EPISODE 11|TAREEKHI NOVEL BY A MUSLIM WRITER FAMOUS
AUR NEEL BEHTA RAHA HEROS OF ISLAM BY INAYATULLAH ALTAMASH
aur neel behta raha,'amr ibn al-'as,battle of yarmouk,decline of byzantine-roman empire,decline of sassanid-persian empire,battle of nikiou,battle of heliopolis,siege of alexandria,conquest of egypt,heroes of islam,islamic history,islam ke mujahid,tigers of islam,urdu audio book,urdu islamic history novel,inayathulla altamash,urdu islamic historical novels,inayathullaah altamash,decline of abbasid caliphate,aakhri chataan,brutal storm of mongols,wrath of ganghez khan
*اورنیل بہتارہا*
*قسط نمبر/11
مرتب: *محمدساجداشرفی*
_____________________________________________
یہ اسلامی فتوحات تھی جو بلا شک و شبہ قابل فخر تھی لیکن فتوحات کا دائرہ اتنا وسیع ہوگیا تھا کہ اس کے مطابق مجاہدین کی تعداد قلیل تھی، یہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور سپہ سالاروں کی عقل و دانش کا کرشمہ تھا کہ اسی قلیل نفری کو ایسا پھیلا دیا کہ فتوحات کی وسعت قابو میں رہی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ یہ فتح بظاہر مکمل تھی لیکن سانپ ابھی مرا نہیں تھا ہرقل بزنطیہ سے نکل گیا تھا اس کا رخ ارض روم کی طرف تھا۔
تاریخ سے یہ پتہ نہیں ملتا کہ ہرقل کہاں جا ٹھہرا تھا ۔
تاریخ میں ارض روم لکھا ہے ، شام سے کچھ آگے روم کا علاقہ شروع ہوجاتا تھا ہرقل خود کو تو شکست قبول کرکے چلا گیا تھا، لیکن اس کا کچھ زہر پیچھے رہ گیا تھا مسلمان مؤرخین نے اس پہلو پر کچھ بھی نہیں لکھا ،تین یورپی مؤرخوں کی تفصیلات ملتی ہے جو ایک اور ڈرامے سے پردہ اٹھاتی ہے۔
یہ مسلمانوں پر جوابی حملے کی ایک کوشش تھی۔
شکست خوردہ رومی فوج کا کمانڈر یعنی سپہ سالار ہرقل کا اپنا بیٹا قسطنطین تھا وہ بھی بوکھلا کر بھاگا اور بزنطیہ جانے کے بجائے اس نے انطاکیہ کا رخ کر لیا تھا اسے توقع تھی کہ ہرقل انطاکیہ میں ہی ہوگا اور وہاں سے وہ مصر کو روانہ ہوجائے گا، لیکن راستے میں اسے پتہ چلا کہ ہرقل اس وقت نہ بزنطیہ میں ہے نہ انطاکیہ میں بلکہ ایک اور جگہ جا پہنچا ہے قسطنطین اس طرف چلا گیا اور اپنے باپ سے ملا۔
محترم باپ! ۔۔۔قسطنطین نے خفت مٹانے کے انداز سے کہا ۔۔۔مجھے دلی صدمہ ہے کہ میں آپ کی توقعات پر پورا نہیں اترا لیکن اس سے پہلے کہ آپ شکست کا الزام مجھ پر عائد کریں میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ شکست کا اصل ذمہ دار کون ہے۔
ہرقل کے منہ سے کوئی بات نہ نکلی وہ چپ چاپ قسطنطین کو دیکھتا رہا۔
اگر الجزیرہ کے قبائل ہمارے ساتھ رہتے تو آج ہم یوں پسپا نہ ہوتے قسطنطین نے کہا۔۔۔ انہیں یوکلس نے بھگایا تھا یہ تو آپ کو بھی یقین ہے، لیکن لڑائی کے دوران ایک اور بڑا ہی خطرناک غدار سامنے آیا ہے، وہ ہے ہمارا ایک جرنیل آنتھیونیس، اس نے میری آنکھوں کے سامنے دو تجربے کار کمانڈروں کو قتل کیا ہے۔
ہرقل جو پہلے نیم بیداری کی سی کیفیت میں تھا یک لخت بیدار ہو گیا۔
ہمارے اس جرنیل نے ان دو کمانڈروں کو قتل کیا ہے جنہیں ہم نے یوکلس کو قتل کرنے کا کام سونپا تھا۔۔۔ قسطنطین نے کہا۔۔۔ میں خود دیکھ رہا تھا یوکلس الگ ہو کر لڑائی میں شامل ہو گیا تھا ،اور دونوں کمانڈر ہماری ہدایت کے عین مطابق اس تک پہنچ گئے، انتھیونیس کچھ دور تھا اس نے یوکلس کی طرف گھوڑا دوڑایا دیا ایک کمانڈر یوکلس پر تلوار کا وار کرنے ہیں لگا تھا کہ پیچھے سے انتھیونیس نے اس کمانڈر پر تلوار کا زوردار وار کر کے اسے گھوڑے سے گرا دیا، ہمارا دوسرا کماندر اپنے گھوڑے کو یوکلس کے گھوڑے سے آگے کرکے روک رہا تھا لیکن انتھیونیس نے وار کر کے اسے بھی قتل کر دیا ۔
میں وہاں سے چلا گیا انتھیونیس کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ ہم یوکلس کو قتل کروا رہے ہیں ۔
پھر اس نے ان دونوں کمانڈروں کو کیوں قتل کیا صرف اس لئے کہ وہ اپنی فوج کو کمزور کر رہا تھا تاکہ ہمیں شکست ہو۔
میں نے لڑائی کی صورتحال کے مطابق انتھیونیس کی طرف قاصد دوڑایا کے اپنے دستے کو فلاں طرف لے جا کر مسلمانوں پر حملہ کرے لیکن قاصد اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر واپس آگیا نہ اسے انتھیونیس ملا نہ یوکلس یہ کیا کھلی غداری نہیں؟
وہ اس وقت ھونگے کہاں؟ ۔۔۔ہرقل نے پوچھا۔
میں یہ بھی معلوم کر آیا ہوں قسطنطین نے جواب دیا۔۔۔ وہ دونوں بزنطیہ چلے گئے تھے وہاں جاتے دیکھے گئے ہیں۔
ہرقل پہلے ہی صدمے اور غصے سے نیم پاگل ہو چکا تھا اس نے اپنے محافظ دستے کے کمانڈر کو بلایا اور بڑی ہی گرجدار آواز میں حکم دیا کہ ابھی بزنطیہ جاؤ اور جرنیل انتھیونیس کو زنجیروں یا رسیوں سے باندھ کر یہاں لے آؤ۔
سورج کبھی کا غروب ہو چکا تھا اور رات گہری ہوگئی تھی محافظ دستے کا کمانڈر آٹھ یا دس محافظوں کو ساتھ لے کر بزنطیہ کی طرف روانہ ہو گیا ۔
بزنطیہ تک پہنچنے کے لیے تین چار گھنٹے درکار تھے ہرقل کا حکم تھا کہ اس جرنیل کو فوراً لایا جائے محافظوں نے گھوڑوں کو ایڑ لگا دی اور گھوڑے سرپٹ دوڑتے گئے۔
آدھی رات سے کچھ پہلے یہ محافظ سوار بزنطیہ پہنچے۔
بزنطیہ ایک مضبوط قلعہ تھا اور قلعے کے دروازے سورج غروب ہوتے ہی بند کر دیے جاتے تھے ، لیکن اب بزطیہ کے دروازے کھلے تھے کیونکہ ہرقل نے یہ شہر خالی کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
