EPISODE 10 HISTORY OF HAZRAT KHALID BIN WALEED
AND NILE FLOWING ON |ISLAMIC HISTORY
INAYATULLAH ALTAMASH ISLAMIC HISTORY WRITER 2020
(cartoons central,cartoons,central,best kids channel,kids channel,kids cartoon,cartoon network,funny cartoons,best cartoons,story,story of hazrat,khalid,story of hazrat khalid,story of hazrat khalid bin,waleed,story of hazrat khalid bin waleed (r. a),part 1,part,bin waleed,hazrat khalid,story of hazrat khalid bin waleed,history,documentary,lesson,study,educational,history lesson,world history,extra credits history,study history,learn history,battles,battle,heraclius,crusades,byzantium)
﷽❀❂┈🇵🇰
╗═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╔
*🌌🌟اور نــیـل بہـــتـارھـا🌟🌌*
╝═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╚
*_🔲🌻قـســــــط نـــمـــبـــــر /10🌻🔲_*
*آدھی* *رات گزر چکی تھی جب قریب کے ایک درخت پر بیٹھا ہوا ایک پرندہ بڑی زور سے پھڑپھڑایا۔*
*شارینا کی آنکھ کھل گئی اس کے قریب سوئے ہوئے حدید کے ہلکے ہلکے خراٹے بتا رہے تھے کہ وہ بہت گہری نیند سویا ہوا ہے۔*
*شارینا نے ویسے ہی لیٹے لیٹے دیکھا جہاں کیلاش نے بستر بچھایا تھا۔*
*ان تینوں کو سویا ہوا ہونا چاہیے تھا لیکن کیلاش بیٹھا ہوا تھا اور ایک سپاہی اس کے دائیں اور دوسرا اس کے بائیں بیٹھا تھا اور کیلاش سرگوشیوں میں ان کے ساتھ کچھ بات کر رہا تھا۔*
*شارینا کو ایک خیال یہ بھی آیا کہ وہ کیلاش کو جاکر دیکھیے اور اس سے پوچھے کہ وہ ابھی تک کیوں جاگ رہا ہے کیا زخم اسے سونے نہیں دے رہا ہے یا وہ درد محسوس کر رہا ہے اس نے کچھ دیر سوچا اور ذرا سی دیر کیلئے اس کے دل میں رحم کی لہر اٹھی زخموں کے معاملے میں وہ کیلاش کی کوئی مدد نہیں کر سکتی تھی لیکن اسے خیال آیا کہ کیلاش کے پاس جا بیٹھے اور اس کا دھیان اپنی باتوں کی طرف کر کے اس کے ذہن سے زخموں کا خیال نکال دے وہ اٹھنے ہی لگی تھی کہ اس کے دماغ میں ایک روشنی سی چمکی اور ایک شک ابھرا۔*
شک کیلاش کی نیت پہ تھا وہ یہ کہ کیلاش سپاہیوں سے کہہ رہا ہوگا کہ ایسے طریقے سے شارینا کو اٹھا لائیں کہ حدید کو پتہ نہ چل سکے مطلب یہ کہ کیلاش اسے زبردستی اپنے ساتھ لے جانے کی سازش کررہا ہوگا شارینا کی نیند اڑ گئی وہ لیٹی رہی اور انہیں دیکھتی رہی ہے۔
وہ سرگوشیوں میں کچھ کہہ رہا تھا اور دونوں سپاہی باربار شرینا اور حدید کی طرف دیکھتے تھے۔
شک اور پختہ ہوتا چلا گیا۔
آخر دونوں سپاہی اٹھے اور شارینا اور حدید کی طرف آنے کے بجائے دوسری طرف چلے گئے ۔
شارینا کچھ حیران ہونے لگی تھی ۔ یہ دونوں اس طرف کیوں جا رہے ہیں اس نے یہ دیکھ لیا کہ دونوں کی تلواریں ان کے ہاتھ میں تھی دونوں ساتھ والی چھوٹی سی ٹیکری کے اوٹ میں ہو گئے۔
کیلاش لیٹ گیا ۔شارینا نے کچھ اور چوکس ہو گئی ۔ اسے کچھ اطمینان ہونے لگا کے دونوں سپاہی کسی اور مقصد کے لئے اس طرف چلے گئے ہیں لیکن یہ خیال بھی آیا کہ وہ اپنے گھوڑوں پر زینیں ڈالنے کے لئے گئے ہونگے۔ آدھی رات کے وقت اس جنگل میں ان کا اور کام ہی کیا ہو سکتا تھا۔
اس وقت شارینا ایک پہلو پر لیٹی ادھر دیکھتی رہی تھی، اب اس نے کروٹ بدلنے کی ضرورت محسوس کی اور پیٹھ کے بل ہو گئی اس وقت چاند آگے نکل گیا تھا درختوں کے سائے لمبے ہو گئے تھے۔ شارینا نے محسوس کیا کہ اس پر کوئی سایہ پڑ رہا ہے جو پہلے نہیں تھا یہ دو سائے تھے جن میں سے ایک اس کے جسم پر اور دوسرا حدید کے جسم پر آہستہ آہستہ رینگ رہا تھا
شارینا نے اپنا دماغ حاضر رکھا اور فوراً پیچھے نہ دیکھا۔ وہ جان گئی کہ دونوں سپاہی ان کے سروں کی طرف سے دبے پاؤں ان کی طرف آہستہ آہستہ آ رہے ہیں۔
وہ دونوں عقل کے کورے معلوم ہو تو دھوتے تھے انہوں نے چاند کو نظر انداز کر دیا تھا جو ان کی پیٹھ کی طرف تھا انہوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ وہ ابھی دور ہی تھے کہ ان کے سائے شارینا اور حدید پر پڑنے لگے تھے۔ شارینا پیٹھ کے بل پڑی رہی اور اس نے کروٹ نہ بدلیں آنکھیں بند کر لی وہ ڈری تو یقینا ہوگی لیکن زیادہ ڈر یہ تھا کہ وہ حدید پر وار نہ کر جائیں۔
اسے اپنا نہیں حدید کا زیادہ خیال تھا ۔
شارینا کا دل بڑی تیزی سے دھڑکنے لگا
حدید اور شارینا کے درمیان دو تین قدموں کا فاصلہ تھا۔ ایک سپاہی ان دونوں کے درمیان آ کھڑا ہوا شارینا کی طرف منہ کر کے بیٹھ گیا اور اپنا چہرہ شارینا کے چہرے کے قریب لے گیا شارینا نے آنکھیں بند کر لی تھی اور اب وہ اس طرح آواز پیدا کرکے سانسیں لینے لگی جیسے گہری نیند سوئی ہوئی ہو۔
یہ سپاہی اٹھا شارینا نے کنکھیوں سے دیکھا دو سرا سپاہی حدید کے دوسرے پہلو کی طرف کھڑا تھا۔
شارینا نے دیکھا کہ دونوں نے تلوار ہاتھوں میں لے رکھی تھی رات اتنی خاموشی تھی کہ اپنے سانسوں کی آواز بھی سنائی دیتی تھی اسے ایک سپاہی کی سرگوشی سنائی دی۔
دیر نہ کر ۔
اب تو کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں تھی دونوں سپاہی حدید کے پہلوؤں کے ساتھ لگے کھڑے تھے اور انکے منہ ایک دوسرے کی طرف تھے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ وہ حدید کو قتل کرنے آئے تھے۔
کوئی وقت نہیں تھا ۔
تلوار حدید کے پاس تھی جو اس کے پہلو کے ساتھ رکھی تھی۔
شارینا کے پاس کھنجر تھا جو اس نے اپنے کپڑوں کے نیچے اڑس رکھا تھا۔
سپاہی جو شارینا اور حدید کے درمیان کھڑا تھا ، وہ جھکا۔
