دور حاضر کی کربلا تحریر:سبطین عباس ساقی
نعرہ ہی نہیں ایمان بھی ہے آزادی کے متوالوں کا
کشمیر کا ذرہ ذرہ ہے کشمیر میں رہنے والوں کا
قارئین!یقینا عنوان میں کربلا کا لفظ پڑھتے ہی آپ کربلائے معلی کی سرزمین اور واقعہ کربلا یاد کررہے ہوں گے۔وہ سرزمین جسے محسن انسانیت امام عالی مقام نے اپنے خون سے رنگیں کیا۔وہی مقام کہ جہاں اسلام کو زندہ رکھنے کے لیے بے مثال قربانیاں دی گئیں۔ظلمت کے پہاڑ توڑے گئے۔بیٹیوں کے سامنے باپ شہید کیے گئے۔بہنوں کے سامنے بھائی زبح ہوئے۔حضرت علی اصغر جیسے لاڈلے کو ماں نے پیار سے تیار کیا اور بابا قتل گاہ کی جانب لے گئے۔چھ ماہ کے بچے کی پیاس جام شہادت سے بجھائی گئی۔مگر ظالم ظلم کرکے بھی مردہ باد رہا لیکن مظلوم شہید ہوکر بھی زندہ باد ہے۔باطل کو مٹنا تھا وہ مٹ گیا۔
دور حاضر میں دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمان زبح ہورہے ہیں۔مائیں بہنیں ظالموں کے رحم و کرم پر ہیں مگر اج کا مسلمان اس صورتحال پر خاموش ہے۔آشنا ہوتے ہوئے بھی انجان کی اداکاری کررہا ہے۔جنت نظیر وادی یعنی کشمیر کی موجود صورت کربلا سے کم نہیں۔تقسیم ہند نے جہاں مسلمانان ہند کو غلامی سے آزادی دلائی وہیں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کیا۔نجانے کیسی بربریت ہوتی رہی۔مگر عالم اسلام اور دنیا کے کسی بھی "غیرت مند" ملک کو انسانی حقوق کی پاسداری کا خیال نہ آیا۔پھر یوں ہوا کہ اچانک بھارت نے کشمیر پر قبضہ کرلیا۔مگر دنیا چاند پر جانے کے منصوبے بناتی رہی۔کشمیر میں بھارتی فوج کو مسلط کردیا گیا مگر دنیا انٹرنیٹ کی سپیڈ بڑھانے میں مگن رہی۔کشمیر کے نام پر بھارتی سیاسی جماعتیں بر سر اقتدار آتی رہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ماں کی گودیوں سے لعل خلد میں چلے گئے مگر کسی نے ترس نہ کھایا۔کشمیر میں موبائل فون سروس بند ہوتی رہی مگر دنیا خواب خرگوش کے مزے لیتی رہی۔کشمیر میں انٹرنیٹ بند رکھا گیا مگر دنیا خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی۔ذرا سوچیے ہم نے کشمیریوں کو کیا دیا؟؟؟ہم نے ان کے حقوق کی جنگ کہاں تک لڑی؟؟؟ہم ان کے حقوق کی پاسداری کے لیے کہاں تک گئے؟؟؟جواب صرف ایک منٹ کی خاموش،چند کشمیر کے حق میں نعرے اور فلاں وزیر یا مشیر صاحب کا بیان کے سوا کچھ نہیں۔قائداعظم محمد علی جناح،سرسید احمد خان،علامہ اقبال و دیگر آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماوں نے کونسے سن میں چند منٹوں کی خاموشی سے مسلمانوں کی آواز بلند کی؟؟؟ہم افکار اقبال کے پیرو ہیں۔ہم اقبال کے شاہین ہیں مگر کیا ہم نے اقبال کو سمجھا؟؟؟کیا ہم نے قائد کی نصیحتوں پر عمل کیا؟؟؟کیا آج سرسید احمد خان کا منشور زندہ ہے؟؟؟جی نہیں بالکل نہیں۔آج ہم خالی بیانات سے کام چلا رہے ہیں۔یہ جانتے ہوئے کہ ان سے کسی قسم کا کام نہیں چلنے والا۔ہمیں دور حاضر کی کربلا میں امام حسین ع کی سیرت پر عمل کرنا ہوگا۔بیانات ہمیں صرف شہرت دلا سکتے ہیں۔کامیابی حاصل کرنے کے لیے حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی۔