کماندر کو انتھونیس کے گھر کا علم تھا اس گھر پر چھاپہ مارا لیکن مکان خالی پڑا تھا اور گھر میں کوئی بھی نہیں تھا، ابھی کئی لوگ شہر میں موجود تھے کماندار نے ساتھ والے تین چار مکانوں پر دستک دے کر سب کو جگایا اور انتھونیس کے متعلق پوچھا ۔۔۔انہوں نے بتایا کہ انتھیونیس کی بیوی اپنے بچوں کے ساتھ شہر سے نکلتے دیکھی گئی تھی لیکن انھتیونیس کہیں نظر نہیں آیا۔
اس وقت انتھونیس بزنطیہ سے پورے ایک دن کی مسافت جتنا دور نکل گیا تھا ، یوکلس بھی اس کے ساتھ تھا اور یوکلس کی ماں لیزا بھی۔
تینوں گھوڑے پر سوار تھے اور چوتھے گھوڑے پر انہوں نے کھانے پینے کا سامان اور کچھ ضروری اشیاء لاد لی تھی ان تک کسی کا پہنچنا ممکن نہیں رہا تھا۔
محافظ دستے کے کمانڈر نے واپس جاکر بتایا کہ انتھونیس کا گھر خالی ہے اور اس کے بیوی بچے بھی لاپتہ ہیں ۔
قسطنطین نے یہ سنتے ہی کہا کہ وہ غدار اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر کہیں بھاگ گیا ہے۔ ہرقل پہلے ہی غصے سے بوکھلایا ہوا تھا۔
اس نے حکم جاری کردیا کہ یہ جرنیل جہاں کہیں نظر آئے اسے پکڑ کر اس کے سامنے لایا جائے۔
اور دوسرے غدار یوکلس کے متعلق کیا حکم ہے ؟قسطنطین نے ہرقل سے پوچھا۔۔۔
اب میں اسے معاف نہیں کرسکتا ہرقل نے کہا۔۔۔ اس کا اب خاتمہ ہی کرنا پڑے گا اور اگر اس کی ماں نے کوئی الٹی سیدھی حرکت کی تو میں اسے بھی دنیا سے اٹھا دوں گا۔ پورا ملک ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے میں تو اپنے آپ کو بھی معاف کرنے کے لئے تیار نہیں۔
قسطنطین نے ہرقل کو اکسا دیا کہ یوکلس کو گرفتار کرلیا جائے، خفیہ طور پر وہ جہاں کہیں بھی ہے قتل کروا دیا جائے۔
وہ لڑائی میں ہی نہ گئے ہوں ہرقل نے کہا۔۔۔
وہ تو لڑے ہی نہیں قسطنطین نے کہا ۔۔۔میں معلوم کروا چکا ہوں وہ بہت پہلے میدان جنگ سے نکل گئے تھے۔
آخر ہرقل نے یہ فیصلہ بھی دے دیا کہ یوکلس کو قتل کروا دیا جائے، قسطنطین اس فیصلے پر بہت خوش ہوا اور اس نے ہرقل سے کہا کہ وہ یہ کام خود کروائے گا، وہ باہر نکلا اور اپنے اعتماد کے دو فوجی کمانڈروں کو بلا کر کہا کہ وہ یوکلس کو ڈھونڈے اور بتائیں کہ وہ کہاں ہے اور پھر وہ انہیں بتائے گا کہ انہیں کیا کرنا ہے دونوں کمانڈر حکم لے کر یوکلس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔
رومی فوج اپنی بے انداز لاشیں اور شدید زخمیوں کو میدان جنگ میں چھوڑ کر پسپا ہو گئی تو مجاہدین نے مال غنیمت اکٹھا کرنا شروع کردیا سپہ سالار ابوعبیدہ نے یہ یقین کر لیا کہ اب دشمن کی طرف سے جوابی حملے کا کوئی امکان نہیں رہا تو وہ حمص واپس چلے گئے ،اس کے فوراً بعد حمص میں رومیوں کے ہتھیاروں کا انبار لگنے لگا اور جو مال غنیمت ملا تھا وہ سپہ سالار کے آگے رکھا جانے لگا۔
یہ کوئی معمولی فتح نہیں تھی اسلام کے سب سے بڑے دشمن کو سرزمین عرب سے بے دخل کر دیا گیا تھا ہر کوئی جشن منانے کے موڈ میں تھا مجاہدین کی بیویاں بہنیں اور بیٹیاں زخمیوں کو اٹھانے اور ان کی مرہم پٹی کرنے کے لیے میدان جنگ میں چلی گئی تھیں۔ شارینا بھی ادھر ہی جا رہی تھی کہ ایک آدمی نے اسے روک کر کہا کہ روم کی فوج کا وہ افسر جسے ایک کمرے میں نظربند رکھا ہوا ہے اسے بلا رہا ہے۔
وہ روتاس تھا پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اسے کس طرح حدید اور شارینا اس کے دو سپاہیوں کو ہلاک کرکے اسے پکڑ لائے تھے، اور اس سے ابو عبیدہ نے معلوم کر لیا تھا کہ رومی فوج کہاں ہے اور ہرقل کی اگلی کارروائی کیا ہوگی روتاس نے جنگی نوعیت کی کچھ باتیں بتا دی تھی اور جو راز اس نے نہیں اگلا تھا وہ شارینا نے بڑے خوبصورت دھوکے سے اس کے سینے سے نکال لیا تھا۔
شارینا نے ہی اسے قید خانے کے بجائے ایک بڑے اچھے رہائشی کمرے میں رکھو آیا تھا۔ سپہ سالار ابوعبیدہ نے اس کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ رومی فوج کو شکست دے دی گئی تو اسے رہا کر دیا جائے گا۔
شارینا تو اسے بھول ہی چلی تھی، روتاس نے ایک ملازم کو بھیج کر شارینا کو بلایا تو شارینا فوراً اس کے پاس پہنچی۔
معلوم ہوتا ہے سپہ سالار اپنا وعدہ بھول گیا ہے ۔روتاس نے شارینا سے کہا۔۔۔ کیا تم اسے میری رہائی کا وعدہ یاد نہیں دلاؤں گی۔
سپہ سالار آج ہی واپس آیا ہے شارینا نے کہا۔۔۔ میں ابھی اس کے پاس جا کر تمہاری رہائی کا حکم لے آتی ہوں۔
روتاس کے دل پر قبضہ کرنے کے لئے شارینا اسے یہ تاثر دیتی رہی تھی کہ وہ ایک مسلمان کے ساتھ شادی کر بیٹھی ہے لیکن یہاں نہیں رہے گی اور اپنے خاوند حدید کو اپنے ساتھ لے کر ہرقل کے پاس واپس چلی جائے گی۔ اب روتاس نے اس سے کہا کہ وہ اسکے ساتھ چلے گی یا کیا کرے گی ۔
اور وہ اس نے اسے کہا کہ وہ اس کے ساتھ چلی گئی یا کیا کرے گی۔
میں تمہارے ساتھ نہیں چل سکوں گی شارینا نے کہا ۔۔۔اب صورت بالکل ہی مختلف ہو گئی ہے ہرقل نہ جانے کہاں سے کہاں جا پہنچا ہے اور اس کی فوج کا تو وجود ہی نہیں رہا، میں حدید کو ساتھ لے کر جاوں گی کہاں؟ تمہیں یہاں سے نکلوا دونگی اور جب کبھی موقع ملا میں بھی آ جاؤ گی۔
شارینا سپہ سالار ابوعبیدہ سے جا ملی اور انھیں روتاس کی رہائی کا وعدہ یاد دلایا۔
