EPISODE 12|AUR NEEL BEHTA RAHA|ISLAM AND HISTORY NOVEL

prophet ibrahim(as),prophet ibrahim story,ibrahim,quran,prophet,muslim cartoon,arabic cartoon,ibrahim cartoon,islamic animation,islamic cartoons,prophet stories,prophet story,islam,zaky,story of prophet ibrahim and ismail,prophet ibrahim story in quran,prophet ibrahim islamic cartoon,نبي,النبي إبراهيم (أس),নবী ইব্রাহিম (এএস),ইসলাম,stories of the prophets,quran stories,koran,arab,christianity,salahuddin,muslim,palestine,salah ed-din,israel,crusaders,warrior,religion,crusades,war,thecrusades



prophet ibrahim(as),prophet ibrahim story,ibrahim,quran,prophet,muslim cartoon,arabic cartoon,ibrahim cartoon,i





اورنیل بہتارہا

قسط نمبر/12

عراق اور شام کے درمیان وسیع و عریض الجزیرہ کے علاقوں میں عیسائی قبائل کی سرکوبی کی جارہی تھی ۔ان میں ایک دلچسپ صورتحال بنو تغلب نے پیدا کردی تھی۔بنو تغلب کا علاقہ شام عراق سرحد اور دریاے فرہاد کے درمیان تھا ،کچھ علاقہ شام میں بھی تھا یہ صحرائی علاقہ تھا امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بنو تغلب کی سرکوبی کی ذمہ داری ایک سالار ولید بن عقبہ کو سونپی تھی، بنو تغلب کئی ایک بستیوں میں آباد تھے، جن میں دو یا تین بڑی بستیاں قلعہ بند تھی۔
 سالار ولید بن عقبہ کو ان بستیوں پر قبضہ کرنے کے لیے کئی دشواریاں پیش آئیں جن میں سب سے بڑی دشواری یہ تھی کہ بنو تغلب کے لوگ صحیح معنوں میں جنگجو تھے، وہ عربی نسل کے لوگ تھے، مجاہدین کے جس لشکر نے پہلے مثنیٰ بن حارثہ اور اس کے بعد سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں کسریٰ ایران کی طاقتور فوج کو ہر میدان میں شکست دی اس لشکر میں بنو تغلب کے عیسائی بھی شامل تھے اور ان میں سے بعض نے شجاعت کے بڑے ہی حیران کن کارنامے کر دکھائے تھے۔
اب بنو تغلب نے ہرقل کی شہ پر مسلمانوں کے خلاف بغاوت کر دی تھی عراق پر بھی مسلمانوں کا قبضہ مکمل ہو گیا تھا اور شام پر بھی ، بنو تغلب نے مسلمانوں کے اس قبضے کے خلاف سرکشی شروع کردی تھی۔
مجاہدین کا لشکر سالار ولید بن عقبہ کی قیادت میں وہاں پہنچا تو اس قبیلے کے لوگوں نے جم کر مقابلہ کیا لیکن کسی بھی جگہ قدم جما نہ سکے مجاہدین کو ایک سہولت یہ حاصل ہو گئی تھی کہ انہیں رومیوں اور ایرانیوں کے بے انداز گھوڑے مل گئے تھے اس طرح مجاہدین کے اکثریت گھوڑ سوار تھی مجاہدین کو ایک اور فائدہ حاصل ہو گیا تھا انہوں نے ہرقل کو شکست دی تھی جو اس دور میں ایک عجیب بات سمجھی جاتی تھی کیونکہ ہرقل کی جنگی طاقت ایک دہشت کا نام تھا ،مجاہدین نے اس طاقت کو ملک شام کے جنگلوں اور صحرا میں بکھر ڈالا تھا اس طرح مجاہدین کی دھاک ہر طرف بیٹھ گئی تھی۔
الجزیرہ کے عیسائی قبائل لڑنے کے لیے میدان میں آ تو جاتے تھے لیکن زیادہ وقت نہیں گزرتا تھا کہ گھٹنے ٹیک دیتے تھے ۔
بنو تغلب نے بھی ایسی ہی لڑائی لڑی تین چار معرکوں میں انہیں منہ کی کھانی پڑی تو ان کے سردار صلح کا معاہدہ کرنے آگئے اور انہوں نے اطاعت قبول کر لی۔
سالار ولید بن عقبہ نے بنو تغلب کے سرداروں سے کہا ۔۔۔کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔
 بنو تغلب ان قبائل میں زیادہ جنگجو اور باوقار قبیلہ سمجھا جاتا تھا اس قبیلے کے سرداروں نے اسلام قبول کرنے سے صاف انکار کردیا۔ ولید بن عقبہ نے کہا کہ انہیں اسلام قبول کرنا ہی پڑے گا ورنہ ان پر ایسی سختی عائد کردی جائیں گی جو وہ برداشت نہیں کر سکیں گے ۔سرداروں نے متفقہ طور پر کہا کہ امیرالمومنین حضرت عمر جو فیصلہ کریں گے وہ اس فیصلے کو قبول کر لیں گے۔
