EPISODE 13 URDU NOVEL HISTORICAL REAL ISLAMIC STORIES&EVENTS

OR NEEL BEHTA RAHA ISLAMIC HISTORY NOVEL ALTAMASH LATEST EPISODE

EPISODE 13 AUR NEEL BEHTA RAHA BY A FAMOUS MUSLIM WRITER &NOVEL NIGAR

*اورنیل بہتارہا*EPISODE 13 NEW EPISODE

AUR NEEL BEHTA RAHA,OR NEEL BEHTA RAHA *اورنیل بہتارہا* EPISODE 13



(aur neel behta raha,'amr ibn al-'as,battle of yarmouk,decline of byzantine-roman empire,decline of sassanid-persian empire,battle of nikiou,ghost story,ghost,family story,haunting,family,short documentary,haunted,paranormal,grief,atlantic selects,premiere,mother and son,the atlantic

*اورنیل بہتارہا*



*قسط نمبر/13
مرتب: *محمدساجداشرفی*
_____________________________________________


انتھونیس، اور یوکلس ایک مکان میں رہتے اور روتاس الگ مکان میں رہتا تھا، یہ نہایت اچھے صاف ستھرے اور اونچے درجے کے مکان تھے، روتاس دو چار دنوں کے وقفے سے لیزا کے گھر آیا کرتا تھا اور اس کا یہاں آنا محض رسمی ہوتا تھا، جب سے حلب محاصرے میں آیا تھا روتاس نے لیزا کے ہاں جانا بہت ہی کم کر دیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ محاصرے کے سلسلے میں اسے دن رات بھاگ دوڑ کرنی پڑتی تھی۔
یہ انتھونیس کا گھر تھا لیکن وہ بھی اب اس گھر میں اس طرح آتا تھا جیسے روتاس کی طرح رسمی طور پر آگیا ہو، انتھونیس اور روتاس کا تو یہ عالم تھا کہ الگ الگ بھاگتے دوڑتے رہتے تھے، اب بھی دیوار پر ہے تو یوں لگتا تھا جیسے کود کر نیچے آگئے ہوں، دیکھنے والوں کو شک ہوتا تھا کہ وہ ہر وقت ہر جگہ موجود رہتے ہیں، انتھونیس کبھی بہت دیر سے گھر جاتا اور پلنگ پر گرتا اور اس کی آنکھ لگ جاتی تھی کچھ ہی دیر بعد وہ ہڑبڑا کر جاگ اٹھتا اور باہر کو بھاگ جاتا ، وہ گھر ہوتا تو بھی لگتا تھا گھر سے غیر حاضر ہے۔
یہ دونوں آخر کمانڈر تھے انھیں احساس تھا کہ جن کی وہ قیادت کر رہے ہیں وہ لڑنا تو جانتے ہیں لیکن منظم ہو کر لڑنے کا انہیں کوئی تجربہ نہیں وہ ان لوگوں کو ہدایت دیتے رہتے اور خود دیوار پر گھوم پھر کر دیکھتے رہتے کہ مسلمان دروازوں کے قریب نہ آ جائیں اس کے ساتھ ہی وہ جوان آدمی کو قلعے سے نکال کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے بھی تیار کر رہے تھے، مختصر یہ کہ دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ وہ محاصرے کے دوران لوگوں کو ٹریننگ بھی دے رہے تھے۔
ایک رات انتھونیس گھر آیا اور آتے ہی لیٹ گیا وہ بہت تھکا ہوا تھا لیزہ اسے دیکھتی رہی کہ وہ کوئی بات کرے گا ۔
ذرا سا سستا کر انتھونیس  نے محاصرے کی بات شروع کردی، لیزا کے چہرے پر نمایاں طور پر اکتاہٹ کا تاثر آگیا اور صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ انتھونیس کی باتوں میں ذرا سی بھی دلچسپی نہیں لے رہی، کیا تم میرے ساتھ کوئی اور بات نہیں کرنا چاہتے لیزا نے ایسے لہجے میں کہا جسے انتھونیس بڑی اچھی طرح سمجھتا تھا۔
لیزا! ۔۔۔۔انتھونیس نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔ کیا تم یہ بات کہہ رہی ہوں میں تو یہ توقع رکھتا ہوں کہ میں گھر آؤ تو تم پہلی بات مجھ سے یہ پوچھو کہ محاصرہ کب ٹوٹے گا؟ اور اسے توڑنے کی کوئی صورت پیدا کی جا رہی ہے یا نہیں؟ تم تو یوں بات کر رہی ہو جیسے حالات معمول کے مطابق ہیں مجھے تو کوئی اور بات سوچتی ہی نہیں۔
لیزا کچھ زیادہ ہی اکتاہٹ کا اظہار کر رہی تھی، انتھونیس نے اسے غور سے دیکھا تو لیزا کی آنکھوں میں اسے کوئی اور ہی خمار چڑھا ہوا نظر آیا وہ اس خمار سے اور لیزا کے چہرے پر آئے ہوئے تاثرات سے بڑی اچھی طرح واقف تھا۔ ان دونوں کے تعلقات میاں بیوی والے تھے یہ کوئی عشق و محبت والا معاملہ نہیں تھا کہ یہ دونوں ایک دوسرے پر مرتے ہوں۔
لیزا !۔۔۔انتھونیس نے کہا۔۔۔ ہوش میں آؤ اور حقیقت کو دیکھو یہ وقت  رومان لڑانے کا نہیں حالات کو دیکھو اور سوچو کہ ہم یہ جنگ ہار گئے تو ہمارے لئے کوئی پناہ نہیں ہوگی ہم یہاں سے بھاگ کر جائیں گے کہاں ، بنو تغلب جیسے طاقتور قبیلے نے چند اور قبیلوں کے ساتھ مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی ہے تمہیں تو میری طرح گھر سے باہر ہونا چاہیے۔کیا تم خود نہیں سوچ سکتی کہ ان قبائلیوں کی عورتوں کو تم لڑنے کے لئے تیار کر سکتی ہو۔
انتھونیس ،لیزا کو پوری طرح نہیں سمجھ سکا تھا جس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی تھی کہ لیزا نے اس کے ساتھ جو دوستی لگائی تھی وہ صرف جسم کے ساتھ تعلق رکھتی تھی، اور لیزا نے اسے جسمانی تشنگی کی تسکین کیلئے اسے اپنا دوست بنایا تھا۔
لیزا ہر قل کے حرم کی ایک عورت تھی ۔ صرف اسے  یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ ہرقل کی بیوی تھی، اور دوسرا اعزاز یہ کہ وہ ایران شاہی خاندان میں سے تھی ۔
وہ جانتی تھی کہ شاہی محلات میں خوبصورت عورت کا استعمال کیا ہوتا ہے ، اس نے ایران کے محلات میں بھی دیکھ لیا تھا اور روم کے بادشاہ کے ہاں بھی۔
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ لیزا نوجوان اور غیر معمولی طور پر حسین و جمیل لڑکی تھی، اسے خون کے رشتوں نے ایک طلسماتی دھوکہ بنا کر ہرقل کے یہاں بھیجا تھا کہ اس پر اپنے حسن کا طلسم طاری کرکے اسے زہر دے کر وہاں سے بھاگ نکلنے کی کوشش کریں۔ ہرقل کے پاس پہنچی تو اس کی بیوی بن گئی وہ بڑی ہی زہریلی ناگن بن کر ہرقل کے پاس آئی تھی لیکن ہرقل کو دیکھ کر اور اس کے جذبات سے متاثر ہوکر وہ ناگن سے وہ انسان بن گئی تھی جس میں جذبات ہوتے ہیں اور دل و جگر بیدار ہو کر اپنا آپ اپنی پسند کے انسان کے حوالے کر دیتے ہیں ۔لیکن ہرقل نے تھوڑے ہی عرصے میں اس کے یہ جذبات کچل ڈالے اور اسے اپنے حرم میں پھینک دیا جو عورتوں کا گودام تھا۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ لیزا کی ذات میں صرف حیوانی جذبات رہ گئے وہ جوان تھی اور اسے ایک جوان ساتھی کی ضرورت تھی۔
اس جذباتی کیفیت میں وہ ایسا آتش فشاں پہاڑ بن گئی تھی جس کا منہ بند تھا اور لاوا باہر نکلنے کو تڑپ رہا تھا ۔
انتھونیس کی جگہ اسے کوئی اور اپنے قریب آتا نظر آجاتا تو وہ اسی کے ہو کے رہ جاتی، اتفاق ایسا ہوا کہ انتھونیس اس کے قریب آ گیا اور لیزا نے لپک کر اسے اپنے ساتھ چپکا لیا اور جب دیکھا کہ اس شخص کے ساتھ ملاقاتیں آسانی ہوجاتی ہیں تو فرض کر لیا کہ یہی اس کا خاوند ہے، اب تو اس کے بیٹے یو کلیس نے بھی قبول کر لیا تھا کہ اس کا باپ ہرقل نہیں انتھونیس ہے۔
بادشاہوں کی بیویاں اور ان کے حرموں کی عورتوں میں قومی جذبہ نام کو بھی نہیں ہوا کرتا تھا، نہ انہیں کسی ملک اور وطن سے محبت ہوتی تھی، وہ تو اس صورتحال کو بھی قبول کیے رکھتی تھی کہ کوئی اور بادشاہ اس ملک پر حملہ کرے گا اور انھیں بھی اپنے قبضے میں لے کر اپنی تفریح کا ذریعہ بنا لے گا، یا کوئی جرنیل یا کوئی شہزادہ انہیں اپنے ساتھ لے جائے گا انہیں فتح و شکست کے ساتھ ذرا سی بھی دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔
لیزا بھی ایسی ہی عورتوں میں سے ایک تھی، اس وقت اسے حلب کی نہیں انتھونیس کی شدید ضرورت تھی اس نے یہ بھی محسوس نہ کیا کہ انتھونیس بھی ہرقل کی طرح اس سے اکتا سکتا ہے اس نے انتھونیس سے اپنے جذبات کی حرارت پیدا کرنے کی کوشش کی مگر انتھونیس  جذباتی سطح سے بہت اوپر چلا گیا تھا، اس نے لیزا کو دھتکارا تو نہیں لیکن یہ بھی قبول نہ کیا کہ اس کے پاس بیٹھے، 
تم اپنی بادشاہی قائم کرنے کی فکر میں ہوں۔۔۔ لیزا نے یاس انگیز لہجے میں کہا۔۔۔ یہ بادشاہی نہ جانے کب قائم ہوگی لیکن تم ابھی سے شاہ ہرقل بن گئے ہو۔ تم میرے ساتھ اب پہلے کی طرح بیٹھ کر بات ہی نہیں کرتے۔
انتھونیس بہت ہی تھکا ہوا تھا ،تھکاوٹ کے علاوہ اس پر محاصرہ اور حلب کی فتح و شکست سوار تھی اور یہی ایک سوچ اس کے ذہن پر غالب رہتی تھی کہ محاصرے کو کس طرح توڑے اور مسلمانوں کو یہاں سے بھگا دے ۔
 اس نے لیزا کی طرف کوئی توجہ نہ دی جس کی وہ طلبگار تھی، وہ کبھی جذباتی اور کبھی شاقی لہجے میں کچھ نہ کچھ بولتی رہی، اور انتھونیس گہری نیند سو گیا ۔
لیزا نے اسے سوتے ہوئے دیکھا تو اسے یوں لگا جیسے وہ مر گیا ہو وہ اس کے چہرے پر نظریں گاڑے دیکھتی رہی اور اسے یوں دھچکا لگا جیسے ایک چشمہ تھا جو خشک ہو گیا ہو۔
اس کا اپنا بیٹا یوکلس جسے دیکھ دیکھ کر وہ جیتی تھی اور جس پر وہ اپنی جان نچھاور کیے رکھتی تھی ،اس کی طرف پہلی سی توجہ نہیں دیتا تھا ۔وہ تو دو دو اور کبھی تین تین دن اور رات میں گھر سے غائب رہتا تھا۔ کبھی ذرا سی دیر کے لئے کے پاس آجاتا اور اسے حوصلہ اور تسلی دے کر بھاگم  بھاگ چلا جاتا ۔
انتھونیس تو کہتا تھا کہ وہ یسوع مسیح کی سلطنت قائم کرے گا، لیکن یوکلیس کو اس سلطنت کے ساتھ یہ دلچسپی زیادہ تھی کہ وہ ھرقل اور قسطنطین کو قتل کرے گا، لیزا نے کبھی نہ سوچا کہ اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ چپکا لیں تا کہ وہ لڑائی میں مارے جانے سے محفوظ رہے، وہ انتھونیس ہی کی ضرورت محسوس کرتی تھی لیکن انتھونیس اس کے ہاتھ سے نکل ہی گیا تھا۔