شارینا نے دیکھا وہ حدید کی تلوار اٹھا رہا تھا شارینا آہستہ آہستہ اپنا دایاں ہاتھ اپنے کپڑوں کے اندر لے گئی، دوسرا سپاہی جو حدید کے پہلو کے ساتھ کھڑا تھا وہ شارینا کی اس حرکت کو نہ دیکھ سکا کیوں کہ اس کے سامنے اس کا ساتھی کھڑا تھا جوں ہی یہ سپاہی حدید کی تلوار اٹھانے کے لیے جھکا شارینا بڑی تیزی سے اٹھی خنجر نکالا اور جھکے ہوئے سپاہی کی پیٹ میں اس جگہ پوری طاقت سے اتار دیا جہاں دل ہوتا ہے اس سپاہی نے سیدھا ہونے کی کوشش کی لیکن اس سے پہلے کہ وہ پیچھے کو دیکھتا شارینا نے ایسا ہی ایک اور بھرپور اس کی پیٹھ پر کیا، حدید کی آنکھ ابھی تک نہیں کھلی تھی۔ سامنے والے سپاہی نے دیکھ لیا تھا کہ اس کے ساتھی کی پیٹھ پر دوبار خنجر اتر گیا ہے۔ وہ اتنی جلدی فیصلہ نہ کر سکا کہ شارینا پر تلوار کا وار کرکے یا حدید کو پہلے قتل کر دے ۔
شارینا کا دماغ زیادہ تیز تھا ۔
جس سیپاہی کو اس نے خنجر مارے تھے ۔وہ ذرا سا سیدھا ہوا اور ایک طرف کو گرنے لگا لیکن گرنے سے پہلے ہی شارینا نے اس کے پیچھے اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور پوری طاقت سے اسے آگے کو دھکیلا، سپاہی سامنے والے سپاہی کے ساتھ ٹکرایا اور حدید کے اوپر گرا۔
حدید ہڑبڑا کر اٹھا زخمی سپاہی کی تلوار گر پڑی تھی۔
شارینا نے وہ تلوار اٹھالیں اور حدید کے اٹھنے سے پہلے آگے کو جست لگائی اور تلوار کا بھرپور وار سپاہی کے گردن پر کیا اور اس کی آدھی گردن کاٹ ڈالی۔
اتنے میں حدید پوری طرح بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہوا تھا اسے تو کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ شارینا نے جس سپاہی کی گردن کاٹ دی تھی وہ ابھی گرا نہیں تھا۔ شارینا نے تلوار برچھی کی طرح ماری اور اس سپاہی کے پیٹ میں اتار دی ۔
اور پھر زور سے پیچھے کو کھینچی دونوں سپاہی مر گئے حدید نے شارینا سے پوچھا یہ کیا ہو گیا ہے ؟۔۔۔
میرے ساتھ آؤ شارینا نے کیلاش کی طرف چلتے ہوئے کہا۔۔۔ اس سے پوچھتے ہیں۔
یہ ساری ورادات جیسے آنکھ جھپکتے ہوگئی۔ شارینا اور حدید کیلاش کی طرف چل پڑے کیلاش لیٹ گیا تھا لیکن اب بیٹھا ہوا تھا اس سے کھڑا تو ہو ہی نہیں جاتا تھا، بدطینت انسان شارینا نے کیلاش کے پہلو میں تلوار کی نوک چبھوتے ہوئے کہا ۔۔۔کیا تم مجھے اس طرح اپنے ساتھ لے جا سکتے تھے۔۔۔کیلاش منہ کھولے اور آنکھیں پھاڑے شارینا کی طرف دیکھتا رہا وہ جان گیا تھا کہ شارینا اب وہ لڑکی نہیں جس کے ساتھ اس نے محبت کی تھی بلکہ یہ لڑکی اب اس کے لیے سراپا موت بن گئی تھی۔
سچ بول ، شاید میں تجھے معاف کر دوں!،،،حدید نے کہا۔۔۔ کیا تو نے مجھے قتل کروانا تھا۔ یا ہم دونوں کو ، تیرا ارادہ کیا تھا؟ ۔۔۔
سچی بات بتادے۔۔۔ شارینا نے اب اس کے سینے میں تلوار کی نوک چبھوئی، مجھے بخش دو شارینا!،، ۔۔۔کیلاش نے روتی ہوئی آواز سے کہا۔۔۔ میں نے تم سے محبت کی ھے اور تم کہیں بھی چلی جاؤں گی میرے دل سے اپنی محبت نہیں نکال سکوں گی۔