سالار ولید بن عقبہ نے اسی روز امیرالمومنین کو پیغام بھیج دیا جس میں لکھا کہ انہوں نے بنو تغلب سے اسلام قبول کرنے کو کہا تھا جس سے انہوں نے انکار کر دیا ہے اور وہ فیصلہ امیرالمومنین پر چھوڑتے ہیں۔
حضرت عمر کی دور اندیشی اور تدبر کی تعریف تو غیر مسلم مؤرخوں نے بھی کی ہے۔ حضرت عمر نے جواب دیا کہ بنو تغلب کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کیا جائے اور یہ فیصلہ ان پر ہی چھوڑ دیا جائے۔
 حضرت عمر نے یہ بھی لکھا کہ بنو تغلب کے سرداروں سے کہہ دیاجائے کہ ان کے قبیلے میں سے کوئی بھی اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنا چاہے تو قبیلے کے لوگ اسے روکیں گے نہیں۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ جب حضرت عمر کا یہ فیصلہ سالار ولید بن عقبہ نے بنو تغلب کے سرداروں وغیرہ کو سنایا تو اس فیصلے سے ہی متاثر ہوکر متعدد عیسائیوں نے اسلام قبول کرلیا ، امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ پیغام میں یہ بھی لکھا تھا کہ بنو تغلب سے جزیہ وصول کر کے انہیں ذمی قرار دے دیا جائے ۔
بنو تغلب کے سرداروں نے جزیہ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ ذمی نہیں کہلائیں گے۔
ائے بنو تغلب! ۔۔۔ولید بن عقبہ نے کہا ہم تمہارے لئے اپنا قانون اور دستور بدل نہیں سکتے میں اب یوں نہیں ہونے دوں گا کہ تمہاری ہر ضد مدینہ امیر المومنین کے پاس بھیجوں اور وہاں سے فیصلہ لوں جزیہ تو ہم کبھی معاف نہیں کریں گے۔
ہم رقم دینے سے انکار نہیں کررہے ایک سردار نے کہا۔۔۔ آپ جزیہ سے دوگنی رقم ہم سے لیں، لیکن ہمیں ذمی نہ کہیں اور اس رقم کو جزیہ نہ کہیں۔
 آخر طے پایا کہ بنو تغلب کے سرداروں کا ایک وفد امیر المومنین کے پاس مدینہ جائیگا اور وہ ان کے آگے مطلوبہ رقم بھی رکھ دے گا اور اپنا مطالبہ بھی۔
اسی روز ان کا ایک وفد مدینہ کو روانہ ہوگیا اس وفد میں بنو تغلب کے نو مسلم بھی تھے سالار ولید بن عقبہ نے اپنا ایک نمائندہ ساتھ بھیج دیا تھا مدینہ پہنچ کر یہ وفد حضرت عمر کے حضور پہنچا اور یہی اصرار پیش کیا کہ وہ جزیہ دیں گے اور رقم جس قدر بھی ان سے طلب کی جائے گی وہ فوراً ادا کریں گے۔
 ہم نے جو جزیہ مقرر کیا ہے اس سے زیادہ نہیں لیں گے حضرت عمر نے کہا۔۔۔ اور اسے ہم جزیہ کہیں گے۔
لیکن ہم اسے صدقہ کہنا چاہتے ہیں ۔۔۔بنو تغلب کے ایک معمر سردار نے کہا ۔
تم اسے کوئی بھی نام دے دو ۔۔۔۔حضرت عمر نے کہا۔۔۔۔دستور کے مطابق اسے جزیہ کہا جاتا ہے ،،،،میں حیران ہوں کے تم لوگ کیسی بے معنی بات پر اڑے ہوئے ہو۔
امیرالمومنین! ۔۔۔۔معمر سردار نے کہا۔۔۔ ہم آپ کو امیر المومنین تسلیم کرتے ہیں اور ساتھ یہ درخواست بھی کرتے ہیں کہ ہماری عزت اور قومی وقار کو برقرار رہنے دیں، آپ جانتے ہیں کہ بنو تغلب کا کتنا اونچا نام یے ۔ جزیہ کو  بے عزتی اور ذلت سمجھا جاتا ہے ، یہ نہ بھولیں کہ ہمارے قبیلے کے آدمی آپ کے لشکر میں شامل ہوکر کسریٰ ایران کی فوج کے خلاف لڑے تھے، اب بھی ہم آپ کی لڑائیاں لڑیں گے، ہم نے آپ کی اطاعت قبول کرلی ہے، ہماری روایت کو تباہ نہ کریں۔
حضرت عمر جزیہ کو جزیہ ہی کہنے پر قائم رہے کچھ بدمزگی سی پیدا ہونے لگی تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے حضرت عمر کو ایک سالار سعد بن مالک کا واقعہ یاد دلایا جس نے ایک علاقہ فتح کر کے وہاں کے لوگوں سے جزیہ لینے کے بجائے دو گنا صدقہ قبول کر لیا تھا۔
 حضرت عمر بلاوجہ اپنی بات پر اڑا نہیں کرتے تھے۔ انہیں وہاں کا یاد آگیا اور (مورخ لکھتے ہیں کہ ) حضرت عمر کو یہ خیال بھی آیا کہ یہ قبیلہ ایک جنگی طاقت ہے جو اپنے کام آسکتا ہے ،آخر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جزیہ کے بجائے  صدقہ قبول کرلیا جائے لیکن رقم دگنی ہو گی۔
