MrJazsohanisharma

EPISODE 17|OR NEEL BEHTA RAHA| WRITER INAYATULLAH ALTAMASH

AUR NEEL BEHTA RAHA|EPISODE 17| NEW EPISODE OF URDU NOVEL



(altamash,meam alif,sabir hussain rajpoot,mehandi khan,dastaan imaan faroosho ki,shamsher e benayyam,b r b behti rahey gi,firdoos e iblees,sitara jo toot gaya,or neel behta raha,phophi gaam,arif mehmood,commando who salute to the qauid e azam,writer,journaslist,columnist,inayattullah was a writer,mahnama hakkayat,sayyara diajest,who was inayattullah altamsh,urdu poetry books novels zawia css general knowledge,general knowledge,reading,css,issb,ppsc,fpsc,nts,english,urdu,romantic novels)


altamash,meam alif,sabir hussain rajpoot,mehandi khan,dastaan imaan faroosho ki,shamsher e benayyam,b r b behti rahey gi,firdoos e iblees,sitara jo toot gaya,or neel behta raha,phophi gaam,arif mehmood,commando who salute to the qauid e azam,writer,journaslist,columnist,inayattullah was a writer,mahnama hakkayat,sayyara diajest,who was



*اورنیل بہتارہا*


مصنف *عنایت اللہ التمش*



*قسط نمبر/17*



امیرالمومنین کے پاس پورا ریکارڈ تھا کہ کونسا سالار کہاں ہے اور اس کے پاس کتنے دستے ہیں اور اسے ایک محاذ سے فارغ کرکے کی کسی دوسرے محاذ کو بھیجا جاسکتا ہے یا نہیں؟ 
بلاذری نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس قسم کی تفصیلات اور اعداد و شمار اپنے ذہن میں محفوظ رکھتے تھے، اور کبھی اس قسم کی باتیں کرنے لگتے تھے جیسے انہیں وہ محاذ سامنے نظر آ رہا ہو، اور امیرالمومنین اس کا آنکھوں دیکھا حال سنا رہے ہوں، یہیں سے کچھ ایسی روایت نے جنم لیا جن میں کچھ حقیقی ہے اور کچھ بنائی گئی تھی۔
ان روایات سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو دشمن کی شکست اور اپنی فتح کا اس قدر خیال ہوتا تھا کہ ذہنی طور پر ہی نہیں بلکہ روحانی طور پر بھی اپنے آپ کو محاذ پر تصور کرتے تھے ،ایک اور تاریخ نویس طبری نے لکھا ہے کہ جب امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سپہ سالار ابوعبیدہ کے پیغام کے مطابق مختلف احکامات دے رہے تھے اور اقدام کر رہے تھے یوں لگتا تھا جیسے وہ مدینہ میں اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے نہیں بلکہ محاذوں کے قریب کسی ایسی بلندی پر بیٹھے ہوئے ہیں جہاں سے انہیں تمام محاذ نظر آ رہے ہوں اور اس کے مطابق احکام دے رہے ہوں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عراق کو ایران کے محاذ کے سپہ سالار سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے نام ایک اور پیغام لکھوایا ۔
اس میں انہوں نے یہ حکم دیا کہ سالار سہیل بن عدی اور عبداللہ بن غسان کو چار چار ہزار سوار دے کر الجزیرہ میں ان قبائلی علاقوں میں بھیج دیں جنہوں نے ہرقل کو اپنے تیس ہزار آدمی حمص پر حملہ کرنے کیلئے دیئے ہیں۔
 ان دونوں سالاروں کے لئے امیر المومنین نے یہ ذمہ داریاں لکھی کہ سہیل بن عدی کو زقہ بھیجا جائے ،اور عبداللہ بن غسان کو نعین کے علاقے میں روانہ کیا جائے ۔
دونوں سالار ان قبائل کے بستیوں پر حملہ کریں۔
 اگر وہ مقابلہ کریں تو لڑیں، اگر ہتھیار ڈال دے تو انہیں جنگی قیدی بنا لیں، اور اگر وہ زیادہ مقابلہ کریں اور ہتھیار نہ ڈالیں تو ان کی بستیوں کو تباہ کردیا جائے۔
امیرالمومنین نے یہ بھی لکھوایا کہ جب یہ دونوں سالار ان علاقوں سے جو انہیں دیے گئے ہیں باغیوں کو صاف کردیں تو سہل بن عدی حران اور عبداللہ بن غسان رہاء چلے جائیں۔
حضرت عمر نے مزید حکم یوں لکھوایا کہ سالار ولید بن عتبہ الجزیرہ کے ان غیر مسلم عربوں کے علاقے میں جاکر حملہ کریں جہاں دو قبیلے بنو ربیعہ اور بنو تنوخ رہتے ہیں،،،، 
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
ہرقل کا اپنا ایک جاسوسی اور مخبری کا نظام تھا جس سے اس کے ذاتی ہلکے کے افراد بھی ناواقف تھے ،یہ نظام اتنا خفیہ تھا کہ اس کا اپنا بیٹا قسطنطین بھی اس کے وجود سے آگاہ نہیں تھا۔
 دوسرے تیسرے روز ایک مخبر جو فوج کا ہی کوئی عہدیدار ہوتا تھا ہرقل کے پاس جا کر پوری رپورٹ دیتا تھا۔
ایسا ہی ایک جاسوس ہرقل کے ہاں گیا ہرقل کتنا ہی مصروف کیوں نہ ہوتا اور خواہ وہ سویا ہوا ہی ہوتا اس کا حکم تھا کہ ایسا کوئی آدمی یہ کہے کہ وہ ایک ضروری بات بتانے آیا ہے تو اسے فورا اطلاع دی جائے اگر وہ سویا ہوا ہے تو اسے جگا لیا جائے ۔
یہ جاسوس گیا تو ہرقل نے اسے فورا بلا لیا اور اپنے خاص کمرے میں بیٹھا کر دروازہ بند کر لیا۔
تم جانتے ہو میں کیا معلوم کرنا چاہتا ہوں ہرقل نے کہا۔۔۔ بتاؤں کیا خبر لائے ہو۔
ان قبائلیوں پر کبھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔۔۔ جاسوس نے کہا۔۔۔ ان میں بدلی سی پائی جاتی ہے ان کی لڑکی کا واقعہ ادنیٰ سے ادنیٰ قبائل تک پہنچ گیا ہے۔ ان لوگوں کا ایک رد عمل یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ قسطنطین کو وہ اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے اور اس کا نام آتا ہے تو ان لوگوں کے چہروں پر خفگی اور ناپسندیدگی کے تاثر آجاتے ہیں۔
تمہاری اپنی رائے کیا ہے۔۔۔ ہرقل نے پوچھا۔۔۔ اگر میں حکم دے دوں کہ حمص کی طرف پیش قدمی کرکے حمص کو محاصرے میں لے لیا جائے اور کوشش یہ کی جائے کہ محاصرہ طول نہ پکڑے تو کیا یہ قبائلی دل و جان سے لڑیں گے۔
انہوں نے ایک شرط اپنے سامنے رکھ لی ہے ۔جاسوس نے جواب دیا ۔۔۔وہ کہتے ہیں کہ رومی فوج لڑے گی تو وہ اس کا ساتھ دیں گے اور اگر وہ فوج جوش اور جذبے سے نہ لڑیں تو تمام قبائل کے لوگ یہاں سے چلے جائیں گے۔
 شہنشاہ معظم!،،،، اصل بات یہ ہے کہ آپ اس ملک کی خاطر لڑے ہیں لیکن یہ قبائلی صرف اپنا اپنے بیوی بچوں اور اپنے مال و اموال کا تحفظ چاہتے ہیں۔
ان کی باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کا پلہ بھاری ہوا تو ان کے ساتھ یہ لوگ جا ملے یا نہ ملے یہاں سے چلے جائیں گے اور آپ ان کی مدد سے محروم رہ جائیں گے۔
اور اپنی فوج کا جذبہ کیسا ہے ؟ہرقل نے پوچھا ۔۔۔کیا آپنی فوج میں جوش و خروش اور تازگی نظر آتی ہے۔
نہیں شہنشاہ معظم !،،،،جاسوس نے کہا۔۔۔ آپ کے دل کو دکھ پہنچا کر مجھے دلی رنج ہو رہا ہے لیکن میرا فرض ہے کہ حقیقت بیان کرو ہماری فوج میں کوئی تازگی نظر آتی ہے نہ ہی جوش و خروش نظر آتا ہے میں نے خود خیموں میں بیٹھ کر باتیں کیں اور ان کی سنی ہے۔
ان بدبختوں پر مسلمانوں کا خوف اس طرح طاری ہے جیسے وہ کسی آسیبی اثر ہو ۔
انہیں بتایا گیا کہ حمص میں مسلمانوں کی فوج بمشکل چار ہزار ہے اور یہ چار ہزار سپاہی ہماری اتنی بڑی فوج کے سامنے ٹھہر نہیں سکی گی جس میں صرف قبائلیوں کی نفری تیس ہزار ہے لیکن ہمارے سپاہیوں میں ذرا سا بھی جوش و خروش پیدا نہیں ہو رہا کچھ ایسی آوازیں اٹھنے لگیں ہیں مسلمانوں کا مذہب سچا ہے ایسی باتیں کرنے والے یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ خدا مسلمانوں کے ساتھ ہے۔
مختصر یہ کہ ہرقل کو اپنی فوج کے متعلق مایوس کون رپورٹ مل رہی تھی اسے کسی کی رائے لینے کی ضرورت ہی نہیں تھی وہ خود مرد میدان اور تاریخ کا ایک قابل جرنیل تھا جنگی امور کو اور فن حرب و ضرب کو خوب سمجھتا تھا، لڑنا بھی جانتا تھا، اور لڑانا بھی جانتا تھا، وہ اپنی فوج کا اور قبائلی لشکر کا تجزیہ خود کرسکتا تھا ،اس کے پاس اب یہی ایک راستہ تھا کہ وہ فورا حمص پر حملہ کر دیتا۔
حمص اس کے قبضے میں آ جاتا تو اس کی فوج میں کچھ جذبہ پیدا ہوسکتا تھا لیکن اپنی فوج کی ذہنی اور جسمانی حالت کو اور عیسائی قبائلیوں کے تذبذب دیکھتا تھا تو وہ اس فیصلے پر پہنچتا تھا کہ ابھی حملہ نہ کیا جائے ۔
وہ اس خوش فہمی میں بھی مبتلا تھا کہ حمص کو کمک نہیں مل سکے گی اور مسلمانوں کی نفری تھوڑی ہی رہے گی۔
ہرقل ایسا بوکھلایا ہوا تھا کہ وہ جان ہی نہ سکا کہ مسلمان کتنی تیزی سے حرکت میں آ رہے ہیں اور کچھ دنوں بعد کیا ہونے والا ہے۔
اس کا اپنا جاسوسی کا نظام تھا تو بہت ہی تیز اور وہ لوگوں کے دلوں کی باتیں بھی معلوم کرلیا کرتا تھا لیکن اسے ذرا سابھی شک نہ ہوا کہ عرب کے دس بارہ مسلمان اس کے محاذ پر قبائلی عیسائیوں کے بہروپ میں پہنچے ہوئے ہیں اور وہ بڑی دانشمندی سے قبائلیوں میں بددلی اور رومیوں کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کررہے ہیں ذہنی تخریب کاری کی کارروائیاں کرنے والے ان دس بارہ مسلمانوں کا کمانڈر حدید تھا ۔وہ تو اس تخریب کاری کا ماہر تھا وہ بعض قبائل کے سرداروں تک پہنچ گیا تھا اور ان کے ذہنوں میں بھی اس نے ہرقل رومیوں کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کر دی تھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اپنے ایمان عزم و عہد کے پکے اور سچے تھے وہ اللہ کی راہ میں باطل کے خلاف لڑتے ہوئے جان قربان کرنے وطن سے اتنی دور آئے تھے، اللہ ان کے ساتھ نہ ہوتا تو اور کس کے ساتھ ہوتا! 
 مسلمانوں کے ہاں کوئی محلاتی سازش نہیں تھی نہ ان میں لڑکیوں پر دست درازی کر کے دل خوش کرنے والے سالار تھے ،نہ ان کے دلوں میں کوئی شک اور شبہ تھا، وہ سب اللہ کے ایک عظیم پیغام کے پیامبر تھے، اور اپنے فرائض کو پوری طرح جانتے تھے، ان میں سالار بھی تھے، نائب اور ماتحت بھی تھے، لیکن سب جانتے تھے کہ اللہ کی نگاہ میں برتر وہ ہے جو ایمان اور کردار میں برتر ہے
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷=÷*
پچھلے باب میں تفصیل سے بیان ہو چکا ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ابوعبیدہ کو اتنی نازک اور خطرناک صورتحال سے نکالنے کے لیے کیا کیا اقدامات کئے تھے، اور عراق کے محاذ کے کون کون سے سالار کو شام کے محاذ پر پہنچ کر کون کون سے علاقے میں جانے کا حکم دیا تھا۔ حضرت عمر خود بھی مجاہدین کا ایک لشکر لے کے حمص کو روانہ ہو گئے تھے۔
امیرالمومنین نے ایک قاصد کو اس ہدایت کے ساتھ حمص کو بھیج دیا تھا کہ کمک بھی آرہی ہے، اور میں بھی آ رہا ہوں ،اور وہ اتنی تیز جائے جیسے اڑ کر حمص پہنچا ہو، جنگوں میں جرنیل اور سپہ سالار جب کسی محاذ کی طرف کوچ یا پیش قدمی کرتے تھے تو ان کی کوشش ہوتی تھی کہ دشمن کو اس کا علم نہ ہو سکے اور وہ اچانک دشمن پر جا ہلہ بولے لیکن حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس جنگی اصول کے بالکل الٹ ایک کاروائی کی وہ یہ کہ چند ایک شتتر سوار اور گھوڑسوار الگ کیے اور انہیں کہا کہ وہ آگے نکل جائیں اور محاذ کے قریب بستیوں میں یہ خبر پھیلاتے  جائیں کہ مدینہ سے بہت بڑی کمک حمص کو جا رہی ہے۔
امیرالمومنین نے یہ بھی کہا کہ الجزیرہ میں وہ خاص طور پر یہ خبر پھیلائیں اور یہ بھی کہ عراق سے کچھ سالار دستے لے کر حمص اور بزنطیہ کی طرف جارہے ہیں ۔
حضرت عمر اپنے کوچ کی یہ تشہیر اور نمائش اس خیال کے پیش نظر کر رہے تھے کہ انھیں پتہ چل گیا تھا کہ ہرقل میں اتنا دم خم نہیں رہا کہ وہ اب کہیں بھی مجاہدین کے ساتھ ٹکر لے سکے یا کہیں جوابی حملہ کر سکے۔
مدینہ سے روانگی سے کچھ پہلے امیر المومنین نے اپنے مصاحبوں سے کہا تھا کہ ہرقل کی فوج کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور وہ اتنا زیادہ نقصان اٹھا چکی ہے کہ اب اس کا لڑنے کا جذبہ مر ہی گیا ہو گا۔
امیرالمومنین اپنی اور کمک کی آمد کی زیادہ تشہیر الجزیرہ کے ان عیسائی قبائل میں کرنا چاہتے تھے جنہوں نے ہرقل کو تیس ہزار نفری کا لشکر دیا تھا ۔ اس تشہیر کا مقصد یہ تھا کہ قبائل ڈر جائیں کہ مسلمان انکی بستیوں کو تباہ کر دیں گے اور یہ سوچ کر وہ ہرقل کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔
یہ صحیح طور پر بتانا ممکن نہیں کہ امیرالمومنین کا قاصد کتنے دنوں بعد حمص پہنچا تھا، بہرحال وہ بہت ہی تیزی سے سفر کرتا حمص پہنچ گیا اور ابو عبیدہ کو یہ خبر سنائی کہ کمک پہنچ رہی ہے اور امیرالمؤمنین ایک لشکر کے ساتھ خود بھی آرہے ہیں ،قاصد نے انہیں یہ بھی بتایا کہ حمص اور کہاں کہاں سے کمک مل رہی ہے۔ اور یہ بھی کہ قبائلی علاقوں میں بھی سالار اپنے اپنے دستے لے کر پہنچ گئے ہیں۔
تصور میں لایا جاسکتا ہے کہ ابو عبیدہ نے کس طرح سکھ اور چین کا سانس لیا ہوگا۔
 وہ تو سپہ سالار تھے وہاں کوئی چھوٹے سے چھوٹا مجاہد بھی جیتی ہوئی بازی ہارنا نہیں چاہتا تھا ،ابو عبیدہ نے مجاہدین کو صورتحال سے آگاہ کر دیا تھا کہ اس سے بچنے کا ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ جان قربان کر دو، ہر مجاہد نے عہد کر لیا تھا۔۔۔ فتح ہے یا موت، ۔۔۔ان حالت میں امیرالمومنین کا قاصد ابوعبیدہ کو یوں نظر آنے لگا جیسے اللہ نے آسمان سے رحمت کا فرشتہ اتارا ہو۔
خالد بن ولید بھی چار ہزار گھوڑ سواروں کے ساتھ حمص پہنچ چکے تھے ،خالد بن ولید خطرہ مول لینے والے سالار تھے انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ باہر نکل کر لڑیں گے لیکن ابو عبیدہ اور دوسرے سالاروں نے یہ مشورہ قبول نہیں کیا تھا ،اب اطلاع ملی کہ اللہ کی مدد امیرالمومنین کی صورت میں آرہی ہے تو خالد بن ولید بہت ہی خوش ہوئے کہ اب باہر نکل کر لڑنے کا موقع ملے گا۔
امیرالمومنین کا یہ قاصد واپس چلا گیا اور ایک ہی دن کے وقفے سے دوسرا قاصد آ گیا، امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس دوسرے قاصد کو اس پیغام کے ساتھ بھیجا تھا کہ ابو عبیدہ اپنے ذرائع سے رومیوں کے محاذ پر یہ خبر پھیلا دیں کہ عراق سے کمک آگئی ہے ،اور بہت سے دستے الجزیرہ کے قبائلی علاقوں میں پھیل گئے ہیں، امیر المومنین نے خاص طور پر یہ ہدایت بھیجی کہ ان قبائل کا جو لشکر کر ہرقل کے پاس پہنچ گیا ہے اس لشکر پر یہ خطرہ سوار کردیا جائے کہ مسلمانوں کے جو دستے الجزیرہ میں گئے ہیں وہاں کی بستیاں اجاڑ دیں گے ، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سارا علاقہ اب مسلمانوں کے تسلط میں ہے اور اس علاقے کے جو لوگ رومیوں کی مدد کے لئے چلے گئے ہیں وہ غدار ہیں ،اور انہیں اس غداری اور بغاوت کی سزا دی جائے گی جو یہ ہوگی کہ ان کی بستیاں اجاڑ دی جائینگی اور مویشیوں پر مسلمان قبضہ کرلیں گے۔
یہ ایک نفسیاتی یلغار تھی جو امیرالمومنین رومیو اور ان کے قبائلی اتحادیوں پر کر رہے تھے، ابو عبیدہ نے تو پہلے ہی دس بارہ مجاہدین قبائلی لشکر میں بددلی پیدا کرنے کے لیے بھیج رکھے تھے ،اب انہیں امیر المومنین کی یہ ہدایت ملی تو انہوں نے ایک اور مجاہد کو یہ ساری ہدایت سمجھا کر رومیوں کے محاذ پر بھیج دیا۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
یہ قاصد قبائلی عیسائیوں کے بھیس میں روانہ ہوگیا ،اسے حدید کے پاس پہنچنا تھا اور باقی کام حدید اور اس کے ساتھیوں کو کرنا تھا، 
رومی فوج اور عیسائی قبائلی پہاڑوں کے اندرونی علاقوں میں اس طرح خیمہ زن تھے کہ حمص ان کے محاصرے میں تھا ، لیکن وہ حمص سے ابھی کئی میل دور تھے اس سارے لشکر کو ہرقل کے حکم پر حمص کی طرف پیش قدمی کرنی تھی اور حمص کو محاصرے میں لے لینا تھا۔
ابو عبیدہ کا بھیجا ہوا یہ قاصد وہاں پہنچا تو قبائلی اسے اپنا ہی آدمی سمجھ کر دوڑے آئے اور اسے گھیر لیا وہ اس سے پوچھنے لگے کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور اپنے علاقے کے حالات کیسے ہیں؟ 
ان کی باتوں سے قاصد کو اندازہ ہوا کہ انہیں پہلے ہی خبر مل چکی ہے کہ مسلمانوں نے الجزیرہ کی بستیوں پر حملہ کردیا ہے اور وہاں کے حالات ