*❂•🇵🇰┅❂❀﷽❀❂┈
╗═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╔
*🌌🌟اور نــیـل بہـــتـارھـا🌟🌌*
╝═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╚
*_🔲🌻قـســــــط نـــمـــبـــــر /7🌻🔲_*
*سورج کبھی کا غروب ہو چکا تھا اور رات گہری ہو گئی تھی اس وقت شارینا وہاں سے بہت دور پہنچ گئی تھی۔*
*اور اس کے سفر کا ایک دن گزر گیا تھا مسلمان قیدی کا نام حدید بن مؤمن خزرج تھا۔ خزرج عرب کا ایک بڑا ھی مشہور قبیلہ تھا۔ پہلے تو ہم یہ دیکھں لیں کہ شارینا اور حدید اس شہر سے نکلے کس طرح قیدخانہ آبادی سے کچھ دور تھا اور آگے ویران اور بیابان علاقہ تھا۔*
*کچھ دور تک شارینا گھوڑے پر سوار رہی اور اس کے کہنے سے حدید نے گھوڑے کی باگ پکڑے رکھی کہ کوئی اجنبی دیکھ لیتا تو یہی سمجھتا کہ وہ کسی امیر وزیر کی بیٹی ہے اور باگ اس کے نوکر نے پکڑ رکھی ہے۔*
*حدید نے راستے میں بھی شارینا سے پوچھا کہ وہ جا کہاں رہے ہیں؟*
*شارینا نے اسے کہا تھا کہ وہ خاموشی سے اس کے ساتھ چلتا چلے۔*
*حدید پر کسی قسم کا خوف اور خدشہ طاری نہیں تھا۔*
*وہ بڑا خوبرو جوان تھا اور اس کے جسم میں طاقت بھی تھی اور پھرتی بھی۔*
قید خانے سے کچھ دور ہی گئے ہوں گے کہ وہ دونوں دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو گئے سطح مرتفع علاقہ شروع ہوگیا تھا چھوٹے بڑے نصیب تھے اور کہیں کہیں زمین اوپر کو ابھری ہوئی تھی۔
اور اس سے آگے باقاعدہ ٹیکریں آگئیں درخت بھی تھے اور جھاڑیاں بھی اور وہاں کوئی باقاعدہ راستہ نہیں تھا کوئی پگڈنڈی نہیں تھی اور صاف پتہ چلتا تھا کہ ادھر سے مسافر کم ہی گزرتے ہیں۔
ذرا اور آگے گئے تو ایک آدمی نظر آیا جس کے ساتھ ایک گھوڑا کھڑا تھا اس آدمی نے گھوڑے کی باگ پکڑ رکھی تھی۔
شارینا نے اس کے قریب جاکر گھوڑا روک لیا وہ کوئی ادھیڑ عمر آدمی تھا ۔
شارینا اپنے گھوڑے سے اتر رہی تھی۔
اور وہ گھوڑے کو اور قریب لے آیا، تم اس گھوڑے پر سوار ہو جاؤ شارینا نے حدید سے کہا۔
حدید کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ یہ وہی گھوڑا تھا جس کے متعلق شارینا نے قید خانے سے نکل کر کہا تھا کہ آگے چل کر الگ گھوڑا مل جائے گا۔
یہ ادھیڑ عمر آدمی یقیناً شارینہ کا ملازم تھا۔ حدید اس کے گھوڑے پر سوار ہو گیا ۔
حدید نے سوار ہوکر شارینا کی طرف دیکھا، شارینا ابھی اپنے گھوڑے پر سوار نہیں ہوئی تھی ۔
ادھیڑ عمر آدمی اس کی تعظیم میں اتنا جھک گیا تھا کہ رکوع کی حالت میں چلا گیا ۔
شارینا آخر شہزادی تھی اور یہ شخص اس کا نوکر یا سائیس تھا ۔
اس کے علاوہ اس نوکر کو توقع ہو گی کہ شہزادی اس کو انعام دے گی۔
شارینا شہزادی نے اسے انعام یہ دیا ،کہ وہ ابھی رکوع سے اٹھا نہیں تھا کہ شارینا نے بڑی تیزی سے اپنے کپڑوں کے اندر ہاتھ کر کے خنجر نکالا اور خنجر بلند کرکے بڑی زور سے خنجر اس آدمی کے پیٹ میں گھونپ دیا اس سے پہلے کہ یہ آدمی سیدھا ہوتا شارینا نے اس کے پیٹ سے خنجر نکال کر ایسا ہی ایک اور وار اسی مقام پر کیا۔