 بنو تغلب کے سرداروں نے یہ فیصلہ بخوشی قبول کر لیا اور رقم ادا کر دی اس طرح ایک طاقتور قبیلہ بھی مسلمانوں کے زیر اطاعت آگیا اور اس قبیلے کے لوگوں نے آہستہ آہستہ اسلام قبول کرنا شروع کردیا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=۔=÷=÷=÷*
انتھونیس، روتاس، لیزا، اور یوکلس حلب کے قریب ایک بستی میں پہنچ گئے، یہ جنگل میں چند ایک گھروں کی بستی تھی اور یہ بنو ربیعہ کے لوگ تھے انہوں نے انتھونیس اور اس کے ساتھیوں کو دیکھا تو سب گھروں سے باہر آگئے وہ جان گئے ہوں گے کہ یہ رومی ہیں رومیوں کے متعلق ان لوگوں کی رائے اچھی نہیں رہی تھی۔
انتھونیس اور روتاس خاصا لمبا عرصہ الجزیرہ کے علاقے میں رہے تھے اس لیے انہوں نے ان کی زبان سیکھ لی تھی انہوں نے بستی والوں سے کہا کہ وہ کسی بڑے آدمی یعنی بزرگ سے ملنا چاہتے ہیں۔
 لوگ انہیں ایک گھر میں لے گئے یہاں ایک ضعیف العمر آدمی نے ان کا استقبال کیا اور انہیں عزت و احترام سے بٹھایا یہ بوڑھا کوئی عام سا اور غریب سا آدمی نہیں لگتا تھا اس کے بولنے کے انداز سے پتہ چلتا تھا کہ وہ صاحب حیثیت ہے۔
تم رومی ہو بوڑھے نے کہا۔۔۔ ہمارے دلوں میں اب رومیوں کی وہ عزت نہیں رہی جو ان کی شکست سے پہلے ہوا کرتی تھی، لیکن تم ہمارے مہمان ہو دل سے تمھاری عزت کریں گے ۔کیا تم لوگ کہیں جا رہے ہو ؟کیا تمہیں ہماری کسی بھی قسم کی مدد درکار ہے؟ راستہ بھول گئے ہو تو ہم راستے پر ڈال دیں گے۔
قابل احترام بزرگ! ۔۔۔انتھونیس نے کہا ۔۔۔ہم راستہ نہیں بھولے ہم ایک نیا راستہ بنانے آئے ہیں اور ہمیں آپ کی اور آپ کے قبیلے کی مدد درکار ہے۔
کہو۔۔۔ بوڑھے نے پوچھا۔۔۔ کیسی مدد چاہیے ہم تمہیں مایوس نہیں کریں گے۔
ہمیں اپنی ذات کے لئے کچھ بھی نہیں چاہیے انتھونیس نے کہا۔۔۔ ہم آپ کی قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں اور کچھ اپنے لئے بھی، ہرقل بھاگ گیا ہے اس کی فوج مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ گئی ہے ،اور جو بچ گئی تھی وہ ایسی بکھر کر بھاگی کے اس کا وجود ہی ختم ہوگیا ہے، میں رومی فوج کا جرنیل ہوں اسے بھی جرنیل سمجھیں،  یہ عورت اور یہ لڑکا کون ہے یہ بعد میں بتائیں گے ابھی ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمیں رومی نہ سمجھیں اپنا ہم مذہب بھائی سمجھیں ، ہرقل پہلے بادشاہ ہے اس کے بعد عیسائی اور وہ بھی برائے نام ہم پہلے عیسائی ہیں اس کے بعد رومی۔
انتھونیس نے وہ صلیب اس بوڑھے کو دکھائی جو روتاس کو ابو عبیدہ نے تحفے کے طور پر دی تھی۔
ہم اس کی سلطنت قائم کرنا چاہتی ہیں جو صلیب کے ساتھ لٹکا ہوا ہے، انتھونیس نے کہا۔۔۔ یہ روم اور ایران جیسی بادشاہی نہیں ہوگی یہ یسوع مسیح کی سلطنت ہوگی اگر الجزیرہ کے تمام عیسائی قبائل اکٹھے ہوجائیں تو میں اور میرا یہ ساتھی انھیں ایک ایسی زبردست فوج میں منظم کر دیں گے کہ تھوڑے ہی عرصے میں مسلمانوں کو شام سے دھکیل باہر کریں گے۔
بوڑھے کے مرجھائے ہوئے چہرے پر رونق اور ہونٹوں پر تبسم آگیا ،یہاں سے وہ بات چلی جس بات پر انتھونیس قبائل کے سرداروں کو لانا چاہتا تھا ۔
بوڑھا جب بولا تو معلوم ہوا کہ وہ اس کا ہم خیال ہے اور ایسے ہی ارادے اس کے سینے میں بھی تڑپ رہے ہیں۔
کبھی ہم ایرانیوں کے غلام ہو جاتے ہیں۔۔۔ بوڑھے نے کہا ۔۔۔کبھی رومی آکر ہمیں اپنا زرخرید رعایا بنا لیتے ہیں، اور اب مسلمانوں نے ہمیں تہ تیغ کر لیا ہے مجھے اپنے اس تمام علاقے کی خبریں مل رہی ہیں ہمارے قبائل نے بغاوت تو کردی ہے لیکن الگ الگ ہوکر اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قبیلے کچھ لڑکے اور فوراً ہی ہتھیار ڈال کر اطاعت قبول کرتے چلے جا رہے ہیں۔
