INAYATULLAHAL TA-MASH ISLAMIC NOVEL EPISODE 6
(aur neel behta raha,'amr ibn al-'as,battle of yarmouk,decline of byzantine-roman empire,decline of sassanid-persian empire,battle of nikiou,battle of heliopolis,siege of alexandria,conquest of egypt,heroes of islam,islamic history,islam ke mujahid,tigers of islam,urdu audio book,urdu islamic history novel,inayathulla altamash,urdu islamic historical novels,inayathullaah altamash,amr ibn al-as,ateeq tube,moral stories,moral stories for kids,stories for kids,write letter to river)
EPISODE 6
جس قیدی کو کل صبح دربار میں بلایا گیا تھا۔
ہرقل کی آنکھوں میں جو قہر اترا تھا وہ آنکھوں میں ہی گم ہو گیا۔
اور ہرقل پر خاموشی طاری ہوگئی کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ اس خاموشی میں سے ایسا ہولناک طوفان اٹھے گا۔
ہرقل کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ ایک شہزادی ایک قیدی کو قید خانے سے نکلوا کر اس کے ساتھ چلی گئی ہے ۔
اسے پریشانی اس سے لاحق ہوئی کہ یہ مسلمان قیدی ایک خاص اہمیت کا حامل تھا وہ کوئی ادنی سپاہی نہیں تھا مسلمانوں کے لشکر میں اسے کوئی عہدہ حاصل تھا اور وہ اچھا خاصہ عقلمند بھی تھا۔
اور تم نے ایک شہزادی کے کہنے پر اسے رہا کردیا۔
ہرقل نے دروغہ سے کہا ۔۔۔۔اس کی بیڑیاں اور ہتھکڑی بھی اتار دیں یہ میری گرفتاری کی سازش ہو سکتی ہے اور میرے قتل کی بھی۔
قیدخانے کا دروغہ چپ چاپ کھڑا تھا۔ اس نے ذہنی طور پر قبول کرلیا تھا کہ اس کی زندگی چند منٹ کی رہ گئ ہے۔
ہرقل کے یہاں سزائے موت سے کم کوئی سزا نہیں تھی۔
کیا تمہیں قتل نہ کروا دیا جائے؟،،، ہرقل بولا۔۔۔ اگر یوں شہزادی کی مدد سے فرار ہونے والا قیدی عیسائی ہوتا تو میرے لیے کوئی خطرہ نہیں تھا ۔فرار ہونے والا مسلمان تھا ۔کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ ان مسلمانوں نے ہمیں کس انجام تک پہنچادیا ہے۔ کیا تم صرف ایک وجہ بتا سکتے ہو جس کے بنا پر تمہارا یہ اقدام صحیح سمجھا جائے؟ ۔
جس طرح جوتشی نے اپنے آپ کو موت کے سامنے کھڑا دیکھ کر ہرقل کو سچی اور کھری کھری باتیں سنا دی تھی ویسی ہی کیفیت قیدخانے کے دروغہ پر طاری ہو گئی۔ اسے یقین تھا کہ اب وہ زندہ باہر نہیں جا سکے گا۔
شہنشاہ روم!،،، دروغہ نے کہا اگر میں شہزادی کا حکم نہ مانتا تو وہ مجھے قتل کروا دیتی اس کا حکم مانا ہے تو آپ مجھے سزائے موت سنا رہے ہیں، مجھے آپ کی سزا قبول ہے قبول نہ ہوتی تو بھی آپ نے مجھے معاف نہیں کر دینا تھا۔
میں نے روم کے شہنشاہ کا نمک کھایا ہے مجھے یہ عہدہ اس شہنشاہ ہی نے دیا تھا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ مرنے سے پہلے آپ کا کھایا ہوا نمک حلال کرجاؤ یہی ایک صلہ ہے جو میں آپ کے قدموں میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
یہ کوئی سونے اور چاندی کا خزانہ نہیں چند ایک الفاظ ہیں جو آپ نے قبول کر لیا تو آپ کے لئے اور آپ کی سلطنت کے لیے بھی سود مند ہوں گے۔
ہرقل اسے چپ چاپ دیکھتا رہا تھا ۔اس کی اس خاموشی کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ دروغہ کو معاف نہیں کرے گا ۔موت نے دروغہ پر خوف اور تاسف طاری ہونے کے بجائے اس میں جراءت پیدا کردی۔
میں زندگی کی بھیک نہیں مانگوں گا ،،،دروغہ نے کہا،،،، حکم ماننا ہم لوگوں کا فرض ہے یہاں حکم ایک فرد سے نہیں ملتا بلکہ شاہی خاندان کے تمام افراد سے کئی طرح کے حکم ملتے ہیں، اور ہم لوگ کسی کی بھی حکم عدولی کی جرات نہیں کر سکتے میں جانتا ہوں تین چار مسلمان قیدیوں کو آپ نے مہمانوں کے طور پر قیدخانے میں رکھا ہوا ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کیوں ان کے ساتھ اتنا اچھا سلوک ہو رہا ہے آپ ان سے یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ان مسلمانوں نے اتنی قلیل تعداد میں ہوتے ہوئے روم کی ایسی عظیم اور دہشت ناک جنگی طاقت کو کس طرح شکست دے دی ہے کہ رومی فوج بکھر کر پسپا ہو رہی ہے۔