ابو عبیدہ نے اسی وقت روتاس کو اپنے پاس بلوایا روتاس عربی نہیں جانتا تھا اور ابوعبیدہ اس کی زبان نہیں سمجھتے تھے، شارینا دونوں زبانیں سمجھتی اور بولتی تھی وہ ان کے درمیان ترجمان بن گئی۔
شارینا بیٹی !۔۔۔ابوعبیدہ نے کہا ۔۔۔اسے کہو کہ فتح اور شکست اللہ کے اختیار میں ہے اس لئے ہم سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اس کے بعد ہم اس کے مشکور اور ممنون ہوتے ہیں جس نے ہماری فتح کے لئے ذرا سا بھی تعاون کیا ہو میری طرف سے روتاس کا شکریہ ادا کرو کہ اس نے ہمارے ساتھ تعاون کیا تھا جس نے ہمیں اس فتح میں مدد دی ،میں اسے کوئی تحفہ دے کر رخصت کرنا چاہتا ہوں۔
سپہ سالار ابوعبیدہ باہر نکل گئے شارینا نے روتاس کو اپنی زبان میں بتایا کہ سپہ سالار نے کیا کہا ہے۔۔۔ اور یہ بتایا کہ سپہ سالار اسے کوئی تحفہ دینا چاہتے ہیں۔
روتاس یہ کہہ ہی رہا تھا کہ اس کے لیے یہی تحفہ بہت ہی قیمتی ہے کہ اسے باعزت طور پر رہا کیا جا رہا ہے، کہ سپہ سالار ابوعبیدہ واپس آگئے۔
ان کے ہاتھ میں ایک صلیب تھی جو بمشکل چھ انچ لمبی تھی اس پر حضرت عیسی علیہ السلام کا مصلوب بت بھی تھا صلیب تو لکڑی کی تھی لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کا بت سونے کا تھا۔
یہ عیسائی ہے ابوعبیدہ نے کہا ۔۔۔میں اسے اس کے مذہب کے مطابق تحفہ دے رہا ہوں یہ صلیب ایک مرے ہوئے رومی فوجی افسر کے پاس تھی یہ میرے پاس مال غنیمت کے طور پر آئی ہے اسے بتاؤ کہ سپہ سالار کو اتنا اختیار حاصل نہیں ہوتا کہ وہ مال غنیمت میں سے ایک ذرہ بھی اپنی مرضی سے لے کر خود رکھ لے یا کسی کو دے دے لیکن اس شخص نے ہماری جو مدد کی ہے اس کا صلہ میں اپنے امیرالمومنین کی طرف سے اور اپنے تمام مجاہدین کی طرف سے دے رہا ہوں۔
ابو عبیدہ نے یہ صلیب روتااس کو دے دی، اور شارینا سے کہا ۔۔۔کہ باہر سے کسی نائب سالار یا کماندار یا عہدیدار کو میرے پاس لے آئے۔
شارینا باہر گئی اور ایک ذمہ دار مجاہد کواپنےساتھ لےآئی۔ سپہ سالار ابوعبیدہ نے اسے کہا کہ اس رومی افسر کو اپنے ساتھ لے جاؤ اور اسے جو گھوڑا پسند آئے اس پر زین وغیرہ ڈال کر اسے دے دو ،اور کسی ایک مجاہد کو اس کے ساتھ بھیجو جو اسے میدان جنگ سے کچھ آگے تک چھوڑ آئے۔
ابوعبیدہ نے یہ انتظام یہ سوچ کر کیا تھا کہ مجاہدین اسے رومی سمجھ کر پکڑ نہ لیں۔
سپہ سالار کا میری طرف سے شکریہ ادا کروں شارینا روتاس نے کہا۔۔۔ مجھے آج پہلی بار معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا کردار کس قدر بلند اور قابل تعریف ہے میں اب سمجھا ہوں کہ اسلام کیوں اتنی تیزی سے پھیلتا جارہا ہے۔ انہیں یہ بھی کہوں کہ میں اس جنگ و جدل کو بھول جاؤں گا ملک شام کو بھی بھول جاؤں گا لیکن سپہ سالار کا حسن سلوک کبھی نہیں بھول سکوں گا۔
روتاس نے سپہ سالار ابوعبیدہ کے ساتھ ہاتھ ملایا اور ایک قدم پیچھے ہٹ کر رومی انداز سے سیلوٹ کیا اور باہر چلا گیا۔
وہاں گھوڑوں کی کوئی کمی نہیں تھی ان رومیوں کے سیکڑوں گھوڑے پکڑے گئے تھے جو مارے گئے تھے یا شدید طور پر زخمی ہوگئے تھے۔ روتاس نے ایک اعلی نسل کا نہایت تندرست گھوڑا پسند کیا جو اس کی اپنی ہی فوج کے کسی مرے ہوئے سوار کا تھا وہ اس گھوڑے پر سوار ہوا اور ایک مجاہد اس کے ساتھ چلا گیا حمص سے کچھ دور جا کر اسنے اپنی فوج کی بکھری ہوئی لاشیں نظر آنے لگی ،وہ ان لاشوں کو دیکھتا اور اس احتیاط سے گھوڑے کو دائیں بائیں کرتا آگے بڑھتا گیا کہ گھوڑے کا پاؤں کسی لاش یا بے ہوش زخمی پر نہ آجائے۔
تصور میں لایا جاسکتا ہے کہ اپنی فوج کی اتنی زیادہ خون میں نہائی ہوئی لاشیں دیکھ کر اس کی جذباتی کیفیت کیا ہوئی ہوگی، اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ اس نے گھوڑا روک لیا اور اپنے ساتھ آنے والے مجاہد سے ہاتھ ملایا اور اشارے سے کہا کہ وہ اب واپس چلا جائے۔
اس نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی اور گھوڑا دوڑ پڑا اور اس نے نہ دیکھا کہ گھوڑا لاشوں پر پاؤں رکھ کر دوڑ رہا ہے یا نہیں۔
سورج غروب ہو رہا تھا روتاس کا رخ بزنطیہ کی طرف تھا وہ جب میدان جنگ سے دور نکل گیا تو گھوڑے کی رفتار کم کر دی، تاکہ یہ تھک نہ جائے ۔
اس کی منزل ابھی خاصی دور تھی۔
اسے خیال آیا کہ وہ بزنطیہ جا رہا ہے لیکن ہرقل یا اس کا کوئی جرنیل اس سے پوچھے گا کہ وہ اتنا عرصہ کہاں رہا ہے تو کیا جواب دے گا وہ پہلے ہی اپنی فوج کی شکست سے دلبرداشتہ تھا صدمے کا بوجھ اس کے دل پر ایسا پڑا تھا کہ وہ کوئی صحیح فیصلہ نہ کر سکا اسے خطرہ یہ محسوس ہونے لگا کے اس کی صحت اور جسمانی حالت اتنی اچھی ہے کہ کوئی مانے گا ہی نہیں کہ وہ مسلمانوں کی قید سے رہا ہوکر آیا ہے ۔
قیدی کے ساتھ کوئی ایسا اچھا سلوک نہیں کیا کرتآ کہ اسے معزز مہمان سمجھا جائے ۔
اس کے ساتھ ہی اسے اس جرم کا احساس پریشان کرنے لگا کہ اس نے مسلمانوں کے سپہ سالار کو راز کی باتیں بتا دی تھیں،
وہ ہرقل کو بھی جانتا تھا ہرقل فرعون قسم کا بادشاہ تھا جو سزائے موت سے کم بات ہی نہیں کرتا تھا ۔
روتاس تذبذب میں مبتلا ہوگیا اور اس کے ذہن میں ایک کشمکش شروع ہوگئی جو اذیت ناک ہوتی چلی گئی اس نے اپنی جیب سے وہ صلیب نکالی جو اسے سپہ سالار ابوعبیدہ نے تحفے کے طور پر دی تھی ، شام ابھی گہری نہیں ہوئی تھی کچھ دور تک نظر کام کرتی تھی اس نے صلیب پر مصلوب حضرت عیسی علیہ سلام کا بت دیکھا۔
کہاں جاؤ؟ ۔۔۔
اس نے بت سے پوچھا ۔۔۔یسوع مسیح !