 بنو تغلب جیسے طاقتور قبیلے نے بھی مسلمانوں کی اطاعت قبول کرلی ہے صرف حلب رہ گیا ہے جہاں ابھی کچھ نہیں ہوا میری نظر اس قلعے بند شہر پر ہے ، دو طاقتور قبیلے ابھی بچے ہوئے ہیں ایک ہے بنی ربیعہ اور دوسرا ہے بنی تنوخ اگر ہم حلب میں جم گئے اور مسلمانوں کو ناکام کردیا تو تمام قبائل کی حوصلہ افزائی ہو گی اور وہ ہمارے پرچم تلے متحد ہو جائیں گے۔
کیا آپ ان قبیلوں کے سرداروں کو یہاں بلوا سکتے ہیں انتھونیس نے کہا ۔۔۔ہم ابھی سامنے نہیں آناچاہتے خطرہ ہے کہ ہرقل کے مخبر اور جاسوس ہمیں ڈھونڈتے پھر رہے ہونگے۔
تمہارے لئے کوئی خطرہ نہیں بوڑھے نے کہا۔۔۔ جب تک تم ہمارے پاس ہو تمہاری طرف آنکھ اٹھا کر بھی کوئی نہیں دیکھ سکتا، کسی بھی سردار کو یہاں بلانے کی ضرورت نہیں ہم تمہیں حلب میں پہنچا دیں گے اور سردار تمہارے پاس آجائیں گے۔ ہم تمہیں اپنا لباس پہنا دیں گے اور غریب سے کسانوں اور مزدوروں کے بہروپ میں حلب میں داخل کریں گے
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
تاریخ میں اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ حلب جیسے بڑے اور قلعہ بند شہر کو مسلمانوں نے کیوں اتنا نظر انداز کر رکھا تھا کہ وہاں مجاہدین کی نفری آبادی کے لحاظ سے بہت تھوڑی تھی، اور یہ چند ایک مجاہدین جزیہ اور محصولات وصول کرنے اور انتظامیہ کا کاروبار چلانے میں مصروف رہتے تھے، حلب کی آبادی بڑھتی جا رہی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ الجزیرہ کے علاقوں سے بھاگے ہوۓ عیسائی
قبائل حلب میں جاکر پناہ لیتےتھے، مختلف قبیلوں کے کئی ایک سردار بھی وہاں جا پہنچے تھے، یا وقتا فوقتا وہاں جاتے رہتے تھے ،حلب میں ابھی بغاوت اور سرکشی کے کوئی آثار نہیں تھے۔
انتھونیس، روتاس، لیزا، اور یوکلس جب حلب میں داخل ہوئے تو کسی نے انہیں اچھی طرح دیکھا بھی نہیں کسی کو دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی اس قسم کے خانماں برباد پناہ گزیں تو حلب میں آ ہی رہے تھے۔ انتھونیس اور اس کے ساتھیوں کو بھی ایسے ہی پریشان حال پناہ گزین سمجھا گیا ان کے ساتھ بوڑھے کے بھیجے ہوئے دو خاص آدمی تھے جو انہیں ایک سردار کے گھر میں لے گئے۔
حلب میں جا کر پتہ چلا کہ جس بزرگ کے پاس یہ لوگ گئے تھے وہ کوئی معمولی حیثیت کا آدمی نہیں بلکہ ان قبائل کا دانشور تھا جسے سردار بھی پیرومرشد کا درجہ دیتے تھے، یہی وجہ تھی کہ انتھونیس جن سرداروں کے پاس گیا انہوں نے اس کی اور اس کے ساتھیوں کی بہت ہی عزت اور پذیرائی کی۔
انتھونیس نے ان سرداروں کے ساتھ بات کی تو انہوں نے تین چار اور سرداروں کو بلا لیا جو حلب میں ہی موجود تھے انتھونیس نے اپنا مدعا بیان کیا تو اس نے سرداروں کو پہلے ہی تیار پایا ،اب یہ پلان بنانا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف معرکہ آرائی کی ابتدا کس طرح کی جائے کچھ دیر بات چیت اور بحث و مباحثہ ہوا اور ایک لائحہ عمل تیار ہو گیا۔
اس کے مطابق سرداروں نے اپنے خاص آدمی بلائے اور انہیں کچھ ہدایت دے کر دوڑا دیا ،دو ہی دنوں بعد قلعہ حلب میں آنے والے پناہ گزین قبائلیوں کی تعداد بڑھنے لگی اور بڑھتی ہی چلی گئی، جو مسلمان مجاہدین شہر میں موجود تھے انہوں نے یہ دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ ان پناہ گزینوں کے ساتھ ہتھیار بھی آ رہے ہیں ان ہتھیاروں میں زیادہ تر برچھیاں تھیں اور اس سے زیادہ کمانیں اور تیروں سے بھری ہوئی ترکشیں تھیں ۔ بعض ہتھیار تو کھلم کھلا آئے تھے اور زیادہ تر ہتھیار چھپا کر لائے جارہے تھے۔
رومی اس شہر سے بھاگ گئے تھے ان کے مکان اور فوجیوں کی بارکیں خالی پڑی تھیں پناہ گزین ان میں آ کر قیام کرتے تھے اور ان کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی کہ خیمے گاڑنے پڑے ۔