میرے اس ساتھی سے بات کر جس نے تجھ سے کچھ پوچھا ہے ؟۔۔۔
شارینا نے ایک بار پھر تلوار کی نوک اسکے سینے میں چبھو کر کہا۔۔۔اسکے سوال کا صحیح جواب دے۔۔۔ابھی تیرے جسم سے جان نکل جائے گی۔ تو تیرے مردہ دل سے میری محبت بھی غائب ہوجائے گی ،فورا بول تیرا ارادہ کیا تھا؟ ۔۔۔
حدید!۔۔۔شارینا نے کہا۔۔۔ اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں اس نے تمہیں قتل کروانا چاھا تھا، بری طرح ناکام رہا تمہارا حق ہے کہ اسے ختم کر دو۔
میں تم دونوں سے التجا کرتا ہوں کیلاش نے بھیکاریوں کے لہجے میں کہا۔۔۔ مجھے قتل کرنے کا گناہ اپنے سر کیوں لیتے ہو میں تو مر ہی رہا ہوں مجھے اٹھا کر گھوڑے پر بٹھا دو زندگی ہوئی تو منزل پر پہنچ جاؤں گا جو مجھے ممکن نظر نہیں آتا۔
یہی ہوگا کہ بھوکا پیاسا گھوڑے کی پیٹھ پر ہی مر جاؤں گا نہ میں گھوڑے سے اتر سکتا ہوں نہ چل سکتا ہوں اور اتر جاؤں بھی تو کسی کی مدد یا سہارے کے بغیر گھوڑے پر سوار نہیں ہوسکتا۔
حدید! ۔۔۔شارینا نے جھنجلا کر کہا۔۔۔ تم سوچ کیا رہے ہو؟
اسے تو میں ہی قتل کر دوں لیکن یہ تمہیں اپنا دشمن سمجھتا ہے اس لیے تم ھی اسے قتل کرو۔
میری ایک بات شاید تمہیں اچھی نہ لگے شارینا! ۔۔۔حدید نے اپنی مخصوص مسکراہٹ سے کہا۔۔۔ جو مجھے قتل کرنے آئے تھے انہیں تم نے قتل کردیا ہے ۔
میرا مذہب اس معذور شخص پر ہاتھ اٹھانے سے منع کرتا ہے جو اپنے آپ کھڑا بھی نہیں ہو سکتا اور صرف معذوری کی وجہ سے رحم کی بھیک مانگ رہا ہے، دوسری بات یہ کہ اس تمام تر خطے میں میری اور اس کی فوجیں آپس میں لڑ رہی ہیں اسی لئے تمام علاقہ میدان جنگ ہے اگر یہ شخص مجھ سے لڑ رہا ہوتا اور میں اس کا مقابلہ کر رہا ہوتا تو میں قتل ہوجاتا یا اس سے نہ چھوڑتا لیکن یہاں معاملہ ذاتی ہو گیا ہے اس نے مجھے تمہاری خاطر قتل کرنا چاہا تھا۔
میں کسی اور مقصد کیلئے ایک عقیدہ دل میں بسائے میدان جنگ میں آیا تھا ۔
اس مقصد اور اس عقیدے کے سامنے اس جیسے معذور آدمی کا قتل گناہ کبیرہ ہے۔ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو اور باقی رات کچھ اور آرام کرلیں صبح یہاں سے روانہ ہو جائیں گے۔
شارینا نے کچھ کہا تو نہیں لیکن اس کاچہرہ بتاتا تھا کہ اسے حدید کا یہ فیصلہ منظور نہیں اس نے حدید کو گھور کر دیکھا اسے گھوڑے پر بٹھا دیتے ہیں شارینا نے کہا۔۔۔ تم جاؤ اس کے گھوڑے پر زین ڈال کر گھوڑا یہاں لے آؤ کیلاش نے شارینا کا شکریہ ادا کیا اور بھکاریوں کی طرح دعائیں بھی دی۔
گھوڑے کچھ دور ایک درخت کے ساتھ بندھے ہوئے تھے یہ تین گھوڑے کیلاش اور اس کے دونوں سپاہیوں کے تھے۔
حدید جا کر ایک گھوڑے پر زین ڈالنے لگا اور پھر اس نے زین اچھی طرح کس کر باندھی اور گھوڑے کو کیلاش کے پاس لے آیا اس نے کیلاش کو دیکھا، وہ اب بیٹھا ہوا نہیں بلکہ ایک پہلو پر لیٹا ہوا تھا۔