پیٹ کا یہ وہ مقام تھا جہاں دل ہوتا ہے وہ بد قسمت آدمی سیدھا ہو ہی نہ سکا اور ایک پہلو پر زمین پر گر پڑا شارینا اس کے پاس کھڑی دیکھتی رہی ۔
موت نے اپنا کام بڑی تیزی سے مکمل کرلیا شارینا نے خون آلود خنجر لاش پر جھک کر اس کے کپڑوں پر صاف کیا اور نیام میں ڈال دیا اس آدمی نے کمر کے ساتھ چمڑے کی پیٹی سے تلوار باندھ رکھی تھی شارینا نے پیٹی کھول کر تلوار اور پیٹی کھینچی اور پھر حدید کو دیکھ کر کہا کہ یہ اپنی کمر سے باندھ لو اب تم نہتے نہیں رہو گے۔
شارینا نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔ میرے پاس تو خنجر ہے ۔
اسے کس گناہ کی سزا دی ہے؟ حدید نے پوچھا ۔۔۔یہاں رکنا نہیں ہے شارینا نے کہا ابھی ہم خطرے میں ہیں۔
وہ گھوڑے پر سوار ہوگئی اور لگام کو جھٹکا دیا گھوڑا چل پڑا تو وہ بولی یہ شخص ہمارے لئے بہت بڑا خطرہ بن سکتا تھا ۔
یہ میری ماں کی خوشنودی اور انعام حاصل کرنے کے لیے اسے بتا دیتا کہ میں ایک آدمی کے ساتھ فلاں طرف نکل گئی ہوں۔
ماں فوراً ہمارے تعاقب میں گھوڑ سوار بھیج دیتی میرا کسی نے کیا بگاڑ لینا تھا تم قتل کر دئے جاتے ۔
یہ تو بتا دو تم ہو کون ؟
حدید نے پوچھا۔۔۔ تمہیں میرا نام مجھ سے پوچھے بغیر معلوم ہے اپنا نام ہی بتا دو یہ بھی پوچھنا چاہوں گا کہ مجھے لے جا کہاں رہی ہوں۔
میرا نام شارینا ہے۔۔۔ شارینہ نے کہا ۔۔۔میں شاہ ہرقل کے خاندان کی شہزادی ہوں میری ماں شاہ ہرقل کی بیوی ہے لیکن میں اس کی بیٹی نہیں بلکہ اس سے پہلے روم کا بادشاہ فوکاس ہوا کرتا تھا میں اس کی بیٹی ہوں۔ پوچھتے ہو میں تمہیں کہاں لے جا رہی ہوں تمہیں پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ میں تمہیں نہیں لے جارہی بلکہ تمہارے ساتھ جا رہی ہوں۔ ایک بار پھر سن لو مجھے اپنی فوج میں لے چلو، لیکن کیوں ؟۔۔۔حدید نے پوچھا۔۔۔ میرے ساتھ تمھارا تعلق ہی کیا ہے؟ کیا میں ایسا شک نہ کروں کہ تم مجھے کسی ایسے مقصد کے لئے کہیں لے جا رہی ہوں جو میرے لئے ٹھیک ہو ہی نہیں سکتا؟
تم مرد ہو تمہارے پاس تلوار ہے شارینا نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ جہاں کہیں خطرہ محسوس کرو گے مجھے وہی قتل کر دینا ۔
اس نے اپنے گھوڑے کو ہلکی سی ایڑ لگا کر کہا کچھ دور تک گھوڑوں کو دوڑنے دو ۔
آگے ایسا علاقہ آرہا ہے جہاں گھوڑے ٹھیک طرح دوڑ نہیں سکے گے۔ نہ انہیں دوڑانا ہے۔ آگے چل کر بتاؤں گی میں کون ہوں اور پھر تم مجھے بتانا کہ میں پاگل تو نہیں!،،
زمین کچھ اوپر اٹھتی جا رہی تھی آگے چٹانیں بھی تھی اور گھاس، پودوں، اور درختوں سے لدی ہوئی خوبصورت ٹیکریاں بھی تھیں کچھ آگے جا کر شارینا نے گھوڑا روک لیا اور پیچھے دیکھا حدید بھی گھوڑا روک کر پیچھے دیکھا، درختوں کے اوپر سے روہاء کا قلعہ بند شہر نظر آ رہا تھا وہ اس شہر سے دور نکل آئے تھے۔
دور افق تک دیکھو،، ۔۔۔شارینا نے جذباتی لہجے میں کہا۔۔۔ کتنا خوبصورت علاقہ ہے۔۔۔ اب یہ علاقہ تمہارا ہے ۔
روم کی شہنشاہی سے نکل گیا ہے روم کے بادشاہ اور مجھ جیسی شہزادیاں ماضی کا قصہ بن جائیں گی۔
کیا مجھے سمجھنے کی کوشش کرو گے حدید؟ ۔۔۔تم مجھے روم کے خاندان کی شہزادی سمجھتے ہو لیکن مجھے شاہ ہرقل کی فتح کی اتنی خوشی نہیں ہوئی تھی جتنی اس کی پسپائی سے ہو رہی ہے۔ چلو زیادہ رکنا ٹھیک نہیں۔
انہوں نے گھوڑے موڑے اور اپنے سفر پر چل دئیے لیکن ابھی دونوں کو معلوم نہیں تھا کہ ان کی منزل کہاں ہے اب تم میرے رہنما ھو۔
شارینا نے کہا ۔۔۔یہ اندازہ کر لو کہ تم کہاں سے پکڑے گئے تھے اور تمہاری فوج کہاں ہوگی ۔اب مجھے اپنی ملکیت سمجھو قیدی سمجھو یا ہمسفر میری زندگی کا سفر تمہارے ساتھ گزرے گا ۔
وہ اب چٹانوں اور اونچی نیچی ٹیکریوں کے علاقے میں داخل ہو چکے تھے وہاں کوئی سیدھا راستہ نہیں تھا حدید ویسے ہی اندازے پر جا رہا تھا۔
محل میں لوگ مجھے اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے شارینا نے اپنی بات شروع کی بعض مجھے کم عقل کہتے ہیں اور مجھے پاگل کہنے والے بھی کچھ کم نہیں وہ ٹھیک کہتے ہیں میری باتیں اور میری عادتیں کچھ ایسی ہی ہیں میں شہزادی ضرور ہوں لیکن ان شہزادیوں میں سے نہیں جن کی لوگ کہانیاں سنتے سناتے رہتے ہیں۔
شاید میرے خون میں کوئی خرابی ہے۔
تم اصل بات سناؤ شارینا! ۔۔۔حدید نے کہا۔۔۔ میں تمہیں بتاؤں گا کہ خرابی تمہارے خون میں ہے یا دماغ میں۔
میری ماں کو تم نے نہیں دیکھا شارینا نے کہا۔۔۔ بہت ہی خوبصورت عورت ہے میں اس کی واحد اولاد ہوں وہ نسلاً شاہی خاندان سے نہیں ،عرب کے کسی بہت ہی امیر تاجر خاندان کی لڑکی تھیں تم جانتے ہو تاجر تجارت کے معاملے میں ملک ملک پھرتے رہتے ہیں اور قافلے کے ساتھ سفر کرتے ہیں میری ماں کی عمر سولہ سترہ سال تھی جب ایک بار اس کے باپ نے کہا کہ وہ تجارت کے لیے مصر جا رہا ہے اور سب کو ساتھ لے جائے گا۔
اس طرح وہ اپنے پورے کنبے کو ساتھ لے گیا۔ میری ماں تھی اس کے چھوٹے دو بھائی تھے اور اس کی ماں تھی اور ایک چچا بھی ساتھ تھا مجھے یہ باتیں ماں نے سنائی تھیں۔
بہت بڑا قافلہ تھا اور اس قافلے میں زیادہ تعداد تاجروں کی تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ اس قافلے کے ساتھ دولت بھی بہت جارہی تھی اور مختلف قسم کے تجارتی مال کا تو کچھ شمار نہ تھا۔
صحرائی قزاق ایسے قافلوں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں انہیں اس قافلے کی بھی خبر ہو گئی کچھ دنوں بعد یہ قافلہ ملک شام میں داخل ہوا تو ایک جگہ قزاقوں نے اسے روک لیا قافلے تو اب بھی لوٹتے ہیں اور تم جانتے ہو گے انہیں کس طرح لوٹا جاتا ہے۔
ماں بتاتی ہے کہ قزاق کوئی تھوڑے تو نہیں تھے یوں پتہ چلتا تھا جیسے آسمان سے گدھوں کے غولوں اور زمین سے سیکڑوں بھیڑیوں نے حملہ کر دیا ہو ۔