اگلی سب لیزا کی آنکھ اس وقت کھلی جب سورج کی کرنیں قلعےے کی دیواروں کے اوپر سے اندر آ گئی تھی، لیزا اٹھی اور تمام کمروں میں گھوم پھر آئی وہاں انتھونیس بھی نہیں تھا ،یوکلس بھی نہیں تھا، یہ تو اس کا روزمرہ کا معمول تھا، لیکن اس دن اس نے اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی تنہا محسوس کیا۔ اس کی ملازمہ نے اس کے آگے ناشتہ رکھا لیزا ناشتے پر اور ملازمہ فرش پر بیٹھ گئی۔
خدا آپ کو اور زیادہ عزت اور وقار دے مالکن۔۔۔ ملازمہ نے کہا۔۔۔ کچھ ہم غریبوں کو بھی بتا دیں کیا یہ محاصرہ اٹھ جائے گا؟ ۔۔۔
آپ کو تو معلوم ہی ہوگا شہر میں آناج کم بڑھتا جا رہا ہے پانی کی تو کمی نہیں لیکن صرف پانی پر تو زندہ نہیں رہا جاسکتا۔
گھبراؤ نہیں لیزا نے کہا ۔۔۔محاصرہ اٹھ جائے گا ،نہ اٹھا تو باہر نکل کر مسلمانوں کے لشکر پر حملہ کریں گے۔
آپ کو گرجے میں کبھی نہیں دیکھا۔۔۔ ملازمہ نے کہا۔۔۔ گرجے میں ہر روز اپنی فتح کی اور مسلمانوں کی شکست کی دعائیں ہوتی ہیں۔ پادری کہتے ہیں کہ گناہوں سے توبہ کرو یہ بہت بڑی آفت ہے جو ہم پر گناہوں کی وجہ سے نازل ہوئی ہے ہم غریبوں نے کیا گناہ کیے ہے؟ 
لیزا نے ملازمہ کی بات پوری نہ ہونے دی اور ہنس پڑی ،ملازمہ چپ ہو گئی اور لیزا کے منہ کی طرف دیکھتی رہی ،ملازمہ نے بتایا کہ شہر کے کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ کیا جائے لیکن بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ دشمنی ختم کر دی جائے اور ان کے لیے دروازے کھول دیے جائیں وہ کہتے ہیں کہ مسلمان بڑے اچھے لوگ ہیں جس شہر کو فتح کرتے ہیں اس شہر کے لوگوں کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کرتے ہیں۔
لیزا کی ہنسی ایک مسکراہٹ میں سمٹ آئی تھی ،اس نے ملازمہ کی اس بات کو ذرا سی بھی اہمیت نہ دی اور اس طرح ہستی رہی جیسے وہ کوئی بڑی ہی دلچسپ بات سنا رہی ہو ،اس نے جلدی جلدی ناشتہ کیا اور اٹھ کر باہر نکل گئی۔
محاصرے کا شوروغل شہر کے اندر بھی سنائی دے رہا تھا محاصرے کی ایک اور رات گزر گئی تھی ،شہر کے جو لوگ شہر کے دفاع کے لئے دیوار پر کھڑے تھے وہ نعرے لگا رہے تھے اور مسلمانوں کو للکار بھی رہے تھے ان کا حوصلہ اور جوش و خروش بظاہر تروتازہ معلوم ہوتا تھا۔
 لیزا آہستہ آہستہ چلتی گئے وہ کسی خاص جگہ پہنچنے کے ارادے سے نہیں نکلی تھی شہر کی عورتیں اسے جانتی تھیں، وہ اس کے جرنیل کی بیوی تھی ایک جگہ عورتوں نے  اسے گھیر لیا ،وہ کچھ گھبرائی ہوئی تھی ،اس سے پوچھنے لگیں کہ محاصرہ کب تک رہے گا؟ ۔۔۔اور کیا یہ شہر لمبے عرصے کیلئے محاصرے میں ہی رہے گا؟ 
لیزا اپنے آپ میں آ گئی جیسے بیدار ہو گئی ہو اس نے عورتوں کو بہت تسلیاں دیں اور ان کا حوصلہ اس طرح مضبوط کیا کہ انھیں کہا کہ وہ بھی لڑنے کے لئے تیار ہو جائیں اس نے یہ بھی کہا کہ محاصرے کو طویل نہیں ہونے دیا جائے گا اور جلد ہی باہر نکال کر مسلمانوں پر بڑا ہی زور دار حملہ کیا جائے گا۔
اس نے جرنیل کی بیوی کی حیثیت سے ایسی جوشیلی باتیں کی کہ عورتوں کی گھبراہٹ ختم ہو گئی اور کئی عورتوں نے کہا کہ وہ مردوں کی طرح لڑیں گی اور مسلمانوں کا محاصرہ کامیاب نہیں ہونے دینگے۔
 لیزا کے اپنے ذہن میں بھی کچھ تبدیلی آگئی اور وہ آگے کو چل پڑی۔
کچھ دیر بعد وہ دیوار پر پہنچ گئے دیوار اتنی چوڑی تھی کہ اس پر چار پانچ آدمی پہلو بہ پہلو آسانی سے چل پھر سکتے تھے لیکن اس وقت دیوار پر چلنے کے لئے راستہ ہی نہیں ملتا تھا کیونکہ شہر کے تقریبا تمام لوگ دیوار پر کھڑے تھے اور ادھر ادھر آجا بھی رہے تھے۔