میری رہنمائی کریں مجھے اس راستے پر ڈال دیں جو مجھے بھلائی اور روحانی اطمینان کی منزل تک پہنچا دے۔
اس نے بت کو آنکھوں سے لگایا ،ہونٹوں سے لگایا ،پھر جیب میں ڈال لیا اور گھوڑے کی لگام کو ہلکا سا جھٹکا دیا گھوڑا چل پڑا لیکن روتاس نے گھوڑے کا رخ بائیں طرف موڑ دیا۔ اس نے بزنطیہ کو ذہن سے نکال پھینکا تھا اس نے کوئی واضح فیصلہ نہیں کیا تھا کہ آخر جائے گا کہاں؟ یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ بزنطیہ نہیں جائے گا اور ہرقل کا سامنا نہیں کرے گا۔
روتاس ہرقل کی جاسوسی کے شعبے کا افسر تھا شام کے چپے چپے سے اور مختلف علاقوں میں رہنے والے لوگوں سے اچھی طرح واقف تھا اسے معلوم تھا کہ وہ جس طرف چل پڑا ہے ادھر عیسائی قبائل رہتے ہیں، سوچ سوچ کر وہ اس فیصلے پر پہنچا کہ کسی قبیلے میں جاپناہ لے گا اور پھر سوچے گا کہ وہ کیا کرے اور کہاں جائے۔
ادھر انتھونیس، یوکلس اور اس کی ماں لیزا کو ساتھ لئے بڑی تیز رفتاری سے چلا جا رہا تھا وہ اتنی دور نکل گئے تھے کہ اب ان کو کوئی خطرہ نہیں رہا تھا پھر بھی وہ لوگ کہیں روک نہیں رہے تھے، حالانکہ رات گہری ہو گئی تھی اور ان کے گھوڑے ان کے بوجھ تلے دن بھر دوڑتے اور چلتے رہے تھے ، راستے میں لیزا نے انتھونیس سے تین چار مرتبہ پوچھا تھا کہ آخر وہ انہیں کہاں لے جا رہا ہے؟ انتھونیس نے ہر بار یہی کہا تھا کہ آگے چل کر بتاؤں گا۔
رات گزرتی چلی جا رہی تھی اور اب وہ ہرے بھرے علاقے میں پہنچ گئے تھے ،جہاں سرسبز اونچی نیچی ٹیکریاں زیادہ تھیں، چاند اوپر آ رہا تھا ایک موزوں جگہ دیکھ کر انتھونیس رک گیا ،اور گھوڑے سے اترا اس نے بتایا کہ رات گزارنے کے لئے یہ جگہ ٹھیک ہے۔
انہوں نے چوتھے گھوڑے سے کھانے پینے کا سامان نکالا اور کھانے بیٹھ گئے، ہم اپنی جانیں تو بچا لائے ہیں کھانے کے بعد لیزا نے کہا۔۔۔ اب ہمیں کہیں روپوش ہونا ہے تم جانتے ہو انتھونیس! میں کسریٰ خاندان کی شہزادی تھی یہاں میں ہر قل کے یہاں کسی اور مقصد کے لئے آئی تھی لیکن ہو کچھ اور گیا ۔
میں وہاں بھی نہیں جا سکتی مجھے عام لوگوں جیسی زندگی گزارنی پڑے گی۔
اور مجھے آپ اپنے ساتھ کیوں لائے ہیں یوکلس نے کہا۔۔۔ میں تو قسطنطین کو قتل کرنا چاہتا تھا میں شاید اپنے باپ ہرقل کو بھی قتل کر دیتا آپ مجھے یہیں سے واپس جانے دیں، وہ بزدلوں اور فریب کاروں کی طرح مجھے قتل کروا رہے تھے میں ان کے سامنے جاکر اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قتل کروں گا۔
اب کوئی ایسی ضرورت نہیں۔۔۔ انتھونیس نے کہا۔۔۔ اب ایک اور بادشاہی وجود میں آئے گی میں اس کی بنیاد رکھوں گا فارس اور روم کی بادشاہیت ختم ہو چکی ہے، اب زمین پر ایک اور بادشاہی نمودار ہوگی جو ایران کی نہیں ہوگی نہ روم کی یہ صلیب اعظم کی بادشاہی ہو گی جو ساری دنیا پر پھیلے گی، ہرقل کے پاس صرف مصر رہ گیا ہے یا ارض روم میں اسے مصر سے نکال کر ارض روم میں محدود کر دوں گا۔
انتھونیس! ۔۔۔لیزا نے کہا۔۔۔ تم بہت تھک گئے ہو ، تم پر یہ خواب بھی غالب ہے کہ پکڑے گئے تو ہرقل قتل کروا دے گا سو جاؤ آرام کرو دماغ ٹھکانے آجائے گا تم بیداری میں خواب دیکھ رہے ہو۔
نہیں لیزا! ۔۔۔۔انتھونیس نے کہا ۔۔۔میں تھکا ہوا بھی نہیں اور میں ڈرا ہوا بھی نہیں ،اتنا بیدار میں کبھی نہیں ہوا تھا جتنا اب، تم خواب کی بات کرتی ہوں میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں کس حقیقت پر یہ ارادے باندھ رہا ہوں ،الجزیرہ کے یہ عیسائی قبائل میری فوج ہوگی کیا تم نے دیکھا نہیں تھا کہ یہ لوگ کس طرح تیس ہزار کا لشکر ہرقل کے پاس لے کر پہنچ گئے تھے ،اگر ہرقل ان پر اپنا اعتماد بٹھا دیتا تو تیس ہزار کا ایک اور لشکر آ سکتا تھا ،لیکن ہرقل پر اور ہرقل کی فوج پر ان قبائلیوں کو بھروسہ نہیں تھا یہ لوگ عیسائی ہیں اور مسلمانوں کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں ، میں انہیں جانتا ہوں یہ لوگ اسلام کے آگے دیوار کھڑی کرنے کو بے تاب ہیں میں انہیں اعتماد میں لونگا ،لیکن اب ہماری منزل کیا ہوگی؟ ۔۔۔لیزا نے پوچھا۔۔۔ کیا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔۔۔ انتھونیس نے کہا ۔۔۔اس ملک کے شام پر ہماری حکومت رہی ہے میں سارے ملک میں گھوما پھرا ہوں الجزیرہ میں تو میں بہت عرصہ رہا ہوں اور مختلف قبائل کے سرداروں کو صرف جانتا ہی نہیں بلکہ بعض کے ساتھ میرے دوستانہ تعلقات ہیں، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ان میں کون کون سے قبیلے زیادہ طاقتور ہیں، میں ان میں سے کسی ایک کے پاس جا رہا ہوں مجھے پوری امید ہے کہ یہ لوگ مجھے مایوس نہیں کریں گے ، یہ تو خوش ہونگے کہ انھیں ایک تجربے کار جرنیل مل گیا ہے، میں انہیں ایک فوج کی صورت میں منظم کر لوں گا اور ان کی تربیت اسی طرح کروں گا جس طرح ہم اپنی فوج کی کرتے تھے۔
انتھونیس نے جن دو عیسائی قبیلوں کی طرف اشارہ کیا تھا ان میں ایک تھا بنی ربیعہ ، دوسرا تھا بنی تنوع، تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دو قبیلے انفرادی قوت اور مالی لحاظ سے بہت طاقتور تھے، اور دیگر چھوٹے بڑے قبائل انہیں اپنا لیڈر مانتے تھے، امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو جب یہ اطلاع ملی تھی کہ الجزیرہ کے عیسائی قبائل تیس ہزار لشکر کی صورت میں ہرقل کے پاس بزنطیہ میں پہنچ گئے ہیں، تو امیر المومنین نے پہلی بات کہی تھی کہ میں جانتا ہوں ان قبائل کی قیادت بنی ربیعہ اور بنی تنوخ کر رہے ہیں۔
امیرالمومنین نے ایک حکم یہ دیا تھا کہ ان دونوں قبیلوں کی بستیوں کو تباہ وبرباد کر دو تاکہ یہ آئندہ سر اٹھانے کے قابل نہ رہیں۔ کیونکہ یہ دو قبیلے جنگ و جدل کے شوقین بھی تھے اور یہ ان کی روایت بھی تھی۔
ایسا طاقتور تیسرا قبیلہ بنو ایاد تھا یہ قبیلہ بھی طاقتور تھا لیکن اس قبیلے میں کچھ ایسے دانشمند بھی تھے کہ وہ حالات کے ساتھ سمجھوتا کر لیتے تھے اور اپنے مفاد کی خاطر جھک بھی جایا کرتے تھے۔
یہ تینوں قبیلے حلب کے گردونواح میں رہتے تھے اور دوسرے قبائل الجزیرہ میں پھیلے ہوئے تھے۔