میری ماں نوجوان بھی تھی اور خوبصورت اتنی کہ اس پر لگی ہوئی نظر ہٹتی نہیں تھی ایک قزاق نے میری ماں کو اٹھا لیا وہ دن اور آج کا دن میری ماں کو معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کے ماں باپ اور بھائیوں کا کیا انجام ہوا تھا۔ قزاق ماں کو اغوا کر کے لے گئے۔
میں تصور میں لا سکتی ہوں کے اس کم سنی میں میری ماں کس قدر قیمتی ہیرے جیسی ہوگی وہ کوئی عام سی لڑکی ہوتی تو کھلی منڈی میں فروخت ہو جاتی لیکن وہ امراء کی بھی نہیں بلکہ بادشاہوں کی پسند کی چیز تھی اس وقت مصر اور شام پر رومیوں کی حکومت تھی اور بادشاہ فوکاس تھا وہ بادشاہوں جیسا بادشاہ تھا شاہانہ عیاشیوں میں ڈوبا ہوا ۔
اپنے آپ کو خدا سمجھتا تھا اور لوگ اس کے آگے سجدے کرتے تھے۔
قزاقوں نے اس تک رسائی حاصل کرکے میری ماں کی جھلک اسے دکھائی تو وہ جیسے میری ماں پر مر ہی مٹا ہو۔
آخر بادشاہ تھا منہ مانگے دام دے کر اس نے میری ماں کو خرید لیا بادشاہ شادی کے جھنجٹ میں پڑنے کی ضرورت محسوس نہیں کیا کرتے انہیں جو لڑکی اچھی لگتی ہے اسے عارضی یا مستقل داشتہ بنا کر اپنے محل میں رکھ لیتے ہیں میری ماں کے حسن اور نوجوانی سے شاہ فوکاس ایسا متاثر ہوا کہ اس نے میری ماں کے ساتھ باقاعدہ شادی کر لی ۔
بادشاہوں کی شادیاں بھی برائے نام ہوا کرتی ہیں ماں کو ذرہ بھر خوشی نہ ہوئی کہ وہ اتنی وسیع بادشاہی کے بادشاہ کی ملکہ بن گئی ہے ۔
اس کی عمر ہی کیا تھی اسے باپ اور بھائی یاد آتے تھے اور تنہائی میں رو رو کر اپنی حالت بگاڑ لیا کرتی تھیں۔
اسے دوسرا صدمہ یہ پہنچا کے وہ مسلمان تھی اس کے ماں باپ نے تھوڑے ہی عرصہ پہلے اسلام قبول کیا تھا اس کا باپ کسی لالچ یا کسی بھی قسم کے دباؤ میں نہیں آیا تھا۔ بلکہ اس مذہب سے وہ دلی طور پر متاثر ہوا اور اس نے اسلام قبول کر لیا اس وقت میری ماں بہت چھوٹی تھی اس نے مجھے سنایا کہ وہ جب اچھا برا سمجھنے کی عمر میں داخل ہوئی تو اسے مذہب کے سبق دیئے جانے لگے اسلام اس کی رگ رگ میں سما گیا ،لیکن اس کی قسمت اتنی بری نکلی کے قافلے سے اغوا ہوئی اور ایک عیسائی بادشاہ نے اسے اپنی بیوی بنا لیا، بادشاہوں کا تو کوئی مذہب ہوتا ہی نہیں میری ماں کو دکھ یہ ہوا کہ وہ مسلمان بھی نہ رہی اور اس نے عیسائیت کو بھی قبول نہ کیا۔
میں پیدا ہوئی اور شہزادیوں کی طرح مجھے پالا پوسا گیا اس میں کوئی شک نہ تھا کہ میں تھی ہی شہزادی ، تین چار سال کی عمر کو میں پہنچی تو یاد آیا کہ میں نے ماں کو چوری چھپے نماز پڑھتے دیکھا تھا لیکن میری عمر پانچ سال کی ہوئی تو میں نے ماں کو شراب پیتے دیکھا اور اس کی نماز ختم ہوگئی تھی شیطانوں کے شاہی ماحول میں رہ کر میری ماں کی فطرت ہی بدل گئی اور وہ بھی شیطان فطرت بن گئی میں تمہیں وہ سازشیں اور سیاست بازیاں نہیں سنا رہی جو بادشاہوں کے محلات کا معمول ہوا کرتی ہے۔
ماں نے مجھے یہ ساری ابلیسی حرکتیں ،اپنی بھی، شاہ فوکاس کی دوسری بیویوں کی بھی تفصیلاً سنائی تھیں۔