شفّاف چاندنی میں حدید کو کیلاش کا خون بہتا نظر آیا تب اس نے دیکھا کہ اس کا سر جسم سے کچھ الگ پڑا تھا لیکن گردن پوری طرح کٹی نہیں تھی۔
حدید نے شارینا کی طرف دیکھا ۔
کیا اس لئے مجھے یہاں سے چلتا کیا تھا ؟۔۔۔حدید نے شارینا سے پوچھا۔
اصول اور قائدے وہاں چلا کرتے ہیں جہاں سامنا غیرت والے اور کردار والے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ شارینا نے کہا۔۔۔تم اپنے مذہب کے پابند ہوں مجھ پر کوئی پابندی نہیں میں نے اس کی گردن کاٹ دی ہے میں نے اس کے ساتھ نیکی کی ہے کہ اسے قتل کردیا ہے اگر ہم اس کی بات مان لیتے اور اسے گھوڑے پر بٹھا دے تو تو یہ بھوک اور پیاس سے آہستہ آہستہ اور اذیت ناک موت مرتا اس کی سزا یہی ہونی چاہیے تھی ۔پھر اسے مارا کیوں؟ حدیث نے پوچھا؟ ۔۔۔
تم اتنی سی بات نہیں سمجھ سکے حدید! ۔۔۔شارینا نے کہا۔۔۔ اگر ہم اسے یہی زندہ چھوڑ جاتے یا اسے گھوڑے پر بٹھا کر رخصت کر دیتے تو یہ شخص ہمارے لئے بڑا خطرہ بن جاتا اسے لڑائی سے بھاگے ہوئے اپنے جیسے رومی فوجی مل سکتے تھے، یہ پہلا کام یہ کرتا کہ انہیں ہمارے پیچھے ڈال دیتا ۔
اسے قتل کر دینا ہی ٹھیک تھا دونوں اس جگہ گئے جہاں رومی سپاہیوں کی لاشیں پڑی تھیں انہوں نے وہ کمبل اٹھائے جن پر وہ سوئے تھے ،کچھ پرے جا کر کمبل بچھا کر لیٹ اور سو گئے صبح ابھی دھندلی تھی جب دونوں جاگ اٹھے اور کچھ کھا پی کر انہوں نے کیلاش اور اسکے سپاہیوں کے گھوڑے بھی اپنے پیچھے باندھ لئے اور چل پڑے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷==÷*
ادھر رہاء میں ہرقل کے شاہی خاندان کے اتنے زیادہ افراد میں صرف ایک عورت تھی جو شارینا کے لئے پریشان تھی وہ تھی اس کی ماں وہ روتی اور آہیں بھرتی تھی اسے اتنا یقین ضرور تھا کہ شارینا اغوا نہیں ہوئی اور قتل بھی نہیں ہوئی، وہ اپنی بیٹی کے خیالات اور جذبات کو سمجھتی تھی وہ یہ بھی سمجھ گئی کہ شارینا کو یہ مسلمان قیدی اچھا لگا ہوگا اور اس سے رہا کروا کے اس کے ساتھ چلی گئی ہے۔
لیکن شارینا زندہ بھی تھی تو ماں کو تو نہیں مل سکتی تھی۔
ھرقل شارینا کا اگر باپ نہیں تھا تو اس کے ماں کا خاوند تو تھا لیکن اس نے ایسی بے رخی کا مظاہرہ کیا تھا جیسے شارینا کے ساتھ اس کا کسی بھی قسم کا تعلق نہیں تھا۔
ویسے بھی شارینا کی ماں ہرقل کے کام کی نہیں رہی تھی وہ اپنی نوجوانی اور جوانی ہرقل پر قربان کر چکی تھی۔
اس وقت شارینا ہرقل کے دل یا ذہن میں داخل ہو نہیں سکتی تھی ،کیونکہ ہرقل کے اعصاب پر اور سوچوں پر شکست غالب آگئی تھی ،اور وہ سوچ سوچ کر تھک گیا تھا کہ شکست کو اسی مرحلے پر کسی طرح روک لے اور پھر شکست کو فتح میں کس طرح تبدیل کرے، کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔
شارینا کی ماں جب اس کی گمشدگی کی اطلاع ہرقل کو دینے گئی تھی تو ہرقل نے اسے ٹالنے کے لیے بے رخی کی تھی اس نے کچھ اس طرح کے الفاظ کہے تھے، کہ جانے والوں کا مجھے غم نہیں، میں آنے والوں کا انتظار کررہا ہوں، شارینا کی ماں یہ الفاظ سن کر ہرقل کے کمرے سے نکل گئی تھی۔
وہ کون تھے جن کے متعلق ہرقل نے کہا تھا کہ وہ آنے والوں کا انتظار کررہا ہے۔
اس سوال کا جواب تاریخ میں موجود اور محفوظ ہے مؤرخوں نے ہرقل کی اس وقت کی بے تابیاں اور خیالوں کے قلابازیاں قلمبند کر لی تھی، اور کچھ سینہ بسینہ آج کے دور تک پہنچی۔
یہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ہرقل کی اتنی کثیر فوج ہر میدان میں قلیل تعداد مجاہدین اسلام سے شکست کھاتی پسپا ہوتی چلی جا رہی تھی حتیٰ کہ پورا ملک شام خالی کر گئی۔ اور بحیرہ روم کے کناروں تک جا پہنچی ۔
کچھ بڑے قلعہ بند شہر رومیوں کے پاس تھے
ان میں قابل ذکر انطاکیہ، حلب، مرعش، بیروت ہیں۔ چند اور مقامات بھی تھے جو ابھی رومیوں کے ہاتھ میں تھے۔
ہرقل نے اپنی فوج ان مقامات پر تقسیم کردی اور حکم یہ دیا کہ اپنی فوج اکٹھی نہیں بلکہ بکھرے ہوئے ٹکڑوں کی صورت میں لڑے گی اس کی یہ چال جیسا کہ پہلے سنایا گیا ہے یہ تھی کہ اس کے مطابق مسلمانوں کا لشکر بھی بٹ جائے گا اور جو پہلے ہی قلیل تعداد میں ہیں اور زیادہ قلیل ہو جائے گا۔
اب وہ خود رہاء میں جا پہنچا تھا اور اس کا منصوبہ یہ تھا کہ اس ساری فوج کو ایک مقام پر اکٹھا کر لے اور پھر مسلمانوں کے لشکر کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں پر حملہ کرے۔ چال تو بڑی اچھی تھی لیکن اپنی فوج کو اکٹھا کرنا اس کے لیے دشوار ہو رہا تھا اس نے ان تمام مقامات پر پیغام بھیج دیا تھا کہ فوج رہاء میں آ کر اکٹھا ہوجائے۔
ابھی تک کوئی قاصد واپس نہیں آیا تھا یہ تھے وہ لوگ جن کے متعلق اس نے کہا تھا کہ وہ آنے والوں کے انتظار میں ہے، اس نے چال تو بڑی اچھی سوچی تھی لیکن وہ بھول گیا تھا کہ مجاہدین اسلام کے سپہ سالار اور دیگر سالار بھی کچھ عقل رکھتے ہیں۔
اسے ابھی معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ عرب کے سپہ سالاروں نے اس کی یہ چال پہلے ہی بیکار کردی ہے وہ اس طرح کے ہرقل نے اپنی فوج کو جن مقامات پر بکھیر دیا تھا مجاہدین اسلام کے سپہ سالار نے اپنے لشکر کو اسی کے مطابق تقسیم کر کے ان مقامات کی طرف بھیج دیا تھا ہرقل کی یہ چال یہاں تک تو کامیاب ہوئی کہ مسلمانوں کا لشکر اس کی سوچ کے مطابق بکھر گیا تھا لیکن اسے ابھی یہ بتانے والا کوئی نہ تھا کہ مسلمانوں کے بکھرے ہوئے لشکر نے رومی فوج کو ان مقامات پر روک لیا ہے جہاں ہرقل نے اس کے ٹکڑے کر کے بھیجا تھا ۔ ہر مقام پر مسلمانوں نے رومی فوج کے راستے مسدود کردیئے۔