انتھونیس سرداروں کو فوجی اور جنگی نوعیت کی ہدایت دیتا تھا اور سردار یہ ہدایت اپنے خاص آدمیوں کو دیتے اور اس طرح تمام لوگوں تک یہ پہنچ جاتی تھی اور لوگ اس کے مطابق تیاریاں کر رہے تھے۔
انتھونیس اور اس کے کسی بھی ساتھی کو مسلمان تو پہچانتے ہی نہیں تھے لیزا اور یوکلس تو شاہی خاندان کے افراد تھے انہیں مسلمان پہچان ہی نہیں سکتے تھے، البتہ یوکلس کو تقریبا تمام عیسائی سردار پہچانتے تھے، اور یہ بھی ایک وجہ تھی کہ یہ سردار فوراً انتھونیس کے ساتھ ہو گئے تھے کیوں کہ اس نے ایک قبائلی لڑکی کو قسطنطین کی دست درازی سے اس طرح بچایا تھا کہ تلوار نکال لی تھی اور اگر محافظ دستے کا ایک افسر درمیان میں نہ آ جاتا تو ان دونوں بھائیوں میں سے کوئی ایک قتل ہو جاتا ۔
پھر یوکلس لڑائی سے پہلے ان قبائلیوں کے لشکر میں گھومتا پھرتا رہتا تھا اور سب کے دلوں میں اس واقعے کی وجہ سے یوکلس کی عزت پیدا ہو گئی تھی۔ یہ قبائلی اس کو اپنی عزت و آبرو کا محافظ سمجھنے لگے تھے۔ قبائلیوں کا تیس ہزار کا لشکر بد دل ہو کر ہرقل کا ساتھ چھوڑ آیا تھا جس کی اور وجوہات تو تھی لیکن اس میں یوکلس کا عمل دخل بھی تھا ،اب وہی یوکلس اپنے باپ کا ساتھ چھوڑ کر اور شاہی زندگی ترک کرکے ان کے پاس آ گیا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
لیزا تو رات کے وقت کبھی باہر نکلتی اور قلعے کی دیوار پر گھوم لیتی تھی ،یوکلس نوجوان لڑکا تھا وہ ایک گھر میں قید رہ ہی نہیں سکتا تھا، اور قید رہنے کی ضرورت بھی نہیں تھی اسے مجاہدین میں سے تو کوئی پہچانتا نہیں تھا ایک روز وہ شہر سے نکلا اور ویسے ہی سیر سپاٹے کے لئے ایک طرف چل پڑا اس طرف سبزہ زیادہ تھا اور بڑے گھنے اور خوبصورت درخت تھے ،اور وہیں کہیں ایک چشمہ بھی تھا کچھ کھیت بھی تھے وہ اس طرف جارہا تھا کہ چار پانچ لڑکیاں کچھ دور سے ہنستی کھیلتی آ رہی تھیں، اس کو دیکھ کر وہ رک گئیں، یوکلس نے ان کی طرف دیکھا ایک لڑکی دوڑتی ہوئی یوکلس کے پاس آئی ،یوکلس اسے ٹھیک طرح پہچان نہ سکا۔
تم وہی ہو لڑکی نے کہا۔۔۔ میں تمہیں ساری عمر نہیں بھول سکتی تم نے میری عزت بچائی تھی تم نہ ہوتے تو،،،،،،،، 
وہ میرا فرض تھا۔۔۔ یوکلس نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ مجھے تو تمہاری صورت یاد نہیں رہی تھی۔
وہ بڑی بھولی بھالی معصوم سی اور بڑی خوبصورت لڑکی تھی ،ابھی تو وہ بمشکل نوجوان ہوئی تھی جذبات کی شدت سے اس نے یوکلس کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے اس نے محسوس کیا کہ یوکلس کا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ سے بہت ہی مختلف ہے، لڑکی نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے آنکھوں سے لگا کر چومے اور پھر بائیں ہاتھ کو غور سے دیکھا، یوکلس نے اسے بتایا کہ اس کا بایاں بازو پیدائشی طور پر بیکار اور سوکھا ہوا ہے۔ لڑکی کے چہرے پر اداسی آئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
میں تمہیں خوابوں میں دیکھتی رہی ہوں۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ جب یہ خیال آتا تھا کہ تمھیں ساری عمر نہیں دیکھ سکوں گی تو بہت دکھ ہوتا تھا ،تم جیسے غیرت مند آدمی مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز لگتے ہیں۔
وہ میرا بڑا بھائی تھا جسے میں قتل کرنے کو تیار ہو گیا تھا۔۔۔ یوکلس نے کہا۔۔۔ میرا ایک بازو نہیں ہے پھر بھی میں تلوار برچھی اور کلہاڑی سے دو تین آدمیوں کا مقابلہ کرسکتا ہوں۔
سنا تھا تم بادشاہ کے بیٹے ہو؟ ۔۔۔لڑکی نے کہا ۔۔۔وہ بادشاہ تو بھاگ گیا ہے تم یہاں کیوں آئے ہو؟ 