تم جانتے ہو کہ ایرانی آتش پرست ہیں اور روم کی ٹکر کی جنگی طاقت ہے۔
میں حیران ہوں کہ تم مسلمانوں نے کس طرح ان ایرانیوں کو عراق سے بے دخل کرکے انہیں گھٹنوں بٹھا دیا ہے ۔
انہوں نے اچانک رومی سلطنت پر حملہ کر دیا اور دیکھتے دیکھتے مصر اور شام پر قابض ہو گئے۔
شاہ فوکاس اپنے وطن بھاگ گیا،،،، ہرقل رومی فوج کا جرنیل تھا۔
جرنیل تو چند اور بھی تھے لیکن ہرقل کا نام سب سے زیادہ اونچا اور مشہور تھا کیونکہ جنگی فہم و فراست کے لحاظ سے کوئی اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا تھا۔
اس کی شہرت اور عزت کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اس کا تعلق شاہی خاندان کے ساتھ تھا۔ وہ برداشت نہ کرسکا کہ ایرانیوں نے رومیوں کو شکست دی ہے وہ جانتا تھا کہ شکست کا اصل باعث فوکاس کی عیاش شہنشاہیت ہے۔
اس نے ایرانیوں کو ہمیشہ نظرانداز کیے رکھا تھا اور اپنی سلطنت کی طرف سے بے خبر رہا۔
میری عمر چھ سات سال تھی اس عمر میں بچہ اتنی زیادہ باتیں نہیں سمجھ سکتا جو میرے دماغ میں بیٹھ گئی تھی میرے ساتھ کے بچوں کو پرواہ ہی نہیں تھی کہ دشمن نے ہمیں وسیع و عریض ملک سے بے دخل کردیا ہے۔
لیکن مجھے اس شکست کا اتنا ہی صدمہ ہوا تھا جتنا ہرقل محسوس کر رہا تھا ۔
ہرقل میرے ساتھ بہت پیار کرتا تھا ۔
اس کا میرے ماں کے ساتھ میل جول تھا۔
پہلے جب کبھی ماں ہرقل سے ملنے جاتی یا وہ ماں سے ملنے آتا تو ماں مجھے اپنے ساتھ رکھتی تھی۔
لیکن کچھ دنوں بعد ماں نے مجھے اپنے اور ہرقل کے درمیان سے ہٹادیا ۔
بڑے ہو کر مجھے پتہ چلا تھا کہ میری ماں نے ہرقل کے ساتھ ناجائز دوستی لگا رکھی ہے۔ یہ کوئی عجیب اور انوکھی بات نہیں تھی۔ شاہی محلات میں یہ سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے۔شاہ فوکاس اپنی کون کون سی بیویوں کا خیال رکھتا۔
اب میں تمہیں جو بات سنانے لگی ہوں مجھے بڑے ہوکر معلوم ہوئی تھی بات یہ تھی کہ ہرقل شاہ فوکاس کو اکساتا رہتا تھا کہ ایرانیوں پر جوابی حملہ کیا جائے ،لیکن فوکاس ٹالتا چلا جا رہا تھا ۔
ہرقل نے اس بادشاہ کا تختہ الٹنے کا ارادہ کرلیا اس مقصد کے لیے اس نے دوسرے جرنیلوں کو ساتھ ملایا اس وجہ سے بغاوت کے لیے تیار ہوگئے کہ شاہ فوکاس شکست کی ذمہ داری ان جرنیلوں پر ڈال رہا تھا۔
ہرقل نے تمام جرنیلوں کو تیار کرلیا تو پتہ چلا کہ دو تین جرنیل دراصل شاہ فوکاس کے حامی ہیں اور فوج کی خاصی نفری کو انہوں نے شاہ فوکاس کی ذاتی فوج بنا رکھا ہے ان دو جرنیلوں کو خبر مل گئی جو بادشاہ کے حامی تھے انہوں نے فوج کی نفری کو ساتھ لیا جو ان کے زیر اثر تھی اور اس نفری سے انہوں نے محل کو محاصرے میں لینے والی نفری پر حملہ کردیا ہرقل کے دستوں نے جم کر مقابلہ کیا۔
ہرقل نے سوچا کہ اس نے بادشاہ کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تو خانہ جنگی ہو گی جو روم کو لے ڈوبے گی خانہ جنگی کے بغیر تختہ الٹنے کا ایک ہی ذریعہ تھا۔