یہ تھی ایک اور طاقت جو مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والی تھی، یہ اس لئے خطرناک ہیں کہ اس کا کسی کو علم ہی نہیں تھا اور ایسی خفیہ کے اسے جاسوس بھی ابھرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے تھے۔
تم جرنیل ہو انتھونیس! یقیناً مجھ سے زیادہ جانتے اور سمجھتے ہو ۔۔۔لیزا نے کہا۔۔۔ لیکن میں بھی کچھ جانتی ہوں جن مسلمانوں کا مقابلہ اتنی طاقتور فوج نہیں کر سکی ان کے مقابلے میں یہ غیر تربیت یافتہ قبائل کیسے لڑیں گے، یہ لوگ بغاوت کر سکتے ہیں اور ہرقل نے انہیں مسلمانوں کے خلاف بغاوت کرنے کے لئے کہا بھی تھا۔
میں جرنیل ہوں لیزا !۔۔۔انتھونیس نے کہا ۔۔۔میں فوجوں کی خوبیاں اور خامیاں سمجھتا ہوں مسلمانوں نے ملک شام فتح تو کر لیا ہے لیکن وہ اس قدر تھک چکے ہیں کہ یہاں سے آگے بڑھے تو ان کا دم خم ختم ہوجائے گا ،ان کے مقابلے میں قبائل تازہ دم ہیں ،ابھی تک وہ کہیں بھی نہیں لڑے ذاتی بہادری اور لڑنے کا جذبہ کافی نہیں ہوتا یہ اہلیت اور صلاحیت ان قبائلیوں میں ہے، انہیں ایک جرنیل کی ضرورت ہے اور میں ان کی یہ ضرورت پوری کرو نگا
_____________________________________________
رومی جرنیل انتھونیس نے غلط نہیں کہا تھا کہ مسلمان تھک چکے ہیں لیکن مسلمانوں کے امیرالمومنین ،سپہ سالار، اور دیگر سالار دماغی طور پر زندہ و بیدار اور تروتازہ تھے، وہ دشمن کی طرف سے بے خبر ہو کر آرام کرنے بیٹھ نہیں گئے تھے یا مال غنیمت لوٹنے میں نہیں لگ گئے تھے، امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جب جابیہ سے مدینہ کو واپس چلے تھے تو یہ حکم آگے بھیج کر چلے تھے کہ جن سالاروں کو مختلف علاقے دیے گئے ہیں ان علاقوں کی بستیوں پر اور چھوٹی بڑی قلعہ بندیوں پر حملے شروع کردیں۔
یہ علاقے الجزیرہ کے عیسائی قبائل کے تھے، امیرالمومنین نے سوچا تھا کہ ان قبائل کو ذرا سا بھی دم لینے دیا تو یہ متحد ہو کر ایک لشکر بن جائیں گے، ایک بار تو رومیوں کے پاس جاکر بھی واپس آگئے تھے لیکن رومی انہیں ایک بار پھر اپنے مفاد کے لئے استعمال کرسکتے تھے۔
یہ تمام علاقے مسلمانوں نے فتح کرلئے تھے لیکن کچھ چھوٹے بڑے ٹیلے اور بستیاں ایسی تھی جہاں مجاہدین کی نفری بہت ہی کم تھی، وہ اس لئے کہ ابھی زیادہ سے زیادہ نفری کی ضرورت حمص کے میدان جنگ میں تھی ،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض علاقوں میں عیسائی قبائل نے بغاوت کردی اور مسلمانوں کا قبضہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
پہلی بغاوت کی اطلاع ایک قلعہ بند شہر رقہ سے آئی، وہاں مجاہدین کی نفری بہت ہی تھوڑی تھی زیادہ نفری کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی تھی، یہ مجاہدین دراصل انتظامیہ کے اہلکار تھے جنہیں وہاں جزیہ اور دیگر محصولات وصول کرنے کے لئے رکھا گیا تھا۔
وہاں کے لوگوں نے جزیہ اور محصولات دینے سے انکار کردیا اور ان مسلمان اہلکاروں کو ایک جگہ بند کرکے بے بس کردیا۔
معلوم نہیں وہ کوئی مجاہد تھا جو کسی طرح ان عیسائیوں سے بچ کر نکل آیا ، یا ان چند ایک عیسائیوں میں سے کوئی تھا جیسے ان مسلمانوں نے اپنا جاسوس بنا لیا تھا، ان میں سے کسی نے وہاں سے نکل کر پیچھے اطلاع دی کہ رقہ میں بغاوت ہو گئی ہے ۔
یہ علاقہ ایک سالار سہیل بن عدی کی ذمہ داری میں تھا انہیں اطلاع ملی تو اپنے لشکر کے ساتھ فوراً رقہ کی طرف کوچ کر گئے۔
رقہ پہنچے تو دیکھا کہ یہ تو اچھا خاصا مضبوط قلعہ ہے جس کے تمام دروازے بند ہوچکے ہیں۔ عیسائی دیواروں کے اوپر کھڑے مسلمانوں کو للکار رہے تھے ان کے پاس کمان تھی جن میں تیر ڈال کر وہ دفاع کے لئے تیار تھے ،بعض کے ہاتھوں میں پھینکنے والی چھوٹی برچھی تھی قلعے کا دفاع مضبوط نظر آ رہا تھا۔
سالار سہیل بن عدی نے اعلان کروایا کہ فوراً ہتھیار ڈال دو ،اور قلعے کے دروازے کھول دو، اگر ہم نے لڑکے قلعہ فتح کیا تو سب کو غلام بناکر عرب بھیج دیا جائے گا، اس اعلان میں یہ بھی کہا گیا کہ جنہوں نے ہرقل جیسی طاقتور شاہی فوج کو مار بھگایا ہے ان کے سامنے تم لوگ ایک دن بھی نہیں ٹھہر سکو گے، دروازے کھول کر اطاعت قبول کر لو تو تمہارے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو ہم لوگ ہر مفتوحہ جگہ کے لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں ،تمہارے جان و مال اور عزت کی حفاظت ہم کریں گے۔
ہمت ھے تو آگے بڑھو اور دروازہ خود کھول لو۔
رومی اس لیے بھاگ گئے ہیں کہ یہ علاقہ ان کا نہیں ہمارا ہے۔ یہ علاقہ تمہارا بھی نہیں ہم تمہیں بھی یہاں سے بھگا دیں گے مسلمانوں کے جواب میں ایسی ہی للکار سنائی دی اور عیسائی قہقہے لگانے لگے انہیں اپنی طاقت پر بھروسہ تھا ۔
معلوم ہوا کہ تین چار قبیلے اس قلعے میں اکٹھا ہو گئے تھے، انہیں معلوم نہیں تھا کہ قلعے کو کوئی فوج ہی بچا سکتی ہے، جسے قلعہ بند ہو کر لڑنے کی تربیت دی گئی ہو ،اور یہ فوج تجربہ اور مہارت رکھتی ہو، قلعے کی دیواریں اور دروازے اندر والوں کو کچھ ہی وقت کے لئے بچا سکتے ہیں۔
سالار سہیل بن عدی نے اپنے تیر اندازوں کو آگے کیا اور دیوار کے تھوڑے سے حصے پر بڑی تیز تیر اندازی کا حکم دیا، تیر اندازوں نے تیروں کی بوچھاڑ پھینکنی شروع کر دی لیکن دیوار کے اوپر والے تیر اندازوں نے جب تیر پھینکی تو ان کے سامنے ٹھہر نا محال ہو گیا تیروں کے ساتھ برچھیاں بھی آنے لگی۔
یہ کم عقل اور اناڑی ہیں۔۔۔ سالار سہیل نے کہا ۔۔۔برچھیاں ضائع کر رہے ہیں برچھیاں اکٹھی کرلو یہ ہمارے کام آئیں گی۔
ان تیروں کے سائے میں سالار سہیل نے اپنے کچھ جانبازوں کو پہلو کے ایک دروازے کی طرف اس مقصد کے لیے دوڑایا کہ وہ دروازہ توڑ دیں، یہ جانباز کلہاڑیوں سے مسلح تھے، لیکن دیوار پر کھڑے تیر اندازوں نے اپنے تیروں کا رخ اس طرف کردیا جس سے یہ دروازے تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہوسکے، تیر اپنے جسموں میں لے کر واپس آئے اور کچھ تیروں کی زد میں آنے سے پہلے ہی پیچھے آ گئے۔
