اور نیل بہتا رہاؔ|عنایت اللہ التمش| EPISODE 5|Heroes Of Islam


Urdu Islamic History Novel Inayathulla Altamashor Neel behta Raha

EPISODE 5 OR NEEL BEHTA RAHA AN URDU NOVEL
battle of Yarmouk, a decline of the byzantine-roman empire, a decline of Sassanid-Persian empire, heroes of Islam, Islamic history, Islam ke mujahid, tigers of Islam, Urdu audiobook,, drawn sword of Allah,altamash, mean alif, Sabir Hussain Rajpoot, Mehandi khan,dastaan Imaan faroosho ki, Shamsher e bean yam,b r b behti rahey gi,firdoos e iblees, Sitara jo toot Gaya, or Neel behta Raha, phobia game, Arif Mehmood, a commando who salute to the Quaid e Azam, writer, journalist

EPISODE NO1   EPISODE NO2  EPISODE NO.3  EPISODE 4

اور نیل بہتا رہا*

تحریر *عنایت اللہ التمش*


*قسط نمبر/5*


اے ہرقل! ۔۔۔شاہ مردین کہہ رہا تھا ۔۔۔اپنے آپ کو طاقت کا دیوتا سمجھنا چھوڑ دیں اور یہ بھی دل سے نکال دے کہ رعایا کی بہنیں اور بیٹیاں تیری ملکیت ہیں۔
 اور سب تیرے حکم کے غلام ہیں تجھے اپنے گناہوں کی سزا مل رہی ہے میں نے تجھے اسی طرح اپنی بہن کی بے عزتی اور موت کا انتقام لیا کہ بڑے ہی دلکش اور طلسماتی زائچہ تیار کر کر کے تجھے دکھاتا رہا۔
 اور دوسرا کام یہ کیا کہ اس نجومی کو جسے تو نے ابھی ابھی قتل کیا ہے میں نے اپنے ساتھ ملا لیا اور مجھے جو دولت تجھ سے ملتی تھی وہ میں ادھی اس نجومی کو دے دیتا تھا۔
 اس کے عوض میں اس سے یہ کام کرواتا تھا کہ وہ تجھے کسی خطرے سے قبل از وقت خبردار نہ کرے۔
بلکہ ایسی پیشن گوئیاں تیرے کان میں ڈالتا رہے کہ تو آگے ہی آگے خطرے کی طرف بڑھتا ہی چلا جائے اور تباہی کھائی میں جاگرے۔
 آج اپنا انجام دیکھ لے۔۔۔۔۔۔
میں جانتا ہوں آج کا دن میری زندگی کا آخری دن ہے۔
 میں چاہتا ہوں کم از کم ایک صحیح اور سچی بات تیرے دماغ میں ڈال دوں ۔
شاید اس سے تیرے دن پھر جائیں ۔
بات دانشمندی کی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر انسان کے قسمت اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔
 نجومی اور جوتشی لوگوں پر نشہ طاری کر دیا کرتے ہیں۔
 یہ نشہ انسان کے دماغ کو اور جسم کو بھی بےکار کردیتا ہے۔
 کامیاب وہ ہوتا جس نے اپنے پیدا کرنے والے پر اور اپنے آپ پر اعتماد اور بھروسہ کیا۔
 زائچے اور پیشنگوئیوں کے سہارے چلنے والے اسی انجام کو پہنچا کرتے ہیں جس انجام کو تو پہنچ گیا ہے۔