ان مقامات میں سب سے بڑا مقام انطاکیہ تھا ہرقل کو اپنے اس قلعہ بند شہر پر بڑا ہی ناز تھا ، ہونا بھی چاہیے تھا اس کا محل وقوع ہی ایسا تھا کہ اس کے مزید دفاع کی ضرورت ہی نہیں رہتی تھی پھر بھی اس شہر کے چاروں طرف چوڑی اور انتہائی مضبوط اور بلند دیواریں کھڑی کر دی گئی تھیں، تاریخ میں لکھا ہے کہ ان دیواروں کی بلندی دیکھنے والوں کو حیران کر دیتی تھی وہ پہاڑی علاقہ تھا اور شہر ایسی جگہ آباد کیا گیا تھا کہ چاروں طرف پہاڑ تھے یوں لگتا تھا جیسے اس شہر کو پہاڑوں نے آغوش میں لے رکھا ہے۔ شہر تک پہنچنے کے لئے اس پہاڑی علاقے کی بھول بھلیوں سے گزرنا پڑتا تھا مختصر یہ کہ انطاکیہ شام کا انتہا درجے کا مستحکم اور ناقابل تسخیر شہر تھا ،یہی وجہ تھی کہ ہرقل کے جو فوجی دستے مجاہدین اسلام کے نعروں اور تلواروں سے بچ نکلتے تھے وہ انطاکیہ کا رخ کرلیتے تھے، جس کے متعلق انہیں پورا یقین تھا کہ اسے مسلمان کسی طور پر فتح نہیں کر سکیں گے۔
اس طرح انطاکیہ میں اس تعداد سے کہیں زیادہ فوج اکٹھا ہوگئی تھی جو عام حالات میں وہاں رکھی جاتی۔ اسلامی لشکر کے سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ تھے ،ان کے دست راست خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ تھے ۔
ہم داستان تو کچھ اور سنا رہے ہیں لیکن تاریخ اسلام کے عظیم سپہ سالار خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا نام آیا ہے تو بے محل نہ ہوگا کہ ان کا تھوڑا سا ذکر ہو جائے۔
قیصر روم کی فوجوں کے قدم ملک شام سے خالد بن ولید نے اکھاڑے تھے، اور یہ تاریخ اسلام کا ایک درخشندہ باب ہے، ابوعبیدہ خالد بن ولید کے ماتحت تھے لیکن رومی فوجوں کے قدم اکھڑ گئے اور ان کی فوج شہر خالی کرتی پیچھے ہی پیچھے ہٹنے لگی تو امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو سپہ سالار بنا کر خالد بن ولید کو ان کے ماتحت کر دیا۔
آج ہم احتساب، احتساب ،کے نعرے سنتے ہیں تو دھیان خلفائے راشدین کے دور کی طرف چلا جاتا ہے۔
جب احتساب کے اعلان نہیں کئے جاتے تھے نہ احتساب کے بیان دیئے جاتے تھے ، اس وقت کسی بڑے حاکم کا احتساب ہو چکتا اور اسے سزا دی جاتی تو قوم کو پتہ چلتا تھا اور سب اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مزید چوکس ہو جاتے تھے، اور نظم و نسق اور سزا و جزاء کی بڑی واضح مثال خالد بن ولید کی ہے ۔
مختصراً،، یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ خالد بن ولید نے ایک شاعر کو دس ہزار درہم انعام دے دیا تھا ،اس کی اطلاع امیرالمؤمنین حضرت عمررضی اللہ عنہ کو مل گئی انہوں نے اسی وقت قاصد بھیجا کہ خالد بن ولید کو باقاعدہ گرفتار کرکے مدینہ لایا جائے۔
وہ خالد بن ولید ہی تھے جن کی عسکری فہم و فراست اور بے مثال شجاعت کی بدولت آدھا ملک شام مجاہدین کے قبضے میں آ گیا تھا۔