 لیزا اس ہجوم میں سے راستہ بناتی چلی جا رہی تھی اسے جاننے والے آدمی رک کر سلام کرتے تھے اس کی گردن اس خیال سے تن گئی اور سر اونچا ہو گیا کہ وہ اس شہر کے سب سے بڑے جرنیل کی بیوی ہے۔
 وہاں تو انتھونیس اکیلا ہی جرنیل تھا اور ایک غیر منظم لشکر کا کمانڈر بنا ہوا تھا۔
لیزا نے اپنے کندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس کیا روک کر پیچھے دیکھا وہ روتاس تھا ،لیزا کا چہرہ چمک اٹھا اس نے روتاس سے پوچھا کہ صورتحال کیا ہے؟ ۔۔۔اور کیا محاصرہ جلدی توڑا جاسکے گا یا شہر کو خطرہ ہے؟ 
محاصرے کو تو ہم نے روکا ہوا ہے روتاس نے جواب دیا۔۔۔ لیکن یہ کہنا کہ کوئی خطرہ نہیں اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنے والی بات ہے۔ مسلمانوں کا سپہ سالار خالد بن ولید ہے آپ کو شاید معلوم نہ ہو کہ میں شاہ ہرقل کے جاسوسی کے محکمے کا عہدہ دار ہوں میں بھیس بدل کر مسلمانوں کے خیمہ گاہوں میں گیا ہوں اور خالد بن ولید کو قریب سے دیکھا ہے ،شام سے ہماری فوج کے پاؤں اسی سالار نے اکھاڑے تھے اور اکھاڑے بھی ایسے کہ کہیں جم نہ سکے۔
یہ نام میں نے بھی سنا ہے لیزا نے کہا ۔۔۔ہرقل کو یہ کہتے سنا تھا کہ خالد بن ولید کے قتل کا انتظام ہوجائے تو میں مسلمانوں کو صرف شام ہی سے نہ نکالوں بلکہ عرب سے بھی بھگا کر  سمندر میں ڈبودوں ۔قاتلوں کو اس تک پہنچانا ممکن نظر نہیں آتا۔
آپ کو پوری طرح معلوم نہیں۔۔۔ روتاس نے کہا ۔۔۔دو مرتبہ خالد بن ولید کو قتل کرنے کے لئے چار چار آدمی بھیجے گئے تھے وہ مسلمانوں کے لباس میں گئے تھے اور عربی عربوں کی طرف بول سکتے تھے، اور مجھے یہ بھی یقین تھا کہ مسلمانوں کے لشکر میں سے کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ کوئی اور ہیں، لیکن وہ سب وہاں جاکر خود قتل ہوگئے دونوں جماعتوں کی کہانی الگ الگ ہے لیکن اس وقت ہمارے سامنے مسئلہ اس محاصرے کا ہے اور اس کا سالار خالد بن ولید ہے جو قلعے توڑنے اور سر کرنے کی خصوصی مہارت رکھتا ہے۔ روتاس بولتے بولتے چپ ہو گیا اور باہر کی طرف دیکھ کر بولا وہ دیکھیں آئیں میں آپ کو خالدبن والید کھاتا ہوں۔
روتاس لیزا کو دیوار کی برجی کے قریب لے گیا دور دو گھوڑسوار آگے آگے اور آٹھ دس گھوڑسوار ان کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔
اگلے دو سواروں میں جو دائیں طرف ہے وہ خالد بن ولید ہے روتاس نے کہا۔۔۔ بائیں طرف عیاض ہے میں اس کا پورا نام نہیں جانتا یہ بھی سالار ہے آپ اتنی دور سے خالد بن ولید کا چہرہ اچھی طرح نہیں دیکھ سکتیں قریب سے دیکھیں تو دشمن ہونے کے باوجود آپ بے ساختہ کہہ اٹھے گی کہ اس چہرے پر خدا نے اپنا تاثر سجا دیا ہے جو دیکھنے والوں کو متاثر کرتا ہے، اس سالار کے چہرے پر اس کی روح کی چمک دمک بھی نظر آتی ہے، یہ ان جرنیلوں اور سالاروں میں سے ہے جو صرف فتح کرنا جانتے ہیں اور شکست سے واقف ہی نہیں ہوتے۔
تو کیا خالد بن ولید حلب کو فتح کرلے گا ؟۔۔۔لیزا نے پوچھا۔
میں آپ کا حوصلہ نہیں توڑنا چاہتا ۔۔۔روتاس نے کہا ۔۔۔ہم جان لڑا دیں گے لیکن حلب کو بچانے کے لئے ہمیں اس شہر کی آدھی آبادی قربان کرنی پڑے گی موقع ملتے ہی ہم باہر نکل کر حملہ کریں گے۔
روتاس بولتا رہا وہ لیزا کو بتا رہا تھا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، لیزا کو صورت حال سے تفصیلی آگاہ کر رہا تھا، اور لیزا نے باہر سے نظر ہٹا کر اس کے چہرے پر روک لی اور اسے نظر بھر کر دیکھا پھر اسے سر سے پاؤں تک دیکھا اور اس کے ہونٹوں پر ایسا تبسم آ گیا جس میں کچھ تشنگی سی تھی، لیزا نے بغیر کسی سوچ اور بغیر ارادے کے روتاس کا بازو پکڑا اور اسے اس چھوٹی سی برجی سے ہٹا لائی، روتاس اس کے ساتھ پالتو جانور کی طرح چل پڑا۔