 دیکھ لے عرب کے بدو اور گڈرئیے ایک طاقت بن کر تجھے شکست پر شکست دیے چلے جارہے ہیں۔
 اور تو پناہیں ڈھونڈتا پھر رہا ہے۔۔۔۔
اُٹھ اور مجھے اپنے ہاتھوں قتل کر دے۔
 میرے قتل کرنے سے پہلے میری ایک سچی پیشنگوئی سن لے زندگی میں پہلا زائچہ تیار کیا ہے جو ہر لحاظ سے صحیح اور سچا ہے۔ مرتے مرتے میں تیرے ساتھ ایک نیکی کرنا چاہتا ہوں۔
میرا زائچہ کہتا ہے کہ اب تو کبھی شام میں نہیں جائے گا اور تیرا ٹھکانا مصر ہے ۔
جہاں تیری قوم کی حکومت ہے۔
 تھوڑے ہی عرصے بعد عرب کے مسلمان تجھ پر آسمانی بجلی کی طرح گریں گے۔
 اتنا خون بہے گا کہ دریا نیل سرخ ہو جائے گا۔ پھر تیری رومی بادشاہی کا بوریا بستر گول ہو جائے گا اور بحیرہ روم میں ڈوب جائے گا۔ مصر سلطنت اسلامیہ میں شامل ہو جائے گا اور ایسی سنسنی خیز کہانیاں جنم لیں گی جو تاقیامت تاریخ ساری دنیا کو سناتی رہے گی۔
 تو چاہے تو مجھے ابھی قتل کردے چاہے تو مجھے قید خانے میں ڈال دے اگر میری پیشن گوئی غلط ثابت ہوئیں تو مجھے قتل کر دینا یا صحیح ثابت ہوئے تو مسلمان مجھے رہا کر دیں گے۔
شاہ مردین خاموش ہو گیا پورے دربار پر خاموشی طاری ہوگئی ہرقل بھی چپ چاپ بیٹھا رہا یوں لگتا تھا جیسے یہاں جتنے انسان تھے وہ پتھر کے بت بن گئے ہیں آخر ہرقل اٹھا۔
 شاہ مردین! ۔۔۔۔ہرقل نے اپنی شاہانہ آواز میں کہا میں نے کبھی کسی سے معافی نہیں مانگیں جاؤ تم آزاد ہو شاہ مردین کچھ دیر ہرقل کے منہ کی طرف دیکھتا رہا جیسے اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا ہو ۔
ہرقل نے ایک بار پھر کہا۔۔۔۔۔ چلے جاؤ۔۔۔۔ شاہ مردین کورنش بجا لایا اور الٹے قدم چلتا دربار سے نکل گیا۔
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے جیسے اس وقت ہرقل کا دماغی توازن بگڑ گیا تھا۔
 اور ذہنی طور پر وہ نارمل لگتا ہی نہیں تھا اس نے ایک اور عجیب حرکت کی اپنے محافظ دستوں کے کمانڈر کو بلایا اور اس کے کان میں کچھ کہا کمانڈر دوڑتا ہوا باہر نکل گیا۔ ہرقل نے مختلف حاکموں کو باری باری ایک کام دینے شروع کردیے اس کے سامنے مسئلہ یہی ایک تھا کہ وہ رہاء میں اپنی بکھری ہوئی فوج کو اکٹھا کرسکتا ہے یا نہیں۔
 مؤرخ لکھتے ہیں کہ شکست اس کے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔
 کچھ وقت گزر گیا تو محافظ دستے کا کمانڈر دربار میں داخل ہوا ۔
ہرقل کے اشارے پر وہ باہر گیا اور جب واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک قیدی تھا جس کے پاؤں میں بیڑیاں تھیں اور ہاتھ زنجیر میں بندھے ہوئے تھے وہ کوئی مسلمان تھا۔