سالار سہیل نے قلعے کا ایک چکر لگایا، وہ اب دیکھ رہے تھے کہ دیوار کہیں سے کمزور نظر آئے تو دیوار توڑی جائے، مجاہدوں نے کہا کہ دیوار مضبوط ہی سہی وہ کسی نہ کسی جگہ سے اسے توڑ لیں گے قلعے توڑنے اور سر کرنے میں مسلمان خصوصی مہارت رکھتے تھے ،تاریخ بتاتی ہے کہ اس مہارت کی اصل حقیقت یہ تھی کہ مسلمانوں میں جذبہ تھا ،انکا لڑنے کا اصول یہ تھا فتح یا شہادت۔
یہ تفصیلات خاصی طویل ہے کہ سالار سہیل بن عدی نے قلعی توڑنے کیلئے کیسے کیسے اقدامات کیے اور مجاہدین نے کس طرح جان ہتھیلی پر رکھ کر ہر اقدام کامیاب کرنے کی کوشش کی، کوشش تو کوئی بھی کامیاب نہ ہوئی لیکن دشمن پر دھاک بیٹھ گئی اور دیواروں کے اندر کے لوگوں پر خوف و ہراس طاری ہونے لگا۔
تاریخ نویس ابن کثیر اور بلاذری لکھتے ہیں کہ ابھی سات آٹھ دن ہی گزرے ہوں گے کہ قلعے کے اندر سے اعلان ہوا کہ وہ لوگ صلح کرنا چاہتے ہیں اس لئے لڑائی ملتوی کی جائے ،اور جو جہاں ہے وہیں رہے سالار سہیل بن عدی نے عارضی طور پر جنگ بندی کر دی۔
ان دونوں تاریخ نویس نے اس جنگ بندی کا پس منظر یوں بیان کیا ہے کہ جب ان عیسائی قبیلوں نے دیکھا کہ مسلمان غیر معمولی تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں تو وہ جان گئے کہ یہ قلعہ سر کرکے ہی رہیں گے، اور پھر ان کی کوئی شرط قبول نہیں کریں گے ،قبائل کے سرداروں نے سر جوڑے اور ایک معمر دانشور نے انہیں صحیح صورتحال سے آگاہ کیا اور کہا کہ اس پر غور کریں۔
تم جنگجو بھی ہو سکتے ہو، بہادر بھی ،اس بزرگ دانشور نے کہا۔۔۔ لیکن یہ تو سوچو کہ تم کس کی لڑائی لڑ رہے ہو یہ عرب عجم اور روم کی جنگ ہے ، ہم عربی بھی نہیں ، عجمی بھی نہیں ، اور ہم رومی بھی نہیں ، یہ مسلمان اس جرم کی سزا دے رہے ہیں کہ ہم لوگ رومیوں کی مدد کو چل پڑے تھے، میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ یہ پرائی لڑائی لڑنے نہ جاؤ فائدہ کچھ نہیں ہوگا اور تباہی ہوگی، آج ہم لوگ تباہی کا حصہ وصول کر رہے ہیں ، میرا مشورہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلو اور مجھے یقین ہے کہ مسلمان تمہیں عزت اور تکریم دیں گے۔
ایک اور سردار نے کہا۔۔۔ کہ لڑنا ہے تو تمام قبائل اکٹھا ہو کر ایک لشکر تیار کرے اور پھر مسلمانوں کو للکارے کہ یہ ہماری زمین ہے یہاں سے چلے جاؤ ورنہ ہم تلواروں کے زور سے تمہیں نکالیں گے۔
سب سردار متفق ہو گئے انھوں نے اسی وقت مسلمان اہلکاروں کو قید سے آزاد کیا اور اپنے پاس بلا کر پوچھا۔۔۔ کہ وہ صلح کا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں اس کا اختیار کونسے سالار کے پاس ہے کیا یہی سالار صلح کرلے گا جس نے محاصرہ کر رکھا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں نے انہیں بتایا کہ الجزیرہ کا علاقہ تین سالاروں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ان کا سپہ سالار عیاض بن غنم ہے جو اس وقت واسط میں ہوگا صرف اسے صلح کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
ان عیسائی قبائل کے سرداروں نے اپنے دو نمائندے ان مسلمانوں کے ساتھ قلعے کے باہر بھیج دیا اور مسلمانوں سے کہا کہ انہیں اپنے سالار تک پہنچا دے یہ سب سالار سہیل بن عدی کے پاس آئے اور مدعا بیان کیا ،سالار سہیل نے انہیں واسط بھیج دیا اور سپہ سالار عیاض بن غنم نے صلح کی شرائط تسلیم کرکے سہیل بن عدی کو صلح کی اجازت دے دی۔ اس طرح یہ محاصرہ اٹھا لیا گیا اور قلعے میں جو قبیلے موجود تھے انہوں نے مسلمانوں کی اطاعت قبول کرلی اور جزیہ بھی ادا کرنے لگے۔
صرف علامہ شبلی نعمانی ایک تاریخ نویس ہیں جنہوں نے لکھا ہے کہ ہرقل شام سے پسپا ہوکر ارض روم میں مرج الابیاض کے مقام پر جا پہنچا، اور اس نے وہیں قیام کیا تھا آج یہ شہر دنیا کے نقشے میں موجود نہیں ، وہاں بھی ہرقل کی جو جائے رہائش تھی وہ شاہی محل سے کم نہ تھی شاہی لوازمات بھی موجود تھے، شراب بھی تھی، اور شراب پیلانے والی بھی تھی، اور حسین و جمیل کنیز حاضری میں موجود رہنے والی بھی تھی، عورتوں کا حرم بھی ساتھ تھا جس میں یہ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ بیوی کون اور داشتہ کون ہے۔
ہرقل اپنے خاص کمرے میں سر جھکائے ہوئے ٹہل رہا تھا اس کے چہرے پر تذبذب اور احتجاج تھا، قسطنطین الگ بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا، اس کی تو جیسے جرات ہی نہیں ہو رہی تھی کہ باپ کے ساتھ کوئی بات کرے وہ باپ کی جذباتی کیفیت اور مزاج کے عتاب سے واقف تھا ،ہرقل ٹہلتے ٹہلتے رک گیا اور اس نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا۔
صرف انتھونیس ہی غدار نہیں تھا ۔۔۔ہرقل نے کہا ۔۔۔میری اپنی بیوی لیزا اور بیٹا یوکلس بھی مجھے دھوکہ دے گئے ہیں، وہ یقیناً اکٹھے گئے ہیں میرا خیال ہے کہ لیزا کو پتہ چل گیا تھا کہ ہم اس کے بیٹے کو قتل کروا رہے ہیں۔
محترم باپ! ۔۔۔۔قسطنطین نے کہا ۔۔۔میں انہیں غدار ہی کہوں گا ۔
میں پوری فوج کو غدار کہتا ہوں۔۔۔۔ ہرقل نے کہا۔۔۔ میں نے ابھی کوئی ایسا فیصلہ کیا تو نہیں لیکن ہو سکتا ہے میں کسی وقت یہ فیصلہ دے دوں کہ جو کماندار بچ کر نکل آئے ہیں انہیں قتل کر دیا جائے ،ان بدبختوں نے اپنے اوپر مسلمانوں کی دہشت طاری کرلی ہے ، میں اب نئ فوج بناؤں گا اور بہت جلد واپس آکر شام پر حملہ کروں گا، ہرقل کوئی ایسا معمولی نام نہیں تھا جو تاریخ سے مٹ جائے گا آنے والی نسلیں ہرقل کو ایک آسمانی طاقت کی طور پر یاد رکھیں گی۔
اتنے میں دربان نے آ کر اطلاع دی کہ جرنیل انتھونیس کی بیوی اپنے دو بچوں کے ساتھ آئی ہے اور وہ شاہ ہرقل سے ملنا چاہتی ہے۔ قسطنطین چونک کر اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے ہرقل کی طرف دیکھا کہ وہ اس عورت کو اندر آنے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟ ۔۔۔ہرقل کچھ دیر سرجھکائے سوچتا رہا پھر اس نے سر سے ہلکا سا اشارہ کیا کہ اسے اندر بھیج دو، حیثیت کے لحاظ سے وہ کوئی عام سی حیثیت کی عورت نہیں تھی ایک نامور جرنیل کی بیوی تھی۔