میں بادشاہی کو ٹھوکر مار کر آیا ہوں... یوکلس نے کہا۔۔۔ اس روز تمہاری عزت بچائی تھی اب تمہارے قبیلے کی عزت بچانے آیا ہوں اب یہیں رہوں گا۔
لڑکی کے چہرے پر ایسا تاثر آ گیا تھا جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہو کہ اس کے خوابوں کا شہزادہ اس کے سامنے کھڑا ہے ،دوسری لڑکیاں ذرا پرے کھڑی دیکھ رہی تھیں، لڑکی نے انہیں ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ چلی جائیں، وہ سب قہقہے لگاتی چلی گئیں، اور کچھ دیر بعد یوکلس اور لڑکی چشمے کے کنارے ایک پھول دار جھاڑی کے پاس اس طرح بیٹھے ہوئے تھے کہ دونوں نے ایک دوسرے کو ایک ایک بازو کے گھیرے میں لے رکھا تھا۔
اس روز کے بعد لڑکی یو کلس سے کئی بار ملی، وہ ایک قبیلے کے سردار کی بیٹی تھی۔ رات کو بھی وہ یوکلس کے پاس آئی اور دونوں قلعے کے دیوار پر بیٹھے یا ٹہلتے رہے۔ وہ تو جیسے ایک دوسرے میں تحلیل ہو گئے تھے ،یوکلس نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ یہاں کیا کررہا ہے، اب تو لڑکی نے اسے آسمان سے اترا ہوا فرشتہ سمجھنا شروع کر دیا تھا۔
میرا ایک وہم تم کس طرح ختم کر سکتے ہو؟ ۔۔۔لڑکی نے ایک روز یو کلس سے کہا ۔۔۔جو سلطنت یا بادشاہی تم قائم کرنے آئے ہو وہ ہوگئی تو پھر تم شہزادے بن جاؤ گے اور مجھے بھول جاؤ گے تمہارے سامنے تو میری کوئی حیثیت ہی نہیں،،،، ۔
یوکلس نے اسے الفاظ میں نہیں اپنے ساتھ لگاکر عملاً یقین دلایا کہ وہ اسے کبھی نہیں بھولے گا ،اور کتنا ہی اونچا کیوں نہ چلا جائے اس کے بغیر نہیں رہ سکے گا، یوکلس نے اپنے ایک ہی بازو میں لڑکی کو اتنی شدت سے بھیجا جیسے اس کی پسلیاں توڑ ڈالے گا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
انتھونیس نے جنگ کی ابتدا کی جو رات مقرر کی تھی اس رات قبائلیوں نے بغیر کسی دشواری کے ان مجاہدین پر قابو پا لیا جو قلعے میں موجود تھے، وہ جہاں جہاں رہتے تھے وہاں گہری نیند سوئے ہوئے تھے، اس کام کے لئے جو قبائلی منتخب کیے گئے تھے وہ انتھونیس اور روتاس کی ہدایت اور ریہرسل کے مطابق پہنچے اور ان مجاہدین کو مقابلے کی مہلت ہی نہ دی ان سب کو ایک بڑے مضبوط دروازوں والے مکان میں بند کردیا گیا۔
شہر کے صدر دروازے پر دو مجاہدین ڈیوٹی پر رہتے تھے انھیں کسی طرح پتہ چل گیا کہ شہر میں بغاوت ہو گئی ہے اور ان کے ساتھی پکڑے گئے ہیں یہ دونوں وہاں سے نکلنے لگے تو ان پر چند ایک قبائلیوں نے حملہ کردیا دونوں نے جم کر مقابلہ کیا ،زخمی ہوئے لیکن وہاں سے نکل آئے وہاں سے تین میل دور ایک بستی تھی وہاں پہنچے اور دوگھوڑے لے کر ان پر سوار ہوئے اور گھوڑے دوڑا دیے، تقریبا بیس میل دور قنسرین کا شہر تھا خالد بن ولید اس وقت تک قنسرین میں تھے یہ ایک مضبوط قلعہ تھا اور خاصا وسیع وعریض شہرتھا۔
یہ رومیوں سے خالد بن ولید نے چھینا تھا۔اور انہیں بھگایا تھا۔
دونوں مجاہد زخموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پہنچے ،اور خالد بن ولید کو اطلاع دی کہ بغاوت ہو گئی ہے، خالد بن ولید نے ایک قاصد سپہ سالار ابوعبیدہ کو پیغام دینے کے لئے بھیج دیا اور اپنا لشکر فوراً تیار کرکے حلب کی طرف روانہ ہوگئے۔
 خالد بن ولید کی پیش قدمی تیز و تند طوفان کی طرح ہوا کرتی تھی ان کی رسد اونٹوں پر اور بیل گاڑیوں پر پیچھے پیچھے آ رہی تھی۔ جس کی طرف خالد بن ولید کی ذرا سی بھی توجہ نہیں تھی وہ تو بھوکے پیاسے بھی اپنے ہدف پر پہنچنا چاہتے تھے۔
یہ گھوڑسوار لشکر جب حلب پہنچا تو خالد بن ولید جیسے تاریخ ساز سالار نے بھی محسوس کرلیا کہ اس قلعے کو آسانی سے سر نہیں کیا جاسکے گا۔