دنیا کو جگانے کے دو ہی طریقے ہیں بذریعہ دوستانہ تعلقات اور بذریعہ سوشل میڈیا و میڈیا۔۔۔قارئین!بھارتی میڈیا جھوٹ کا پابند ہوچکا ہے۔بھارتی چینل دباو کے مارے کچھ بولنے سے پہلے کئی دفعہ سوچتے ہیں۔وہاں غنڈے اور انتہا پسند تنظیمیں راج کرتی ہیں۔وہاں میڈیا کو حکومتی ترجمان بننا پڑتا ہے۔وہاں ظالم و مجرم حکومتی مخالفین ہی دکھانا پڑتے ہیں۔ان چینلز پر نہتے کشمیری دہشتگردوں کے روپ میں دکھائے جاتے ہیں اور بھارتی عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے۔یاد رہے یہ وہی میڈیا ہے جسے ابھی نندن کی گرفتاری جہاز کے مار گرانے کی وجہ سے نہیں بلکہ جہاز میں فنی خرابی کی وجہ سے بتانا پڑتی ہے۔انہیں ابھی نندن جیسے لوگوں کو اپنا ہیرو ماننا پڑتا ہے۔ پاک بھارت سرحد پر کبوتر پکڑنے کا شوقین بھارت اپنے عوام کو حقائق سے کئی سو میل دور رکھتا ہے۔انہیں فقط قیاس آرائی، اپنے منہ میاں مٹھو بننا اور دوسرے کے ہر قسم کے کام پر تنقید کرنا ہی آتا ہے۔
جبکہ ہمارے پاس اس کا حل موجود ہے۔ہمارے پاس سوشل میڈیا جیسی طاقت موجود ہے جہاں ہم کشمیری بہن بھائیوں کی آواز بن سکتے ہیں۔ایک ایسا پلیٹ فارم جہاں ہم یک زبان ہوکر کشمیریوں کے حقوق کی بات کرسکتے ہیں۔ایک ایسا فورم جہاں سے ہم دنیا کی ہمدردی حاصل کرسکتے ہیں۔دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرسکتے ہیں۔دنیا کو بھارتی فوج کی بربریت دکھا سکتے ہیں۔دنیا کے سامنے بھارت کے چہرے سے حجاب اتار سکتے ہیں۔اس کے ناپاک عزائم سے لوگوں کو آگاہ کرسکتے ہیں۔بھارت کو آئینہ دکھا سکتے ہیں۔یاد رہے کہ یہ وہی فورم ہے جہاں سے آپ کی آواز ہر انسان تک پہنچ سکتی ہے۔
پاکستان کو چاہیے کہ تمام دوست ممالک سے دوستی کا رشتہ بڑھانے کی کوشش کرے۔انہیں کشمیر کے موجودہ حالات سے آگاہ کرے اور اس مسئلے کو بسا اوقات اقوام متحدہ کے سامنے رکھتا رہے۔اپنی خارجہ پالیسی کو مضبوط بنائے۔سفارتی تعلقات میں خوشگواری کو خوش آمدید کہے۔بے شک دور حاضر کی کربلا آج کے امام حسین ع،حضرت عباس ع اور حضرت علی اکبر ع کی منتظر ہے۔آج بہنیں اور بیٹیاں محمد بن قاسم کی راہیں تک رہی ہیں۔آج مائیں محمود غزنوی کو یاد کررہی ہیں۔آج کئی کئی ارمان لیے بیوہ خواتین دن رات سسک رہی ہیں۔خدارا خود کو بہرہ نہ کریں۔خدارا ان مظلوموں کی صدا سنیں۔خدارا اپنے لبوں سے خاموشی کا پردہ ہٹائیں۔میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ بے شک کشمیر جنت نظیر وادی ہے۔ایسی وادی میں کہرام اچھا نہیں لگتا۔یہاں ماتم نہیں جچتا۔خدارا تمام ممالک سے اس معاملے پر بات کیجیے۔خدارا کشمیریوں کا ساتھ دیں۔کیونکہ
وہ رب کی عدالت ہے جس میں ہم سب نے اک دن جانا ہے
اے وقت کے حاکم یاد رہے اس خون کا قرض چکانا ہے