اور کہیں بھی اس کے پاؤں جم نہیں رہے۔ شاید آپ ان خصوصی قیدیوں کو کسی اور مقصد کے لیے بھی استعمال کرنا چاہتے ہوں گے، مجھے اس سے کوئی غرض نہیں میں نے ان سے دو بار یہی بات پوچھی تھی انہوں نے جو جواب دیا وہ میرے دل نے قبول کیا اور یہ میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔،،،،
انہوں نے کہا اسلام میں کوئی بادشاہ نہیں ہوتا نہ کوئی شاہی خاندان ہوتا ہے ۔
بادشاہی صرف اللہ کی ہے اور مسلمان اسی کا حکم مانتے اور اسی کے راستے پر چلتے ہیں، ان قیدیوں نے مجھے بتایا کہ وہ لڑتے بھی ہیں تو اللہ کو حاضر ناظر جان کر اور اسی کی خوشنودی کی خاطر، دو یا تین مسلمان بھی کہیں اکٹھا ہو جائیں یا سفر پر نکلے تو ایک کو اپنا امیر بنا لیتے ہیں اور پھر اسی کے حکم پر چلتے ہیں ان کا سالار لشکر کا امیر بھی ہوتا ہے، اور امام بھی ،انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرکے فیصلہ کیا کرتے تھے، اب ان کا ایک خلیفہ ہے جس کا ہر حکم بسروچشم مانا جاتا ہے ،لیکن خلیفہ بھی مشورہ کے بغیر کوئی حکم جاری نہیں کرتا ،کسی خلیفہ کی کسی امیر کی اور کسی سپہ سالار کی بیوی یا بیٹی یا بیٹا کوئی حکم نہیں دے سکتے، اگر وہ کوئی جرم کر بیٹھے گے تو انہیں بھی ویسے ہی سزا ملے گی جیسی ایک عام اور ادنیٰ مرد یا عورت کو دی جاتی ہے۔
شہنشاہ معظم!،،، اب آپ اپنے یہاں دیکھیں شاہی خاندان کے افراد کی تعداد دیکھیں ہمارے لئے کوئی ایسا حکم نہیں کہ ہم ان میں سے کسی کا کوئی بھی حکم نہ مانے اگر میں ان میں سے کسی کا کوئی حکم نہیں مانوں گا تو وہ مجھے اسی قید خانے کی کال کوٹھری میں بند کر دے گا جس کا آج میں دروغہ ہوں یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ آپ نے شہزادی کے ساتھ نکل جانے والے قیدی کو مہمان کی حیثیت سے رکھنے کا حکم دیا تھا، اسے شہزادی شارینا اپنے ساتھ لے جانے کے لئے آئی اور کہا کہ شاہ ہرقل نے اسے طلب کیا ہے تو میں اس حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتاتھا۔
باقی تینوں مسلمان قیدیوں کی یہ سہولتیں ختم کردو ،،۔۔۔ہرقل نے کہا ۔۔۔۔انہیں تہہ خانے کی کوٹھڑیوں میں بند کر دو انہیں گل سڑ کر مرنے دو۔
ہرقل نے یہ حکم ایسے لہجے میں دیا جیسے نیند میں بول رہا ہو۔
یہ شک بھی ہوتا تھا جیسے اس نے دروغہ کی پوری بات سنی ہی نہ ہو۔
اس پر شکست کا پہاڑ آن پڑا تھا، شام ایک بڑا ملک تھا جو اس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا، اور مسلمانوں کی جھولی میں چلا گیا تھا ،کیا آپ ان کے تعاقب کا حکم نہیں دیں گے ۔۔۔شارینا کی ماں نے پوچھا ؟،،،نہیں ہرقل نے بے جان سے لہجے میں کہا۔۔۔ صبح کے نکلے ہوئے اب تک وہ دور نکل گئے ہونگے۔ اور یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ گئے کس سمت کو ہیں۔
شارینہ کی ماں کچھ نہ کچھ بولتی رہی ۔
ہرقل اس کی کسی بات کا ادھورا سا جواب دے دیتا یا صرف اتنا کرتا کہ اس کے منہ کی طرف دیکھ کر منہ پھیر لیتا ۔
دروغہ کو ہرقل نے کوئی اشارہ کیا تھا یا دروغہ نے فرض کر لیا کہ اس کا چھٹکارا ہو گیا ہے، وہ الٹے قدم چلتا دروازے تک گیا اور باہر نکل گیا۔
*وہ چلا گیا ہے شارینہ کی ماں نے کہا ۔۔۔اس کی جان بخشی نہ کریں ۔۔۔جانے دو اسے ہرقل نے کہا ۔۔۔میں آنے والوں کا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔*
*پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ہرقل نے اپنی پسپا ہوتی ہوئی فوج کو شام کے مختلف مقامات پر بکھیر دیا تھا اور اس نے یہ چال اس توقع پر چلی تھی کہ اس کے مطابق مسلمانوں کا لشکر بھی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے گا اور یہ اس کی کمزوری کا باعث بنے گا پھر ہرقل اپنی بکھری ہوئی فوج کو کسی ایک موضوع مقام پر یکجا کر کے مسلمانوں کی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی فوج پر زوردار حملہ کرے گا اور پھر مسلمان اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکیں گے۔*
*ہرقل رہاء میں آ گیا تھا اور اپنی فوج کو یہی اکٹھا کرنا چاہتا تھا لیکن کہیں سے بھی اسے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا کہ وہاں کی فوج کب اس تک پہنچے گی یہ تھا وہ انتظار جس کی بیتابی نے اس کا دماغ جکڑ رکھا تھا۔*
*جاری ہے بقیہ قسط۔7۔میں پڑھیں*
RELATED POSTS
Tags:
CURRENT AFFAIRS