 مشہور تاریخ دان واقدی لکھتا ہے کہ دور دور کے قبائل کے لڑنے والے لوگ بھی حلب میں اکٹھا ہو گئے تھے، اور بروقت مسلمانوں کو پتہ نہ چل سکا نہ انہوں نے انہیں غور سے دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی، مسلمان انہیں پناہ گزین سمجھتے رہے اور یہ خیال رکھا کہ انہیں رہائش اور روٹی ملتی رہے اور کوئی محرومی اور محتاجی محسوس نہ کرے ،اب یہی لوگ چاروں طرف دیواروں پر اس طرح کھڑے تھے کہ ان کے ہاتھوں میں کمانیں اور بعض کے پاس پھینکنےوالی برچھیاں تھیں، ان کی تعداد اتنی زیادہ تھیں کہ ان کے درمیان سے ہوا بھی نہیں گزر سکتی تھی ۔
خالد بن ولید کے لشکر کی تعداد چار ہزار تھی خالد بن ولید نے دیواروں پر کھڑے قبائلیوں پر تیر پھینکے لیکن دیواروں سے جو تیر آئے ان کے سامنے اپنے تیر انداز ٹھہرنا سکے۔
خالد بن ولید نے سپہ سالار کی طرف ایک قاصد اس پیغام کے ساتھ دوڑایا کہ مزید لشکر کی ضرورت ہے کیونکہ قلعہ بھی مضبوط ہے اور دفاع اور زیادہ مستحکم اور مہلک ہے۔
 ابو عبیدہ نے سالار عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کو پانچ ہزار گھوڑ سواروں کے ساتھ حلب پہنچنے کا حکم دیا یہ لشکر بڑی تیزی سے روانہ ہو گیا۔
خالد بن ولید قلعے توڑنے اور سر کرنے کی خصوصی مہارت رکھتے تھے، اس مقصد کے لئے انہوں نے جاں باز گروہ بنا رکھے تھے۔ تاریخ اسلام کا یہ عظیم سپہ سالار محاصرے کو طول دینے کا قائل نہیں تھا۔
 واقدی نے لکھا ہے کہ محاصرہ بہت طویل ہو گیا تھا، دو یورپی مورخ لکھتے ہیں کہ خالد بن ولید اس قدر غیظ و غضب میں  تھے کے انہوں نے محاصرہ طویل نہ ہونے دیا بلکہ ایسی چال چلی جن سے عیسائی قبائلی ان کے پھندے میں آگئے۔
انتھونیس نے یہ حرکت کی کے محاصرے کے تیسرے چوتھے ہی روز ان تمام مجاہدین کو قلعے کی دیوار پر پہلو بہ پہلو کھڑا کر دیا جنہیں ایک رات سوتے میں پکڑ کر قید کردیا گیا تھا ۔
سب کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے اس نے دیوار پر کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ محاصرہ فوراً اٹھا لو ہم زیادہ انتظار نہیں کریں گے، ان میں پہلے دس آدمیوں کے سر کاٹ کر تمہاری طرف پھینک دیں گے ،محاصرہ پھر بھی نہ اٹھایا گیا تو مزید دس آدمیوں کے سرکاٹ کر باہر پھینکے جائیں گے۔
محاصرہ نہیں اٹھانا۔۔۔ ایک قیدی مجاہد نے بڑی ہی بلند اور پرجوش آواز میں کہا۔۔۔ ہمارے سرکٹ جانے دو ہم گھروں سے اللہ کی راہ میں سر کٹوانے ہی نکلے ہیں، محاصرہ نہ اٹھانا ۔ اللہ تمہاری مدد کرے گا قلعہ توڑ لو گے۔
تمام قیدی مجاہدین نے جن کی تعداد کم و بیش ایک سو تھی، نعرے لگانے شروع کر دیے وہ سب یہی کہہ رہے تھے کہ محاصرہ نہ اٹھانا ہمارے سر کٹ جانے دو ، قیدی مجاہدین کے جذبے ایثار اور جوش و خروش نے باہر والے مجاہدین کو آگ بگولہ کردیا یہ تو سالاروں کا کمال تھا کہ انہوں نے مجاہدین کو اپنے قابو میں رکھا ورنہ وہ تو اس قدر جوش میں آ گئے تھے کہ سب کے سب قلعے پر ہلہ بول دینے کو تیار ہو گئے تھے ،وہ کہتے تھے کہ تیر انداز اوپر دیوار پر تیر پھینکتے رہیں اور وہ دروازے توڑ لیں گے یا دیوار میں کہیں شگاف ڈالیں گے۔
 خالد بن ولید اور عیاض بن غنم ہوشمند سالار تھے وہ جذبات کے جوش سے نہیں جنگی فہم و فراست سے کارروائیاں کیا کرتے تھے۔
ایک دو دنوں کی کوششوں کے بعد خالد بن ولید نے شہر کے اندر افراتفری پھیلانے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ فلیتے والے تیر شہر کے اندر پھینکنے شروع کر دیئے ، یہ آگ لگانے والے تیر تھے انہی دیواروں کے اوپر سے اندر تک پہنچانا آسان نہیں تھا لیکن شہر کے ایک طرف کچھ بلند جگہ مل گئی جس پر تیر انداز کھڑے ہو کر تیر اندر پھینک سکتے تھے ۔
بعض تیرانداز درختوں پر چڑھ گئے اور وہاں سے آگ والے تیر اندر پھینکنے لگے یہ تیر کچھ زیادہ اثرانداز نہیں ہوئے جس کی وجہ یہ تھی کہ آبادی دیواروں سے اتنی دور تھی جہاں تک تیر نہیں پہنچ سکتے تھے، ایک میدان میں خیمے لگے ہوئے تھے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