 جوان اور خوبرو تھا اس کی تراشی ہوئی چھوٹی چھوٹی داڑھی اس کے چہرے پر بھاپ رہی تھی اور اس کے مردانہ حسن میں اضافہ کر رہی تھی۔
 وہ قیدی تھا لیکن اس کے کپڑے صاف ستھرے تھے۔
 اور منہ سر دھلا دھلایا لگتا تھا۔
 ہرقل کے حکم پر اسے دربار کے وسط میں کھڑا کردیا گیا۔
اس وقت تک مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان جو جنگیں ہوئیں تھیں ان میں ہزارہا رومی جنگی قیدی بنالئے گئے تھے۔
 اور مسلمانوں نے انہیں پیچھے بھیج دیا تھا کچھ مسلمان بھی جنگی قیدی ہوئے تھے جن کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی۔
 ہرقل کے حکم سے دو یا تین مسلمان قیدیوں کو قید خانے میں رکھا گیا تھا۔
 اور باقہ قیدیوں کے ساتھ اس قدر برا سلوک ہو رہا تھا کہ وہ بھوکے پیاسے مر رہے تھے۔ مسلمان قیدیوں کو انسان سمجھا ہی نہیں جاتا تھا ۔
کوئی بھی نہ سمجھ سکا کہ ہرقل نے ان دو تین قیدیوں کو قید خانے میں کیوں رکھا ہے اب ان میں سے ایک قیدی اس کے دربار میں لایا گیا اس کے لباس سے اور حال حلئے سے پتہ چلتا تھا کہ ان کے ساتھ نہایت اچھا سلوک کیا جاتا ہے۔
 ان کی دیکھ بھال بھی ہوتی ہے اور انہیں کھانا بھی بہت اچھا دیا جاتا ہے۔
تم جنگی قیدی ہو،، ۔۔۔ہرقل نے اس قیدی سے کہا ۔۔۔تم جانتے ہو گے کہ جنگی قیدیوں کے ساتھ یہاں کیا سلوک ہوتا ہے ۔
آدھے سے زیادہ قیدی مر چکے ہیں اور باقی جو ہیں وہ ہڈیوں کے ڈھانچے بن گئے ہیں۔
 لیکن تمہیں ہم نے اپنا معزز مہمان بنا رکھا ہے ۔
قید خانے کی کوٹھری میں صرف اسلئے رکھا ہے کہ تم فرار نہ ہوجاؤ۔
میرے حکم سے تمہاری جو عزت کی گئی ہے اور تمہیں جو سہولتیں دی گئی ہیں اس کے عوض میں تم سے راز کی ایک بات معلوم کرنا چاہتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ تم مجھے یہ بات بتا دو گے۔
پھر میں تمہیں آزاد کر دونگا ۔
تم نہیں بتاؤ گے تو اور قیدی میرے پاس ہیں وہ بتا دیں گے اور تمہیں میں قتل کرا دوں گا۔ تم ایک ذمہ دار آدمی ہو میں جانتا ہوں ایک جانباز گروہ کے کمانڈر ہو تم جو بات جانتے ہو وہ اور کوئی نہیں بتا سکتا۔
تم بادشاہ ہو یا سپہ سالار مجھ پر ان عہدوں اور رتبو کا کچھ اثر نہیں ہوگا ۔
مسلمان قیدی نے کہا۔۔۔ تمہارے جلاد کی تلوار میری گردن پر ہوگی تو بھی راز کی کوئی بات نہیں بتاؤں گا ۔
ان خوبصورت اور دلکش کنیزوں اور شہزادیوں میں سے ایک مجھے دے دو گے اور اس کے ساتھ خزانہ میرے قدموں میں ڈھیر کر دو گے تو بھی راز کی بات میرے زبان پر نہیں آئے گی۔
 میں اپنے مجاہد ساتھیوں کے خلاف اور اپنی قوم کے خلاف غداری نہیں کروں گا ۔