کہ شاہ فوکاس کو کسی نہ کسی طریقے سے قتل کردیا جائے۔
بادشاہ کو قتل کرنا تقریبا ناممکن تھا ۔وہ اپنی عیاشیوں میں ڈوبا رہتا تھا اور اس کے ارد گرد محافظوں کا حصار قائم کر دیا گیا تھا ۔
میرا خیال ہے کہ بادشاہ کو پتہ چل گیا تھا اس کا تختہ الٹنے کی سازش ہورہی ہے ۔
ہرقل کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔ بادشاہ یقینا ہرقل سے ڈرتا تھا۔
میری ماں ہرقل سے ملتی رہتی تھی اور ان کی دوستی پہلے کی طرح چل رہی تھی۔ ہرقل نے میری ماں کے ساتھ کبھی ذکر تک نہ کیا تھا کہ وہ شاہ فوکاس کا تختہ الٹنا چاہتا ہے۔ ایک روز میری ماں نے شک کی بنا پر ہرقل سے پوچھا تو ہرقل نہ مانا۔
میری ماں نے اسے بتایا کہ اس کے اپنے دل میں بادشاہ کے خلاف اتنا زہر بھرا ہوا ہے کہ وہ بادشاہ کو قتل کرنے تک سوچ چکی ہے۔ لیکن اسے کسی کی پشت پناہی کی ضرورت ہے۔
تب ہرقل نے اسے اپنا راز دے دیا اور یہ وعدہ کیا کہ وہ شاہ فوکاس کو کسی نہ کسی طریقے سے قتل کر دے۔
ماں تیار ہوگئ۔
قتل کے طریقوں پر غور ہونے لگا آخر یہ طے پایا کہ میری ماں بادشاہ کو زہر پلا دے، اور ہرقل کو فورا اطلاع دے دے میری ماں کے لئے یہ طریقہ آسان تھا۔ ہرقل نے ایسے زہر کا انتظام کرکے میری ماں تک پہنچا دیا جو فورا اثر نہیں کرتا تھا بلکہ آہستہ آہستہ اپنا اثر دکھاتا ہے۔
اور جسم کو اندر ہی اندر سے کھاتا چلا جاتا ہے ۔
اور بارہ چودہ دنوں تک آدمی مر جاتا ہے۔
اس زہر کا سراغ لگایا ہی نہیں جا سکتا بڑے بڑے قابل طبیب بھی اسے کوئی پراسرار بیماری کہہ دیتے ہیں۔
ایک رات میری ماں نے یہ زہر شراب میں ملاکر شاہ فوکاس کو پلا دیا اگلے روز ہرقل کو اطلاع دے دی کہ زہر بادشاہ کے پیٹ میں چلا گیا ہے۔
ہرقل فوج کا کمانڈر انچیف تھا۔
ساری فوج پر اس کا حکم چلتا تھا اس نے فوج کی کچھ نفری کو الگ کر کے حکم دیا کہ بادشاہ کے محل کو محاصرے میں لے لیا جائے۔
اس کے حکم کی فوری تعمیل ہوئی ہرقل شاہ فوکاس کے سامنے گیا اور اسے کہا کہ وہ فرمان جاری کر دے کہ وہ تخت سے دستبردار ہوگیا ہے اور ہرقل کو اس نے اپنا جانشین مقرر کیا ہے۔
ہرقل دیکھ رہا تھا کہ بادشاہ کے جسم میں زہر کا اثر شروع ہو گیا تھا ۔
وہ اپنے اندر کوئی تکلیف محسوس کرنے لگا تھا ہرقل نے اسے کہا کہ اس کی زندگی چند دن رہ گئی ہے۔
اس نے پس و پیش کی تو اس کی لاش سارے شہر میں گھسیٹی جائے گی اور پھر جنگل میں پھینک دی جائے گی۔
ہرقل نے سوچا یہ تھا کہ بغاوت اس وقت شروع کی جائے جب بادشاہ اندر سے کمزور ہونا شروع ہوجائے۔
جو فوج ہرقل کے زیر اثر تھی اس کی نفری زیادہ تھی اس نے شاہ پرست دونوں جرنیلوں کو الگ بلایا اور انہیں کہا کہ اسے پتہ چل گیا ہے کہ بادشاہ ایسی بیماری میں مبتلا ہو گیا ہے جس کا کوئی علاج نہیں اور آٹھ دس دنوں تک بادشاہ مرجائے گا بہتر یہ ہے کہ دونوں جرنیل اس کے ساتھ مل جائیں اور آپس میں خون خرابہ نہ کریں دونوں جرنیلوں کو بادشاہ پر بھروسہ تھا اور اس کی حمایت کے صلے میں انعام اکرام کی توقع بھی تھی اس لئے ہرقل کی کوئی بات ان پر اثر نہ کرسکی
