہ تھی جہاں سر سبز گھاس تھی اور یہ جگہ رات گزارنے کے لئے نہایت موزوں تھی۔*
*وہ گھوڑے سے اترے حدید نے دونوں گھوڑوں کو گھاس کھانے کے لئے چھوڑ دیا اور خود ایک طرف بیٹھ گئے اور شارینا نے کھانے کا سامان نکالا۔*
*جاری ہے بقیہ قسط۔9۔میں پڑھیں*
Tags:
CURRENT AFFAIRS