اگر ہم قتل سے ڈرنے والے ہوتے تو آج تم جیسے طاقتور بادشاہ ہم سے شکست نہ کھاتے ہم نے اپنی جان اللہ کے سپرد کر رکھی ہیں ہمارے جسم کٹ جاتے ہیں اور ہماری روحیں لڑتی ہیں۔
میں تم سے کوئی فوجی راز نہیں پوچھ رہا۔۔۔۔ ہرقل نے کہا۔۔۔ میں کوئی جنگی راز نہیں لینا چاہتا تو میری فوج کے خلاف لڑا ہے اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ تم لوگوں نے ہم پر فتح پا لی ہے۔
 تو عقل والا آدمی معلوم ہوتا ہے مجھے صرف یہ بتا دے کہ تیری فوج میں وہ کون سی خوبی ہے جو میری فوج میں نہیں اور میری فوج میں وہ کون سی خامی ہے کہ یہ اتنی زیادہ تعداد میں ہوتے ہوئے بھی تھوڑی سی نفری کی فوج سے شکست کھا گئی ہے۔
 اس فوج نے تو ایرانیوں کی فوج کو کئی میدانوں میں بھگایا ہے حالانکہ ایرانی بہت بڑی جنگی طاقت رکھتے تھے۔
ہاں یہ راز تجھے دے سکتا ہوں ۔۔۔مسلمان قیدی نے کہا۔۔۔۔ ہم متحد اور دیندار قوم ہیں ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں اور اس جسم میں دماغ صرف ایک ہے جس کا حکم سارا جسم مانتا ہے اگر تو نے ہمیں کبھی نماز پڑھتے دیکھا ہو تو اسی سے سمجھ جائے گا کہ ہم اللہ کے حضور جھکتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں ۔
تو بھی ایک جسم کے مانند کرتے ہیں۔
 ہم ایک امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں تو شاید نہیں جانتا کہ میدان جنگ میں ہمارا سپہ سالار امامت کے فرائض سرانجام دیتا ہے۔
 پھر ہماری یہ خوبی ہے کہ ہم لوگ زندگی سے کم اور موت سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اور تکبر و غرور کے بجائے ہم عجز وانکساری کو پسند کرتے ہیں ۔
ہماری تنظیم ایسی ہیں جیسی تیری فوج میں ہے سپہ سالار ہے اس کے ماتحت سالار ہے اس کے ماتحت کمانڈر ہیں اور اسی طرح چھوٹے چھوٹے عہدے بھی ہیں لیکن ہم جب اکٹھا بیٹھتے ہیں تو ہم میں کوئی حاکم اور کوئی محکوم نہیں ہوتا اس وقت ہمارے رتبہ ختم ہوجاتے ہیں۔
 ہمارے ہاں کوئی بادشاہ نہیں اور کوئی رعایا نہیں ہمیں کوئی قتل کی دھمکی دے یا دولت کا لالچ دے ہم سب سے پہلے اللہ کی طرف دیکھتے ہیں ۔
اور اس کی ذات کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔
تو نے اپنی فوج کی خامیاں پوچھی ہیں۔
 تیری فوج کی سب سے بڑی خامی تیرا وجود ہے اگر تو اپنے دماغ سے حکمرانی کا غرور نکال دے اور ذہنیت کے لحاظ سے اپنے آپ کو سپاہی سمجھنے لگے تو دیکھ تیری قوم اور تیری فوج میں وہی طاقت پیدا ہوتی ہے یا نہیں جو ہم میں ہے۔