انتھونیس اور یوکلس کی طرح روتاس پر بھی ہیجانی کیفیت طاری رہتی تھی وہ بھی شہر کے لوگوں کے کمانڈروں میں سے تھا اس کی عمر تیس چالیس سال کے درمیان تھی اور وہ خوبرو آدمی تھا لیزا سے تین چار سال ہی چھوٹا تھا وہ شاہی خاندان کا فرد تھا، اور ذمہ دار عہدے پر بھی فائز تھا۔
 اس نوجوانی کی مناسبت سے روتاس لیزا کا احترام کرتا تھا، اور احترام کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لیزا ہرقل کی بیوی تھی۔
وہ دیکھئے روتاس نے روک کر باہر محاصرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ایک سوار دستہ جا رہا ہے ہو سکتا ہے اس کی جگہ تازہ دم دستہ آجائے، لیکن مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے مسلمان محاصرہ آہستہ آہستہ اٹھا رہے ہیں۔
کم و بیش ایک ہزار گھوڑسوار خالد بن ولید کے حکم سے محاصرے سے نکل گئے اور ایک طرف کو جا رہے تھے، روتاس اور لیزا دیکھتے رہے اور سواروں کا وہ دستہ دور ہی دور ہٹتا گیا اور پہاڑی کے اندر چلا گیا۔
لیزا نے روتاس کی طرف دیکھا اس کے چہرے پر مسرت کے آثار نظر آئے اور وہ کچھ زیادہ ہی خوبرو نظر آنے لگا ،روتاس کے ساتھ لیزا کی کوئی بے تکلفی نہیں تھی۔
روتاس محاصرے کے دوران بہت دنوں کے وقفے سے انتھونیس کے گھر جایا کرتا تھا، لیکن اس وقت جب انتھونیس گھر پر ہوتا تھا۔
 وہ لیزا سے نہیں انتھونی سے ملنے جاتا تھا۔
میں اس تنہائی سے اکتا ہو گئی ہو روتاس! ۔۔۔لیزا نے دوستانہ بے تکلفی سے کہا ۔۔۔شہر کی ان عورتوں کے ساتھ تو میں گھل مل سکتی ہی نہیں تم جانتے ہو میں کس ماحول سے آئی ہوں، انتھونیس دن رات باہر رہتا ہے اور جب آتا ہے تو تھکا ماندہ پلنگ پر گرتا اور سو جاتا ہے میں تو آج تنگ آکر دیوار پر آئی تھی کتنا اچھا ہوا تم مل گئے کیا تم پسند کرو گے کہ میں تمہارے ساتھ تمہارے گھر چلوں۔
روتاس بھلا کیسے انکار کرسکتا تھا اس نے کہا کہ وہ تو گھر ہی جا رہا تھا رات بھر وہ باہر رہا تھا ،اس نے لیزا کو ساتھ لیا اور اسے اپنے گھر لے گیا۔
روتاس نے لیزا کو احترام سے بٹھایا اور خود الگ ہٹ کر بیٹھنے لگا لیکن لیزا نے اس کا بازو پکڑ لیا اور کھینچ کر اسے اپنے پاس بٹھا لیا، یہی نہیں بلکہ اس کے کمر میں ہاتھ ڈال دیا اور سخت کر دیا پھر بے تکلفی کا ایک ایسا مظاہرہ کیا جو وہ انتھونیس کے ساتھ ہی کرسکتی اور کیا کرتی تھی ۔
روتاس کو ایسی توقع نہیں تھی کہ وہ اس کے ساتھ اتنا زیادہ بے تکلف ہو جائے گی، لیزا نے بڑے ہی جذباتی لہجے میں ایک آدھ بات بھی کہہ دی روتاس بچہ تو نہ تھا اتنا واضح اشارہ سمجھ گیا اور جب اس نے لیزا کے چہرے پر نظر ڈالی تو وہاں کچھ اور ہی تاثر تھا۔
میرے دل میں آپ کا احترام ہے ۔۔۔روتاس نے کہا۔۔۔ بے شک آپ شاہی خاندان سے بھاگ آئی ہیں لیکن میں خود اسی خاندان کا فرد ہوں اس لئے آپ کا احترام کرتا ہوں، اگر میں یہ ذہن سے اتار دوں کہ آپ شاہی خاندان کی آبرو ہیں تو میں یہ نہیں بھول سکتا کہ آپ میرے جرنیل اور کمانڈر انتھونیس کی دوست ہیں۔
میں انتھونیس کی ملکیت نہیں ہوں روتاس! ۔۔۔لیزا نے کہا۔۔۔ اس وقت تم ہی میرے دوست ہو اور تم ہی میرے ساتھی ہو، مجھ سے دور ہٹنے کی کوشش نہ کرنا۔
 اس وقت میں ہرقل کی بیوی بھی نہیں اور انتھونیس کی دوست بھی نہیں، اس وقت میں صرف لیزا ہوں اور مجھے احترام سے بلانے کے بجائے پیار سے لیزا کہو۔
پھر یہ بھی سوچ لو لیزا! ۔۔۔روتاس نے کہا۔۔۔ پادری ہر روز فتح کی دعا کرتا ہے اور ایک ہی بات دوہراتا آتا چلا جارہا ہے کہ ہم پر بیٹھے بٹھائے بہت بڑی آفت آن پڑی ہے جس سے نجات کا طریقہ صرف یہ ہے کہ گناہوں سے توبہ کرو، اور کوئی گناہ نہ ہو۔
میں سراپا گناہ ہوں! ۔۔۔لیزا نے کہا۔۔۔ ایران کے شاہی خاندان سے ایک بڑا ھی حسین گناہ بن کر ہرقل کے شاہی خاندان میں آئی تھی، لیکن اس گناہ میں ناکام رہی اور جب شاہ ہرقل نے میرے ساتھ شادی کر کے تھوڑے ہی عرصے بعد حرم میں پھینک دیا تو میں نے ایک اور گناہ کیا۔
لیزا نے جذبات سے مغلوب ہو کر روتاس کو تفصیل سے سنایا کہ اس نے انتھونیس کو کس طرح اپنی تسکین کا ذریعہ بنایا تھا ،اور کس طرح اس کے ساتھ یہ دوستی در پردہ نبھاتی رہی اس نے اس راز سے بھی پردہ اٹھا دیا کہ یوکلسس ہرقلل کا نہیں انتھونیس کا بیٹا ہے۔
تم غلط سمجھ رہے ہو۔۔۔ لیزا نے کہا ۔۔۔تم یہ سمجھتے رہے کہ میں بھی انتھونیس کے اس عزم میں شامل ہوں کہ ہم شام میں یسوع مسیح کی سلطنت قائم کریں گے، انتھونیس بھی یہی سمجھتا ہے کہ میرا بھی یہی عزم ہے ،لیکن روتاس میں تمہیں سچ بتاتی ہوں کہ میں اپنے اکلوتے بیٹے یوکلس کو ہرقل اور اس کے بیٹے قسطنطین کے ہاتھوں سے قتل ہونے سے بچانے کے لئے انتھونیس کے ساتھ آ گئی۔