وہ شاید بھول گئے تھے کی ہرقل کا دماغ بہت ہی تیز ہے۔
اس کا بیچھایا ہوا جال کسی کو نظر نہیں آتا اور جو بھی آتا ہے اس کے جال میں پھنس جاتا ہے ۔
ہرقل نے ایسی چال چلی کہ دونوں جرنیل اس کے پھندے میں آگئے اور دونوں کو گرفتار کر کے قید خانے میں پھینک دیا۔
ان جرنیلوں کی جو فوج تھی وہ ان دونوں کے بغیر بیکار ہو گئی ویسے ہی ہرقل نے اس نفری کو خبردار کیا کہ ہتھیار نہ ڈالے تو کسی ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑا جائے گا ۔
فوج کے یہ دو چار دستے کر ہی کیا سکتے تھے۔
جبکہ ان کا کوئی کمانڈر رہا ہی نہیں تھا انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔
تین چار دن اور گزرے کے بادشاہ فوکاس کی جسمانی اور ذہنی حالت زہر کے اثر کی وجہ سے اتنی خراب ہوگئی کہ وہ بستر سے اٹھنے سے معذور ہو گیا آخر ہرقل نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ اس کے حق میں شاہی فرمان جاری کردیے۔
شاہ فوکاس تو صحت اور زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا ۔
عیش پرست انسان اس دنیا سے جانا نہیں چاہتا تھا۔
اس نے ہرقل سے منت سماجت کی کہ وہ اس کا علاج کرائے۔
وہ کہتا تھا کہ اس کا جسم اندر سے کٹ رہا ہے وہ تو زندہ لاش بن گیا تھا اور طبیب اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔
اور یہ پتہ چلتا ہی نہیں تھا کہ یہ کیسی بیماری ہے جو بادشاہ کو اندر ہی اندر کھائے چلی جارہی ہے ۔
ہرقل نے اسے کہا کہ وہ اس کا علاج کرائے گا اور وہ ٹھیک بھی ہوجائے گا لیکن شرط یہ ہے کہ فرمان جاری کر دے۔
ایک دن اور گزرا تو شاہ فوکاس یوں محسوس کرنے لگا جیسے اس کے جسم کے اندر آگ لگ گئی ہو اس کی کیفیت میں ہرقل نے اس سے فرمان لکھوا لیا اور اس فرمان کو لوگوں تک بذریعہ منادی پہنچادیاگیا۔
ہرقل تخت نشین ہو گیا اور بادشاہ کو شاہانہ مراعات دے کر محل میں ہی رہنے دیا وہ جانتا تھا کہ یہ بادشاہ دو چار دنوں کا ہی مہمان ہے۔ ایسے ہی ہوا ایک روز شاہ فوکاس نے آخری ہچکی لی اور ہمیشہ کے لئے دنیا سے اٹھ گیا۔
ہرقل نے روم کا تخت و تاج سنبھال لیا اور فوکاس کے شاہی خاندان کو محل سے نکال دیا۔
ہرقل نے میری ماں کے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا کردیا اس کے ساتھ ہرقل نے شادی کرلی اس شادی سے صرف اتنی تبدیلی آئی کہ ہرقل کی بیویوں کی تعداد میں ایک اور بیوی کا اضافہ ہوگیا۔
یہ شادی بھی ایک بادشاہ کی شادی تھی لیکن میری ماں کو اس شادی پر بڑا فخر تھا۔
ہرقل نے کچھ عرصہ اسے اہمیت دے رکھی جس کی وجہ یہ تھی کہ ماں میری شاہ فوکاس کو زہر نہ دیتی تو ہرقل کے لئے اس کا تختہ الٹنا ممکن نہ تھا۔
میرا شعور بیدار ہو چکا تھا اور مجھ پر سب سے زیادہ اثر اپنی ماں کا تھا اس نے اپنے آپ کو ہرقل کی ملکہ عالیہ سمجھنا شروع کر دیا تھا ۔