وہ ہرقل کے سامنے آئی تو ہرقل نے اس سے پوچھا کہ وہ کیوں آئی ہے؟
اور پھر پوچھا کہ اسے معلوم ہے یا نہیں کہ اس کا خاوند کہاں ہے؟
یہی تو میں شہنشاہ معظم سے پوچھنے آئی ہوں۔۔۔۔ اس عورت نے کہا ۔۔۔میں پوچھ پوچھ کر یقین کر چکی ہوں کہ انتھونیس مارا گیا تھا یا زخمی ہو گیا تھا؟
لیکن ہر کسی سے یہی جواب ملا کہ وہ زخمی بھی نہیں ہوا اور مارا بھی نہیں گیا۔
وہ جنگ ختم ہونے سے پہلے ہی کہیں بھاگ گیا تھا ۔۔۔ہرقل نے کہا۔۔۔ اگر وہ مجھے مل جاتا تو تمہیں اس کی لاش مل جاتی لیکن وہ لاپتہ ہے ، تم میرے پاس کیا لینے آئی ہو؟
پناہ اور سہارا ڈھونڈنے۔۔۔ انتھونیس جرنیل کی بیوی نے کہا۔۔۔ میرے ان معصوم بچوں کو دیکھیں ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں رہا۔
اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔۔۔ ہرقل نے کہا ۔۔۔یہ اپنے باپ کے جرم کی سزا بھگت رہے ہیں۔
لیکن شہنشاہ معظم !۔۔۔اس عورت نے پوچھا۔۔۔ مجھے کس جرم کی سزا مل رہی ہے میں نے تو اپنے خاوند سے یہ نہیں کہا تھا۔
میرے خزانے سے کسی غدار کی بیوی اور اس کے بچوں کی پرورش نہیں ہوسکتی ۔۔۔ہرقل نے شاہانہ انداز سے کہا ۔۔۔جاؤ کسی اور سے شادی کر لو اور بچوں کو سہارا مل جائے گا۔
آنتونیس کی بیوی نے منت سماجت شروع کردی کہ اسے یوں دھتکارا نہ جائے، اس کے خاوند کی آخری فوج میں اتنی زیادہ خدمت بھی تو ہے۔
اس پر رحم کرنے کے بجائے اسے ڈانٹ ڈپٹ شروع کردی ہرقلل چپ ہوتا تو قسطنطین انتھونیس کو برا بھلا کرنے لگتا تھا۔
شہنشاہ معظم! ۔۔۔انتھونیس کی بیوی نے کہا۔۔۔ اگر میرا خاوند غدار تھا تو کیا یہ میرے لیے بہتر نہیں ہوگا کہ مجھے اور میرے بچوں کو سزا کے طور پر قتل کر دیا جائے، موت سے بہتر کوئی اور پناہ نہیں ہوسکتی۔
میں نے تم پر رحم کیا ہے۔۔۔ ہرقل نے کہا۔۔۔ رحم نہ کرتا تو میں تمھیں جلاد کے حوالے کر چکا ہوتا ، اگر موت کی خواہش ہے تو خود ہی زہر پی لو اور ان بچوں کو بھی پلا دو یہاں سے چلی جاؤ اور پھر کبھی میرے سامنے نہ آنا۔
انتھونیس کی بیوی کے آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے وہ بھیک مانگنے کے انداز سے بات کر رہی تھی ہرقل کی بات سن کر اس کے مرجھائے ہوئے چہرے پر سرخی آگئی ،اور آنکھوں میں جو آنسو تیر رہے تھے وہ آنکھوں نے ہی پی لیے اس کی گردن تن گئی ۔
اے شاہ روم! ۔۔۔اس عورت نے بالکل ہی بدلی ہوئی اور جاندار آواز میں کہا۔۔۔ اب مجھ سے سن لے میرا خاوند کہاں گیا ہے۔ آپکی ملکہ لیزا اسے اپنے ساتھ لے گئی ہے، میں آپ کے بے رحم عتاب سے واقف ہوں، لیکن مجھے اب کسی کا ڈر نہیں میرے خاوند نے اور لیزا نے میری زندگی جہنم بنا رکھی ہے، اور اب آپ مجھے اور میرے بچوں کو سزا دے رہے ہیں۔
مجھے لیزا کی کوئی پرواہ نہیں۔۔۔ ہرقل نے کہا ۔۔۔وہ میرے بیٹے کو بھی ورغلا کر ساتھ لے گئے ہیں۔
شہنشاہ روم !۔۔۔انتھونیس کی بیوی نے جرات مندانہ لہجے میں کہا ۔۔۔یوکلس آپ کا بیٹا تھا ہی نہیں وہ میرے خاوند کا بیٹا ہے ،اس سے پہلے کہ آپ کا عتاب مجھ پر نازل ہو کہ میں ملکہ پر جھوٹا الزام عائد کر رہی ہوں مجھ سے حقیقت سن لیں ۔
لیزا میرے گھر میں آکر میرے خاوند کے ساتھ کئی بار تنہائی میں رہی ہے ، وہ مجھے بڑے قیمتی تحفوں سے خوش رکھنے کی کوشش کرتی رہتی تھی لیکن خاوند کی قیمت تو کوئی بھی نہیں دے سکتا میں نے جب اسے برا بھلا کہا کہ وہ میری زندگی تباہ کر رہی ہے تو اس نے مجھے یہ دھمکی دی کہ وہ شاہ ہرقل کی بیوی ہے اور مجھے قید خانے کی سب سے زیادہ غلیظ کوٹھری میں بند کروا سکتی ہے۔۔۔۔۔ جب یوکلس پیدا ہوا تھا تو لیزا نے مجھ سے کہا تھا کہ اب تو وہ انتھونیس سے دور رہے ہی نہیں سکتی کیونکہ اس نے انتھونیس کا بیٹا پیدا کیا ہے۔
وہ بتاتی تھی کہ آپ نے اسے جوانی میں ہی حرم میں پھینک دیا اور بھول گئے تھے کہ لیزا نام کی بھی آپ کی کوئی بیوی تھی، لیزا نے میرے خاوند کو اپنے جذبات کی تسکین کا ذریعہ بنا لیا تھا ان کے یہ تعلقات ابھی تک چل رہے تھے۔
انتھونیس کی بیوی کو شاید یہ توقع ہو گئی کہ ہرقل اس پر برس پڑے گا اور اسے دھکے دے کر محل سے نکال دے گا لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ ہرقل پر خاموشی طاری ہوگئی اور وہ کچھ دیر اس عورت کو دیکھتا رہا اسے یہ تو معلوم ہی ہو گا کہ بادشاہوں کے ہاں یہی کچھ ہوتا ہے۔
اور جن جواں سال عورتوں کو وہ حرم میں پھینک دیتے ہیں اور انہیں بھول جاتے ہیں وہ اپنی تسکین کا کوئی نہ کوئی خفیہ انتظام کرلیتی ہیں۔
ہرقل کے لیے یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا کہ وہ شدید ردعمل کا اظہار کرتا محل کی ایک عورت اگر کسی کے ساتھ بھاگ گئی تھی تو ہرقل کی نگاہ میں یہ کوئی نقصان نہیں تھا، اس وقت اس کے دماغ پر اتنی بڑی شکست سوار تھی کہ شام جیسا بڑا ملک اس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔
قسطنطین! ہرقل نے کہا۔۔۔ اسے ابھی محل میں مہمان کے طور پر رکھو اور میں اس کی دوسری شادی کا انتظام کرا دوں گا اس وقت تک اس کی پوری دیکھ بھال ہوتی رہے اور یہ کسی چیز کی کمی محسوس نہ کرے۔
انتھونیس، لیزا اور انکا بیٹا یوکلس ایک اور دن کی مسافت طے کرکے رات گزارنے کے لئے ایک اور جگہ رک گئے تھے یہ جگہ بھی سر سبز گھاس سے لدی ہوئی ٹیکریوں میں گھری ہوئی تھی، درختوں کی بہتات تھی اور قریب سے ایک صاف شفاف پانی کی ندی گذرتی تھی ، وہ کھانا کھا چکے تھے، اور یوکلس نوجوانی کی بے فکری کی نیند سو گیا تھا۔ انتھونیس اور لیزا بھی اس کے پاس ہی لیٹے تھے، لیکن دونوں اب اس کے پاس نہیں تھے، رات آدھی گزر گئی تھی اور وہ دونوں کچھ پرے ہٹ کر چھوٹی سی ٹیکری پر بیٹھے ایک دوسرے میں کھو گئے تھے، لیز ایران کے حسن کا ایک نادر نمونہ یا شاہکار تھی یہ الگ بات ہے کہ ہرقل اس سے جلدی اکتا گیا اور اسے حرم میں پھینک دیا تھا ، لیکن ہرقل اب بھی اس کے سامنے اس طرح بات نہیں کرسکتا تھا جس طرح بادشاہ کیا کرتے تھے، ہرقل جیسا جابر اور ظالم بادشاہ لیزا کا سامنا کرنے سے گھبراتا تھا ۔
پہلے یہ بات ہوچکی ہے کہ لیزا انتھونیس کو اپنی تسکین کا ذریعہ بنا لیا تھا لیکن یہ تعلقات ایسی محبت کی صورت اختیار کر گئے جو دلوں میں اتر گئی تھی۔
اپنے بیٹے کو سوتا چھوڑ کر وہ الگ جا بیٹھے، اور بیٹھے بھی اس طرح جیسے دونوں کے جسم ایک ہوگئے ہو لیزا کی عمر ابھی چالیس برس نہیں ہوئی تھی لیکن وہ ابھی تک نوجوان اور حسین تھی انتھونیس اس سے پندرہ سولہ سال بڑا تھا لیکن اس نے اپنی جوانی کو برقرار رکھا ہوا تھا۔
کیا تمہیں اپنی بیوی اور بچے یاد نہیں آتے؟ ۔۔۔لیزا نے انتھونیس سے پوچھا۔۔۔ تم پاس ہوتی ہوں تو مجھے خدا بھی یاد نہیں رہتا۔۔۔ انتھونیس نے جواب دیا ۔۔۔وہ تو ایک بیوی تھی جسے میں نے بیوی کے مقام پر ہی رکھا ہوا تھا ،دل میں ابھی کسی کی محبت پیدا نہیں ہوئی تھی میرا دل شاید تمہارا منتظر تھا اور تم آگئی۔
کیا تم مجھے شاہانہ زندگی دے سکو گے؟ ۔۔۔لیزا نے بڑے ہی جذباتی لہجے میں پوچھا۔۔۔ اور کہا۔۔۔ تمہیں دلی محبت کی ضرورت تھی اور میں نے تمہاری یہ جذباتی ضرورت پوری کر دی اب میں تمہیں یاد دلارہی ہوں کہ میں کس طرح ایران کے شاہی خاندان سے آئی تھی اور ہرقل کے شاہی محل میں اس عمر تک پہنچی ڈرتی ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم یوں ہی جنگلوں میں بھٹکتے پھرے ،اور یہیں کہیں زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔
میں جس بادشاہی کی بنیاد رکھنے جا رہا ہوں اس کی پہلی ملکہ عالیہ تم ہو گئی انتھونیس نے کہا۔
انتھونیس حیوانیت کے غلبے میں آگیا تھا۔ دوسرے ہی لمحے وہ ایسے مخمور اور مدہوش ہو گئے جیسے انھیں احساس ہی نہ رہا ہو کہ وہ کسی شاہانہ کمرے میں نرم اور گداز پلنگ پر ہیں، یا جنگل کی ایک ٹیکری پر، لیزا ٹیکری کی سختی میں پلنگ کی نرمی اور ملائمت محسوس کر رہی تھی۔
چاند کچھ اوپر آ گیا تھا نمناک جنگل کی چاندنی بڑی صاف اور شفاف تھی وہ دونوں اٹھے انتھونیس نے اتنا ہی کہا تھا کہ اب سو جانا چاہیئے کہ لیزا نے پیچھے دیکھا تو لرز اٹھی یوکلس ننگی تلوار ہاتھ میں لئے بڑی تیزی سے ٹیکری چڑھتا آ رہا تھا۔
میرے پیچھے ہو جاؤ انتھونیس! ۔۔۔لیزا نے کہا۔۔۔ اور یوکلس کے راستے میں کھڑی ہو گئی۔
انتھونیس نے پیچھے دیکھا تو اسے یوکلس نظر آیا اس کے ہاتھ میں تلوار اور اس کے اوپر آنے کی تیزی سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کیوں اور کس کی ارادے سے آیا ہے لیزا کے کہنے کے مطابق وہ لیزا کے پیچھے ہو گیا۔
تم اس شیطان کو مجھ سے نہیں بچا سکوں گی ماں! ۔۔۔یوکلس نے قریب آکر غضب ناک لہجے میں کہا ۔۔۔ہٹ جاؤ آگے سے میں نے دیکھ لیا ہے یہ تمہیں دھوکے میں اپنے ساتھ اسی مقصد کے لئے لایا تھا میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔
رک جاؤ یوکلس! ۔۔۔لیزا نے گرجدار آواز میں کہا ۔۔۔کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو تمہیں قتل ہونے سے بچا لایا ہے تمہاری خاطر یہ اپنے بچوں کو چھوڑ آیا ہے۔
یوکلس پھنکار رہا تھا اور ماں بازو پھیلائے اسے روک رہی تھی اگر انتھونیس نہتا نہ ہوتا تو یوکلس کا مقابلہ کر کے اس پر قابو پالیتا،
اسے بتا دو لیزا میں کون ہوں۔۔۔ انتھونیس نے کہا ۔۔۔اسے حقیقت بتا دو ۔۔۔یوکلس انتھونیس کو للکار رہا تھا کہ وہ ایک عورت کو ڈھال نہ بنائے اور مردوں کی طرح سامنے آئے۔
کیا تم اپنے باپ کو قتل کرو گے۔۔۔ لیزا نے کہا۔
ہاں آگے سے ہٹ جاؤ ماں۔۔۔ یوکلس نے غصے سے لرزتی آواز میں کہا۔۔۔ اسے قتل کرکے میں واپس جاؤں گا اور اپنے باپ ہرقل کو بھی قتل کروں گا۔
ہرقل تمہارا باپ نہیں ہے؟ ۔۔۔لیزا نے کہا وہ میرا صرف خاوند تھا تمہارا باپ یہ ہے انتھونیس تم اس کے بیٹے ہو۔
یوکلس کا جوش اور عتاب کچھ ٹھنڈا پڑ گیا اس کی تلوار جھک گئی ۔
آؤ یوکلس! ۔۔۔لیزا نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے تلوار لے کر کہا۔۔۔ میں تمہیں یہ بھی بتا دو کہ تم انتھونیس کے بیٹے ہو ،اور ہر قل اس حقیقت سے واقف نہیں وہ تمہیں اپنا بیٹا سمجھتا ہے ہم دونوں کسی وجہ سے تمہیں اپنے ساتھ لائے ہیں۔
انتھونیس اور لیزا نے یوکلس کو اپنے پاس بٹھا لیا ۔
لیزا نے یوکلس کو بتایا کہ اسے کسریٰ ایران نے کس طرح اور کس مقصد کے لئے ہرقل کے پاس ایک دھوکے کے ذریعے بھیجا تھا اور ہرقل نے اسے بیوی بنا کر اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ۔لیزا یوکلس کو یہ ساری بات ایسے جذباتی انداز میں سنائی کہ یوکلس پوری طرح متاثر ہو گیا۔
ان لوگوں کے یہاں اخلاق اور کردار نام کی تو کوئی چیز ہی نہیں تھی ان کا کلچر ہی کچھ ایسا تھا جس میں حلال اور حرام کا حیا اور بے حیائی کا تصور کچھ اور تھا۔
میں تمہیں شہزادہ بنا کر دم لونگا انتھونیس نے یوکلس سے کہا ۔۔۔ہرقل کو قتل نہیں کریں گے اس کی بادشاہی پر قبضہ کرکے اسے بھکاری بنا دیں گے اور وہ بازاروں میں بھیک مانگتا پھرے گا۔
یوکلس نے اپنی ماں اور انتھونیس کو اس طرح دیکھ لیا تھا کہ اس کی آنکھ کھل گئی اور اس نے دیکھا دونوں وہاں نہیں تھے، انہیں دیکھنے کے لیے وہ اٹھا ایک طرف ٹیکری پر وہ اسے نظر آ گئے ، چاند ان کی دوسری طرف سے اوپر آ رہا تھا، یوکلس کو وہ اس طرح دکھائی دیے جیسے وہ دو سائے ہوں، وہ دونوں ایسی حالت میں تھے کہ قریب جا کر دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، یوکلس نے تلوار نکالی اور ان کی طرف غیظ و غضب سے چل پڑا یہ تو وہ جانتا ہی تھا کہ اس کی ماں کس قدر خوبصورت عورت ہے یہی ایک خیال اس کے ذہن میں اٹک گیا کہ انتھونیس اس کی ماں کو ورغلا کر لایا ہے، اور اب ماں سے خراج وصول کر رہا ہے، وہ اپنی ماں کو اس کے ہاتھوں میں مجبور سمجھ رہا تھا۔
آخر ہم جا کہاں رہے ہیں ؟۔۔۔۔یوکلس نے پوچھا۔۔۔ ایک ہی دن کی مسافت رہ گئی ہے۔ انہوں نے جواب دیا ۔۔۔کل رات ہم کسی جنگل یا صحرا میں نہیں ہونگے بلکہ کسی قبائلی سردار کے یہاں آرام دہ بستروں میں سوئے ہوئے ہونگے۔
انتھونیس کی سوچ اور اس کے ارادے بے بنیاد ہو سکتے تھے
جاری ہے
*پاک ترک میڈیا فورم*
RELATED POSTS
Tags:
CURRENT AFFAIRS