A COLUMN BASED ON POWER OF SOCIAL MEDIA

 تذلیل سبطین عباس ساقی 

A COLUMN BASED ON POWER OF SOCIAL MEDIA 

the power of social media essay the power of social media quotes power of social media pdf power of social media examples


قارئین!سوشل میڈیا کی طاقت کا اندازہ لگانا بے حد مشکل ہے۔چند روز قبل ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ریسٹورنٹ مالکان خواتین نے صحیح انگریزی نہ بولنے پر منیجر کی تذلیل کردی۔یہ ارض پاک کے دارالحکومت یعنی اسلام آباد میں موجود ایک ریسٹورنٹ تھا۔جس پر سوشل میڈیا صارفین نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور اس ریسٹورنٹ سے بائیکاٹ کرنے کا ٹرینڈ چلایا گیا۔حالات کو دیکھتے ہوئے ریسٹورنٹ کو اپنے منیجر سے معذرت کرنا پڑی۔ایسے واقعات تو اب معمولی واقعات ثابت ہورہے ہیں کہ انگریزی کے الفاظ غلط بولنے پر کسی کی سرعام تذلیل کی جائے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس ریسٹورنٹ کے بائیکاٹ کا ٹرینڈ بھی انگریزی زبان میں چلایا گیا اور بیشتر "دانشور" حضرات نے اس پر تبصرے بھی انگریزی میں کیے۔

اب ذرا گریبان میں بھی جھانک لیں کہ ریسٹورنٹ مالک خواتین تو چلیں غلامی کی سوچ رکھتی تھیں۔ان کے لیے تو انگریزوں کی زبان یعنی انگریزی سب کچھ تھی۔مگر ہم کیا کررہے ہیں۔ہم دن میں کتنی بار انگریزی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔کیا کوئی شخص نا آشنا ہے کہ ہماری قومی زبان اردو ہے؟کیا اردو انگریزی سے زیادہ مشکل ہے؟کیا خود کو تعلیم یافتہ ثابت کرنے کے لیے انگریزی میں ہم کلام ہونے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہا؟نہیں بالکل نہیں بلکہ ہماری سوچ کے مطابق آج کے اس جدید دور میں اگر ہم انگریزی کے چار الفاظ بول پائیں تو ہم سے اعلی تعلیم یافتہ کوئی نہیں۔انگریزی تو کیا کوئی بھی زبان سیکھیں یہ آپ پر منحصر ہے۔مگر چار الفاظ سیکھ کر دوسروں کی تذلیل کرنا کہاں پہ لکھا ہے۔آپ نے کچھ سیکھا ہے اپنی آسانی کے لیے خدارا اس سے دوسروں کا جینا مشکل نہ کریں۔دنیا میں صرف انگریز ہی کامیاب نہیں ہوئے۔دنیا میں ترقی کی علامت صرف انگریزی ہی نہیں ہے۔

سوچتا ہوں کہ سوشل میڈیا صارفین کے جاندار تبصروں پر خراج تحسین پیش کی جائے یا سر پیٹا جائے۔بے شک انہوں نے منیجر کا بھرپور ساتھ دیا اور ریسٹورنٹ کو گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کردیا لیکن کوئی معزز "سوشل میڈیائی دانشور"یہ بھی بتا دے کہ سوشل میڈیا کے بیشتر ایپلیکشنز(applications) کے بانی کون ہیں؟سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے ہمارے ضمیر کہاں جواب خرگوش کے نشے لے رہے ہوتے ہیں؟غلامی کی سوچ صرف دوسروں میں ہی کیوں نظر آتی ہے؟

صحیح انگریزی نہ بولنے پر تذلیل کے خلاف احتجاج بھی انگریزی زبان میں کیا جارہا ہے۔یہ فعل اچھا ہے یا برا۔۔۔میں اس کا فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں مگر ہاں آپ کو یاد ہو تو پاکستان کی ایک قومی زبان بھی ہے جسے اردو کہا جاتا ہے۔اب تو موبائل میں بھی اردو کی بورڈ دستیاب ہوتا ہے۔آپ سب کچھ اردو میں ہی لکھ سکتے ہیں۔گفت و شنید کے لیے بھی اردو زبان کوئی غیر اخلاقی زبان نہیں ہے۔لیکن آج ہم ایسا کیوں نہیں کرتے؟کیوں ہم اپنی قومی زبان کی تذلیل کررہے ہیں؟کیوں ہم اس کی اہمیت سے غافل ہونے کی کوشش کررہے ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اردو میں کچھ لکھتے اور کہتے ہوئے ہی نہیں بلکہ پڑھتے اور سنتے ہوئے بھی کچھ خاص اچھا محسوس نہیں ہوتا۔ہمارے خیالوں میں اردو بولنے والا شخص کوئی نیم تعلیم یافتہ ہوتا ہے اور کوئی ہمارے بارے میں ایسا تصور کرے اس سے قبل ہی ہم اردو زبان میں کچھ کہنا ترک کر دیتے ہیں۔

آخر کب تک لوگ ہماری اور ہم اردو کی تذلیل جاری رکھیں گے۔آخر کب تک ہمیں اردو زبان میں بات کرنا عجیب محسوس ہوگا۔آج کے فیشن پر تو بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے "کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا"۔اس سے قبل کہ ہم ادھر ادھر دونوں اطراف کو چھوڑ جائیں۔ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔تاکہ اس تذلیل کے سلسلے کا خاتمہ ہوسکے

RELATED POSTS OF SIBTAIN SAQI


Post a Comment

if you have any doubt please let me know

Previous Post Next Post