اور وہ اٹھتے بیٹھتے یہی کہتی
تھی کہ ایرانیوں پر جوابی حملہ کرکے مصر اور شام کو دوبارہ سلطنت روم میں شامل کرنا ہے۔
ہرقل کا تو عزم ہی یہی تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے اسی مقصد کے تحت شاہ فوکاس کا تختہ الٹا تھا ۔
اس کا مجھ پر یہ اثر ہوا کہ مجھ میں قومی غیرت پیدا ہو گئی اور اس کے ساتھ ایسا جذبہ ابھرا کہ میں یہ خواہش کرنے لگی کہ میں مرد تو بن نہیں سکتی اور میں فوج میں نہیں جا سکتی۔
میں جوان ہو کر اپنے جیسے جوان لڑکیوں کی فوج بناؤں گی اور اسے ایرانیوں کے خلاف لڑاؤں گی۔
اس طرح مجھ میں عسکریت پیدا ہوتی چلی گئی اور یہی میری فطرت بن گئی۔
میں اس وقت لڑکپن کی عمر سے آگے نکل رہی تھی جب ہرقل نے بے پناہ فوج تیار کر لی تھی۔
اور اس نے ایرانیوں پر حملہ کردیا بہت کشت خون ہوا ہرقل بڑا ہی مضبوط عزم لے کر نکلا تھا ۔
اس نے اپنی فوج کو کئی سالَ صرف کرکے خوب تیار کیا تھا۔
آخر ایرانیوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ پسپا ہوتے ہوتے مصر بھی خالی کر گئے اور شام بھی، دونوں ملک ایک بار پھر سلطنت روم میں شامل کرلیے گئے۔
ہرقل کی نظروں میں میری ماں کی حیثیت ختم ہو چکی تھی۔ ہرقل کو شاید اتنا ہی یاد رہ گیا تھا کہ اس عورت کے ساتھ اس نے شادی کی تھی۔
*پسپا ہوتے ایرانیوں کی بہت سی حسین و جمیل اور نوخیز لڑکیاں رومیوں کے ہاتھ لگی تھی۔*
*ان میں سے کئی ایک کو ہرقل کے حرم میں داخل کر دیا گیا تھا ۔*
*میری ماں کی جوانی ڈھل رہی تھی ۔*
*ہرقل تھا تو بادشاہ لیکن فوکاس جیسا نہیں تھا وہ جرنیل بھی تھا اور جنگی امور اور جنگی چالوں میں اس نے ایسا نام پیدا کر لیا کہ وہ ایک ہیبت ناک طاقت بن گیا۔*
*میں اپنی ماں کو افسردہ اور اداس دیکھنے لگی شاید یہ اسی کا اثر تھا کہ مجھے یاد آنے لگا جب ماں چوری چھپے نماز پڑھا کرتی تھی۔ ایک تو یہ جذبہ یا احساس تھا اور دوسرا احساس یہ کہ مجھ میں عسکریت پیدا ہوگئی تھی۔*
*اور میں صرف یہ نہیں جانتی تھی کہ کوئی خوبصورت شہزادہ میرے ساتھ شادی کر لے اور میں کسی کے ملکہ بن جاؤں۔*
*میں پوری طرح بیان نہیں کر سکتی کہ میرے وجود میں کیسی آگ لگ گئی تھی۔*
aur neel behta raha,'amr ibn al-'as,battle of yarmouk,decline of byzantine-roman empire,decline of sassanid-persian empire,battle of nikiou,battle of heliopolis,siege of alexandria,conquest of egypt,heroes of islam,islamic history,islam ke mujahid,tigers of islam,urdu audio book,urdu islamic history novel,inayathulla altamash,urdu islamic historical novels,inayathullaah altamash,drawn sword of allah,islamic waqiat,history of islam,islam always,deen islam,hazrat khalid bin waleed
RELATED POSTS
EPISODE NO1
EPISODE NO2
EPISODE NO.3
EPISODE 4
EPISODE 5
EPISODE 6
Tags:
CURRENT AFFAIRS