محمد یحيٰ سندھو
+971551707391

 ہم اللہ کی خوشنودی کے لئے لڑتے ہیں اور تیری فوج تیری خوشنودی کے لیے لڑتی ہے تو پیچھے ہٹ گیا توں تیری ساری فوج تتر بتر ہو گئی ۔
ہمارا اللہ پیچھے نہیں ہٹا کر تا ہم اس کے نام پر بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں ہم میں جو شہید ہوجاتے ہیں ان کی جگہ اور مجاہدین آجاتے ہیں۔ ہمارا سپاہی اگر میدان جنگ میں اکیلا رہ جائے گا تو اپنا سالار خود بن جائے گا اور اپنے آپ کو یہ حکم کبھی نہیں دے گا کہ تم اکیلے ہو اس لیے بھاگ جاؤ ۔
یہ مسلمان قیدی اس قسم کی باتیں کرتا رہا ہرقل نے ان باتوں کے بعد اس سے پھر فوجی راز معلوم کرنے شروع کر دیے اور یہ بھی پوچھا کہ تمہارے سپہ سالار کا اگلا پلان کیا ہے ۔
اس قیدی نے ایسے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کردیا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ابھی قید میں پڑے رہنا چاہتے ہو۔
 ھرقل نے کہا ۔۔۔جب تک میرے ان سوالوں کا جواب نہیں دوگے
تو قید میں ہی پڑے رہو گے۔ اور تمہارے ساتھ وہی سلوک ہونے لگے گا جو ہم دشمن کے جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔
 ہرقل نے حکم دیا ابھی اسے کوٹھری میں رہنے دو ۔
دو روز بعد اسے پھر پیش کرنا قیدی کو دربار سے لے گئے اگلی صبح ہرقل کی ایک جوان سال شہزادی گھوڑے پر سوار قید خانے میں آئی قید خانے کے حاکم کو پتہ چلا تو وہ دوڑتا ہوا باہر نکلا اور شہزادی کے آگے جھک گیا۔ وہاں تو سارے خاندان کے ہر فرد کا حکم چلتا تھا یہ تو شہزادی تھی شہزادیوں کا تو اور ہی زیادہ احترام کیا جاتا تھا ۔
وہاں ایک نہیں کئی شہزادیاں تھی اس شہزادی نے اس مسلمانوں قیدی کا نام لیا اور کہا کہ وہ اسے اپنے ساتھ لے جانے آئی ہے اور اسے ہرقل کے دربار میں پیش کرنا ہے۔
اگر کوئی اور قیدی ہوتا تو حاکم یہ ضرور سوچتا کہ ایک قیدی کو ہرقل کے دربار میں پیش کرنے کے لیے ایک شہزادی کیوں آئی ہے لیکن اس حاکم کو معلوم تھا کہ اس مسلمان قیدی کے ساتھ امتیازی سلوک ہورہا ہے۔
 اور یہ برائے نام قیدی ہے ایک روز پہلے اسے ہرقل کے دربار میں لے گئے تھے۔
 حاکم نے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ سمجھی کہ شہزادی اس قیدی کو ساتھ لے جانے کیوں آئی ہے ۔
حاکم اس شہزادی کے ساتھ ہو لیا اور چابیاں لے کر مسلمان قیدی کی کوٹھری تک پہنچا کوٹھری کھول کر قیدی کو باہر نکالا اور شہزادی کے حوالے کردیا یہ آج شہنشاہ ہرقل کا مہمان ہوگا شہزادی نے قید خانے کے حاکم سے کہا۔
حکم ہے کہ اس کی بیڑیاں اور زنجیریں اتار دی جائیں اسی لیے ہرقل نے حکم بھیجا ہے۔ حکم کی فوری تعمیل ہوئی قیدی کی بیڑیاں اور زنجیریں اتار دی گئیں۔
 شہزادی اسے اپنے ساتھ لے گئی۔
 خود گھوڑے پر سوار ہوئیں اور قیدی سے کہا کہ وہ اس کے ساتھ پیدل چلے وہ کچھ دور تک اسی طرح چلتے گئے کہ شہزادی گھوڑے پر تھی اور قیدی اس کے ساتھ پیدل جا رہا تھا۔ کچھ اور آگے گئے تو شہزادی نے گھوڑا روک لیا۔
میرے پیچھے گھوڑے پر سوار ہو جاؤ شہزادی نے قیدی سے کہا۔۔۔ ایڑ لگاؤ اور گھوڑے کو کھلا چھوڑ دو آگے تمہیں الگ گھوڑا مل جائے گا مجھ سے یہ نہ پوچھنا کے میں تمہیں کہاں لے جا رہی ہوں ۔
قیدی بلا چوں چرا شہزادی کے پیچھے گھوڑے پر چڑھ بیٹھا اور ایڑ لگا دی اس سے آگے گھنا جنگل اورپہاڑی علاقہ تھا وہ شہر سے دور نکل گئے تو قیدی نے شہزادی سے پوچھا کہاں جانے کا ارادہ ہے؟
تم میرے ساتھ نہیں جارہے میں تمہارے ساتھ جا رہی ہوں شہزادی نے کہا۔۔۔ مجھے اپنی فوج میں لے چلوں میں واپس آنے کے لئے نہیں جارہی اسی لیے تمہیں قید خانے سے نکلوا لائی ہوں۔
قیدی نے لگام کو ہلکا سا جھٹکا دیا گھوڑا چل پڑا ۔
قیدی کو اندازہ نہیں تھا کہ اس کا لشکر کہاں ہوگا ۔
اس لئے پکڑے جانے کا خطرہ ابھی سر پر موجود تھا اس نے گھوڑے کی رفتار ذرا تیز کر دی۔

 battle of Yarmouk, a decline of the byzantine-roman empire, a decline of Sassanid-Persian empire, heroes of Islam, Islamic history, Islam ke mujahid, SABIR 

*جاری ہے*_

RELATED POSTS

    Post a Comment

    if you have any doubt please let me know

    Previous Post Next Post