دونوں سالاروں ۔۔۔۔خالد بن ولید اور عیاض بن غنم کو قلعے کے اندر کے حالات کا تو کچھ بھی پتہ نہیں تھا اندر اگر کوئی مسلمان جاسوس تھا بھی تو وہ باہر نہیں آ سکتا تھا اور باہر سے کسی کو قبائلی عیسائیوں کے بہروپ میں اندر نہیں بھیجا جا سکتا تھا، دیواروں پر جو قبائلی تیر اور کمان اور پھینکنےوالی برچھیاں لیے کھڑے رہتے تھے وہ روز اول کی طرح جوش وخروش میں معلوم ہوتے تھے۔
 خالد بن ولید نے اپنے نائب سالاروں سے اور ایک دو مرتبہ مجاہدین کے پورے لشکر سے کہا تھا کہ حلب کو اپنا ہی شہر سمجھو، ان کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے خالد بن ولید نے پراعتماد انداز میں کہا تھا کہ شہر میں کوئی تربیت یافتہ اور تجربہ کار فوج نہیں یہ لوگ فرداً فرداً لڑنا جانتے ہیں یا ہجوم کی صورت میں ہلہ بول سکتے ہیں، لیکن محاصرے میں ٹھہرنا اور محاصرہ توڑنا ان کے بس کی بات نہیں بلکہ ان لوگوں کو اپنے بس میں سمجھو اور تھوڑے ہی عرصے بعد یہ ہتھیار ڈال کر ہماری اطاعت قبول کر لیں گے ،یا کوئی ایسی حماقت کر بیٹھیں گے جو ان کی شکست کا باعث بنے گی۔
 خالد بن ولید کو یہ معلوم نہیں تھا کہ محصورین کی قیادت رومی فوج کے ایک بھگوڑے جرنیل کے ہاتھ میں ہے اور اس کا نائب اور معاون رومی فوج کا ہی ایک افسر ہے جو سپہ سالار ابوعبیدہ کی قید میں رہ کر گیا ہے ۔
مسلمان سالاروں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کے ساتھ ہرقل کی ایک بیوی بھی ہے جو ایران کے شاہی خاندان کی عورت تھی اور ہرقل کے شاہی خاندان میں دھوکے سے داخل ہوئی تھی، مسلمانوں کے یہاں تو جہاد کا جذبہ اور دین و ایمان تھا اور ان کا اپنا کلچر تھا جس سے وہ  ذرا سا بھی نہیں ہٹتے تھے۔
 اس کے مقابلے میں قلعے کے اندر جو رومی قیادت تھی اس کا اپنا کلچر اور اپنا کردار تھا، جسے وہ لوگ اپنی ضرورت اور اپنے مفادات کے مطابق دستبردار ہو جایا کرتے تھے۔
قلعے کے اندر کے حالات کچھ اس طرح تھے کہ انتھونیس اور روتاس تو جیسے راتوں کو سوتے بھی نہیں تھے ان کے لئے یہ ایک قلعے یا ایک بڑے شہر کی لڑائی نہیں تھی بلکہ ان کی زندگی اور موت کی لڑائی تھی۔
 انتھونیس کا یہ عزم بھی تھا کہ وہ ایک عیسائی سلطنت کی بنیاد رکھے گا اور الجزیرہ کے قبائلی عیسائیوں کو ایک جنگی طاقت کی صورت میں منظم کرے گا ،اس عزم کی تکمیل کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ حلب کو ہاتھ سے نہ جانے دے ۔
روتاس اس کا دست راست بن گیا تھا۔
ہرقل کا بیٹا یو کلس بھی ان کے ساتھ تھا لیکن وہ نوجوان تھا اور ایک بازو سے معذور بھی وہ ایک ہاتھ سے لڑنا جانتا تھا قیادت کے قابل نہیں تھا پھر بھی وہ اپنے آپ کو جرنیل ہی سمجھتا تھا۔اپنی اس حیثیت کو وہ اپنا حق سمجھتا تھا۔ کیونکہ وہ شاہ ہرقل کا بیٹا تھا ،وہ بھی دن رات بھاگتا دوڑتا رہتا تھا اور جب سے حلب محاصرے میں آیا تھا اس رومی نوجوان نے یہ معمول بنا لیا تھا کہ دیوار پر جاتا یا نیچے شہر میں گھوم پھر رہا ہوتا۔
 تو چند ایک آدمیوں کو اکٹھا کرکے انہیں بتاتا تھا کہ وہ یسوع مسیح کی سلطنت کے قیام کے لیے لڑ رہے ہیں، اس لئے آخر فتح ان کی ہوگی ،اس طرح وہ جوشیلی اور جذباتی باتیں کر کے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا رہتا تھا ،وہ کئی کئی راتیں اپنی ماں کے پاس نہیں جاتا تھا۔
 عام طور پر قلعے کے صدر دروازے کے اوپر جو کمرے بنے ہوئے تھے ان میں سے کسی کمرے میں سو جاتا تھا۔
جاری ہے
*پاک ترک میڈیا فورم*

RELATED POSTS


Post a Comment

if you have any doubt please let me know

Previous Post Next Post