اور رومی فوج یا کسی نہ کسی مقام پر جم کر لڑنے کے لیے یکجا اور منظم ہو رہی تھیں۔ جنگ ایسے عروج پر جا پہنچی تھی جہاں ذرا سی بھی کوتاہی یا کم فہمی سے پانسہ پلٹ سکتا تھا۔
*جنگی امور کے غیر مسلم مبصر لکھتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں خالد بن ولید جیسے قابل جرنیل کو ذرا سی غلطی پر پیچھے بلا لینا بہت بڑی جنگی لغزش تھی لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ قوم میں ڈسپلن قائم رکھنا چاہتے تھے، انہوں نے یہ خطرہ مول لے لیا کہ خالد بن ولید کو سپہ سالاری سے معزول کرکے مدینہ بلا لیا اور ان کی جگہ ابو عبیدہ کو سپہ سالار بنا دیا ان کا موقف یہ تھا کہ آج ایک سپہ سالار نے خلاف دین حرکت کی ہے تو کل یہ بدعت نیچے کے درجوں تک آ جائے گی اور اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ اسلام کی پھیلتی ہوئی سلطنت سکڑنے لگے گی۔*
*امیر المومنین نے خالد بن ولید سے کہا کہ تم وہ وقت بھول گئے ہو جب ہم لوگ بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی کھاتے تھے اور آج تم نے ایک شاعر کو دس ہزار درہم انعام دے دیا ہے۔ اور انعام اس وجہ سے دیا ہے کہ اس نے تمہاری مدح میں شعر کہے ہیں۔*
*خالد بن ولید نے اپنی صفائی میں کہا کہ انہوں نے یہ رقم اپنی ذاتی جیب سے دی ہے۔ حضرت عمر نے کہا ۔۔۔کہ تم نے اگر اپنی جیب سے یہ رقم دی ہے تو یہ اسراف یعنی فضول خرچی ہے اور اگر تم نے یہ رقم مال غنیمت میں سے دی ہے تو یہ بد دیانتی ہے خالد بن ولید کے کردار کی عظمت دیکھئے کہ وہ اس قدر طاقت حاصل کرچکے تھے کہ واپس شام جاکر اپنے مفتوحہ علاقوں میں خودمختاری کا اعلان کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا سوچا ہی نہیں اور امیر المومنین نے انہیں معزولی کی جو سزا سنائی تھی وہ سرتسلیم خم کرکے قبول کرلی۔ امیرالمومنین کے حکم سے خالد بن ولید اپنے محاذ پر واپس چلے گئے مگر اب وہ اپنے لشکر کے سپہ سالار نہیں تھے بلکہ ابو عبیدہ کے صوابدید پر چھوڑ دیے گئے تھے کہ وہ انہیں جس طرح چاہیں استعمال کریں۔*
*غیر ملکی تاریخ نویسوں اور مبصروں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی فتوحات کا اصل باعث یہی تھا کہ ان میں ڈسپلن تھا، اور دیانتداری تھی، وہ خدا کے نام پر لڑتے تھے،* *اور خدا کے دکھائے ہوئے راستے پر ہی چلتے تھے، سزا و جزا اور عدل و انصاف کے معاملے میں کسی کا درجہ نہیں دیکھا جاتا تھا۔*
*<===۔==============>*
*جاری ہے بقیہ قسط۔11۔میں پڑھیں*
*<=======۔==========>*
- RELATED POSTS:
- EPISODE NO1
- EPISODE NO2
- EPISODE NO.3
- EPISODE 4
- EPISODE 5
- EPISODE 6
- EPISODE 7
- EPISODE 8
- EPISODE 9
Tags:
CURRENT AFFAIRS