لیزا نے روتاس کو یہ بھی بتا دیا کہ ہرقل اور قسطنطین یوکلسس کو قتل کروانا چاہتے تھے لیکن انتھونیس نے بروقت دیکھ لیا اور قاتلوں کو قتل کر ڈالا ،لیزا نے یہ واقعہ بھی روتاس کو تفصیل سے سنایا اور کہا کہ انتھونیس بھی اس وجہ سے بھاگ آیا ہے کہ یوکلس اس کا اپنا بیٹا ہے، اور دوسرا یہ کہ ہرقل انتھونیس کو بھی قتل کروا دے گا۔
میں یہ ساری بات سن کر حیران نہیں ہوا۔۔۔ روتاس نے کہا۔۔۔ یہ سب کچھ شاہی خاندانوں میں ہوتا ہی رہتا ہے ایک کی بیوی دوسرے کی داشتہ ہوتی ہے ،بادشاہ کے بیٹے بادشاہ کی دوسری بیویوں یا داشتاوں کے ساتھ تعلقات بنا لیتے ہیں میں تو یہاں تک کہوں گا کہ بادشاہوں کی شکست کی درپردہ وجہ یہی ہے، کیا تم نے کبھی سوچا بھی تھا کہ ایران اور روم جیسی زبردست طاقت عرب کے عام اور انتہائی معمولی لوگوں سے شکست کھا جائیگی شکست بھی ایسی کہ بادشاہ بھاگتے اور پناہ ڈھونڈتے پھریں گے، مسلمان ہمارے دشمن ہی سہی لیکن میں جاسوسی کیلئے مختلف بہروپ دھار کے مسلمانوں کی آبادیوں میں بھی رہا اور ان کے خیموں میں بھی گھوما پھرا تھا ان کے یہاں عیش و عشرت کا کوئی تصور ہی نہیں ان کے کردار پہاڑی چشمے سے پھوٹنے والے پانی کی طرح شفاف ہوتے ہیں ،سطح پر دیکھو تو چشمے جس طرح نظر آتے ہیں مسلمان بالکل ایسے ہی ہیں، یہ ہے ان کی اصل طاقت جس کے سامنے کوئی جنگی طاقت نہیں ٹھہر سکتی ،میرا مشورہ مان لو لیزا ، اب بھی تم اس گناہ سے بچ سکتی ہو، انتھونیس کو  لے کر گرجے میں جاؤ اور اس کے ساتھ باقاعدہ شادی کر لو۔
تم میری بات کیوں نہیں سمجھتے روتاس! ۔۔۔لیزا نے اکتاہٹ سے کہا۔۔۔ مجھے انتھونیس کے ساتھ وہ محبت ہے ہی نہیں جو تم سمجھ رہے ہو، ہرقل سے محبت ہو گئی تھی لیکن اس نے میرے ساتھ جو سلوک کیا اس سے میں سمجھ گئی کہ یہ شخص محبت کے قابل تھا ہی نہیں میں نے اس کے اس جرنیل انتھونیس کے ساتھ دوستی لگا کر اسے دھوکے دیے۔
 میں انسان اور جوان عورت ہوں! ۔۔۔ تمہیں بتایا ہے کہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کو قتل سے بچانے کے لئے اسے ساتھ لے کر انتھونیس کے ساتھ بھاگ آئی۔
اس کے باوجود لیزا! ۔۔۔روتاس نے کہا ۔۔۔ہمیں انتھونیس کے اس عزم کا احترام کرنا چاہیے کہ وہ یسوع مسیح کی سلطنت قائم کرنا چاہتا ہے اس کے ساتھ ہمیں پورا پورا تعاون کرنا چاہیے۔
تم کم عقل انسان ہوں روتاس! ۔۔۔لیزا نے طنزیہ سی مسکراہٹ سے کہا۔۔۔ جاسوسی کے محکمے کے ایک ذمہ دار افسر کو اتنا کم فہم نہیں ہونا چاہیے غور کرو گہرائی میں جاؤ، اور پسپائی اور شکست کا جو تجربہ ہمیں ہوا ہے اس پر غور کرو، انتھونیس ایسا خواب دیکھ رہا ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں ہوا کرتی، ان تھوڑے سے مسلمانوں نے ایران اور روم کے بادشاہوں کو کچل ڈالا ہے انتھونیس ناتجربہ کار قبائیلوں کے بل بوتے پر مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکتا ، یہ بات تم خود سمجھ سکتے ہو ، یہ تو محاصرہ ہے اور ہم قلعے میں محفوظ ہیں ،اس لئے اتنے دن گزر گئے ہیں، اگر یہ کھلے میدان کی لڑائی ہوتی تو سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے مسلمان لڑائی کا فیصلہ اپنے حق میں کرچکے ہوتے۔
 اتنی مایوسی لیزا! ۔۔۔روتاس نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا ۔۔۔تم انتھونیس اور یوکلس کے ساتھ بھی ایسی ہی باتیں کیا کرتی ہو؟ 
نہیں! ۔۔۔لیزا نے کہا ۔۔۔ان کے ساتھ تو میں نے اس مسئلہ پر کبھی بات کی ہی نہیں، ان دونوں کو یقین ہے کہ وہ محاصرہ توڑ کر مسلمانوں کو یہاں سے بھگا دیں گے۔
لیزا روتاس کو کچھ اور قریب کر لیا اور جذباتی سی سرگوشی میں کہا ۔۔۔کیا تم پسند نہیں کرو گے کہ اس وقت ہم اس مسئلہ پر بات نہ کریں، کیا تم ابھی تک مجھے نہیں سمجھے۔
 روتاس بھی آخر جوان آدمی تھا ،اور وہ بھی شاہی خاندان کا تھا، کوئی زاہد اور پارسا تو نہ تھا ،اس پر بھی وہی خمار طاری ہونے لگا جس سے لیزا مخمور تھی ،زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ روتاس اس طرح لیزا کے جذبات کے جال میں آ گیا جیسے مکھی مکڑی کے جالے میں آجاتی ہے۔
لیزا جب وہاں سے رخصت ہونے لگی تو اس کے چہرے پر تعصب کا شائبہ تک نہ تھا بلکہ وہ مطمئن اور مسرور لگتی تھی۔
 یہ بھی سوچا ہے لیزا! ۔۔۔روتاس نے پوچھا۔۔۔ اگر انتھونیس کو ہماری اس دوستی کا پتہ چل گیا تو کیا ہو گا؟ 
 بہت برا ہو گا۔۔۔ لیزا نے ہلکے ہلکے سے لہجے میں جواب دیا ،انتھونیس شاید تمہیں قتل کر دے لیکن ہم اسے پتہ ہی کیوں چلنے دیں گے۔
دونوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لیے ،اور لیزا وہاں سے چل دی۔

محاصرے کی بات یہاں تک پہنچی تھی کہ مجاہدین نے فلیتے والے تین شہر کے اندر پھینکنے شروع کر دیے تھے، لیکن دیواروں کے اوپر سے تیر آبادی کے اندر تک پہنچانا ممکن نہیں تھا ،ایک بلند جگہ مل گئی تھی جس پر چڑھ کر تیر انداز تیر پھینکتے تھے، اور بعض تیرانداز درختوں پر چڑھ گئے اور وہاں سے فلیتے والے تیر اندر پھینکنے لگے لوگوں کے مکان دیوار سے دور تھے اس لئے یہ تیر بے اثر ثابت ہو رہے تھے۔
درختوں پر چڑھ کر تیر پھینکنے والے مجاہدین میں سے ایک نے ایک روز دیوار کے اندر خیمے دیکھ لئے جو دوسری طرف ہے اس طرف دیوار کے قریب نہ کوئی درخت تھا اور نہ کوئی بلند جگہ ،یہ دیکھ لیا گیا کہ خیمے اس طرف کی دیوار تک چلے گئے تھے، پہلے بیان ہوچکا ہے کہ مختلف قبیلوں کے عیسائی پناہ گزینوں کے روپ میں داخل ہوتے رہے تھے اور وہ ہتھیار چھپا کر اپنے ساتھ لے جاتے تھے ان کی تعداد اتنی بڑھ گئی تھی کہ ان کے لئے ایک میدان میں خیمے لگانے پڑے یہ انتظام ان مسلمانوں کا تھا جو شہر کا انتظام اور دیگر سرکاری امور چلاتے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے خیموں کی ایک بستی آباد ہو گئی جن میں قبائلیوں کے پورے پورے کنبے رہائش پذیر ہوگئے۔
خیموں کو دیکھنے والے مجاہد نے یہ بات سالاروں تک پہنچا دی اور انھیں بتایا کہ اس طرف سے اگر تیر پھینکے جائیں تو دیوار کے اوپر سے ہوتے ہوئے یہ تیر خیموں کے اوپر گریں گے۔
خالد بن ولید اور عیاض بن غنم خود اس درخت تک گئے جس پر چڑھ کر اس مجاہد نے خیمے دیکھے تھے ،دونوں سالاروں نے کچھ اور اوپر چڑھ کر خیمے دیکھے، وہاں سے خیموں کے صرف اوپر کے حصے نظر آتے تھے کیونکہ درمیان میں شہر کے مکان حائل تھے۔
خدا کی قسم ابن غنم! ۔۔۔خالد بن ولید نے پرمسرت لہجے میں عیاض بن غنم سے کہا ۔۔۔ہم شہر میں دہشت پھیلا سکتے ہیں اگر ہم شہر میں خوف و ہراس پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو سمجھو ہم نے آدھی فتح حاصل کر لی۔
سپہ سالار عیاض بن غنم نے کہا ۔۔۔اللہ کے فضل و کرم سے آخر فتح ہماری ہوگی۔ شہر میں کوئی فوج نہیں شہریوں کا ہجوم ہے میرے دفاع میں ہی ایک ترکیب آتی ہے کہ ان لوگوں کو یہ دھوکا دیا جائے کہ ہم محاصرہ اٹھا رہے ہیں، لیکن محاصرہ فوراً نہ اٹھایا جائے سواروں کے ایک دو دستے یہاں سے ہٹا دیئے جائیں پھر اپنی سرگرمیاں بھی روک دی جائیں تاکہ شہر کے لوگ یہ سمجھ لے کہ ہم محاصرے کی کامیابی سے مایوس ہو گئے ہیں۔
سالار عیاض بن غنم نے یہ بات درخت سے اتر کر کہی تھی، خالد بن ولید گھوڑے پر سوار ہوتے ہوتے رک گئے اور پاؤں رکاب سے نکال کر اس کی طرف دیکھنے لگے ان کے چہرے پر ایسا تاثر آگیا تھا جیسے انھیں یہ مشورہ اچھا لگا ہو۔
خدا کی قسم ابن غنم! ۔۔۔خالد بن ولید نے عیاض کے کندھے پر ہاتھ مار کر کہا۔۔۔ تم نے مجھے ایک روشنی دکھا دی ہے، آ کہیں بیٹھ کر سوچتے ہیں کہ ہم انہیں یہ دھوکہ کس طرح دے سکتے ہیں۔
خالد بن ولید نے ایک کارروائی یہ کی کے درختوں سے اور بلند جگہ سے تیر اندازوں کو ہٹا لیا اور انہیں اپنے ساتھ لے گئے ،وہ جب شہر کی اس طرف پہنچے جس طرف خیمے تھے تو انہوں نے تیر اندازوں کو بتایا کہ اب وہ فلیتہ والے تیر کس طرح پھینکیں۔
آگ والے ان تیروں کی کمی نہیں تھی، تیر اندازوں کو دیوار سے اتنی دور کر دیا گیا جہاں تک دیوار سے آنے والے تیر ان تک نہیں پہنچ سکتے تھے، فلیتے والے تیر آگئے اور تیر اندازوں نے کمانوں میں ڈال ڈال کر یہ تیر پھینکنے شروع کر دیئے، دو گھوڑ سوار تیر اندازوں نے یہ کارنامہ کر دکھایا کہ کسی بڑے کے حکم کے بغیر گھوڑوں کو ایڑ لگا دی اور دیوار کے قریب جا کر دوڑتے گھوڑوں سے تیر اندر پھینکے شہریوں نے دیوار پر سے ان پر تیروں کی بوچھاڑ ے بھی کی لیکن اللہ نے انہیں محفوظ رکھا انہوں نے گھوڑے کہیں روکے نہیں تھے۔
ان کی دیکھا دیکھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک یا دو گھوڑسوار تیرانداز اپنے گھوڑے دوڑاتے اور دوڑتے گھوڑوں سے اندر تیر پھینک جاتے تھے ۔
دیوار سے جو تیراندازی ہو رہی تھی وہ اور تیز اور شدیدتر ہوگئی ،اس میں سے بچ نکلنا بہت ھی مشکل تھا تین چار گھوڑسوار تیروں کا نشانہ بن گئے تو عیاض بن غنم نے باقی گھوڑ سواروں کو روک دیا کہ وہ اتنا خطرہ مول نہ لیں۔
کسی اور گھوڑسوار تیرانداز کو دیوار کے قریب جانے کی ضرورت ہی رہی کیونکہ دیوار پر جو عیسائی تیر انداز تیر پھینک رہے تھے ان میں سے کسی نے بڑی بلند آواز سے کہا کہ خیموں کو آگ لگ گئی ہے اس کی اس گھبرائی ہوئی پکار کی تصدیق دھوئیں نے کر دی ،جو دیوار کی اوٹ سے اوپر اٹھ آیا تھا اور اوپر ہی اوپر اٹھتا چلا جا رہا تھا، یہ دھواں بڑی تیزی سے پھیلتا اور گھنا ہوتا جا رہا تھا ،ان خیموں میں رہنے والوں کی چیخ وپکار باہر بھی سنائی دینے لگی۔
خیمے بہت ہی زیادہ تھے اور ایک دوسرے کے بالکل قریب قریب لگے ہوئے تھے ایک جلتا ہوا خیمہ دائیں بائیں والے خیمے کو جلا رہا تھا اور آگ بڑی تیزی سے پھیلتی جا رہی تھی ، مؤرخین نے لکھا ہے کہ جلتے ہوئے خیموں میں سے نکلنے والوں میں سے اکثر کے کپڑوں کو آگ لگی ہوئی تھی، کئی ایک تو نکل بھی نہ سکے اور زندہ جل گئے ،دیوار پر جو عیسائی کھڑے تیر اور پرچھیاں پھینک رہے تھے وہ ایسے گھبرائے کہ وہاں سے دوڑ پڑے اور خیموں کی آگ بجھانے کے لئے نیچے اترے ،دیوار کا خاصا حصہ خالی ہو گیا۔ مجاہدین دو رسے لے کر دیوار تک پہنچے اور کماندیں دیوار پر پھینکیں۔ کمندیں بالکل صحیح جگہوں پر پہنچ کر اٹک گئ تو مجاہدین رسوں پر چڑھنے لگے لیکن دائیں اور بائیں سے ان پر تیروں کی بوچھاڑ آنے لگی پیچھے والے بہت سے مجاہدین دوڑتے ہوئے آگے گئے اور دیوار والے تیر اندازوں پر تیر چلانے شروع کردیئے بہت سے عیسائی تیرانداز تیروں کا نشانہ بنے اور دو تین دیوار کے باہر بھی گرے لیکن وہ اپنا کام کر چکے تھے وہ یہ کہ رسوں پر چڑھنے والے مجاہدین کے جسموں میں کئی کئی تیر اتر گئے تھے اور وہ رستوں سے نیچے آ پڑے تھے دلیری اور جذبہ شہادت کا یہ مظاہرہ بھی کامیاب نہ ہوسکا لیکن اس مظاہرے نے مجاہدین میں نئی روح پھونک دی۔ کئی مجاہدین دیوار کی طرف دوڑے کے وہ رسوں سے اوپر چڑھ جائیں گے لیکن ایک تو انہیں سالاروں نے روک دیا ،اور دوسرے یہ کہ اوپر جہاں رسے اٹک گئے تھے وہاں سے قبائلیوں نے ر سے اتار پھینکے۔
شہر کے اندر کا شوروغل بتا رہا تھا کہ جلتے ہوئے خیموں نے اندر کیسی صورتحال پیدا کر دی ہے ۔وہ افراتفری پیدا ہوچکی تھی جو خالد بن ولید پیدا کرنا چاہتے تھے انہوں نے اپنے تیر اندازوں کو پیچھے ہٹا لیا اور جو سوار دیوار کی طرف کچھ آگے بڑھ گئے تھے انھیں بھی واپس بلا لیا۔
رات کے وقت مجاہدین کی ٹولیاں ایک دو دروازوں تک پہنچ جاتی تھیں اور کلہاڑیوں سے دروازے توڑنے کی کوشش کرتی تھیں، لیکن اوپر سے تیر بھی آتے اور پرچھیاں بھی آتی تھیں، دشمن نے اوپر سے ان پر جلتی ہوئی مشعلے بھی پھینکی تھیں جن سے دو تین مجاہد کپڑوں کو آگ لگ جانے سے جھلس گئے تھے۔

*جاری ہے.

OTHER EPISODE




Post a Comment

if you have any doubt please let me know

Previous Post Next Post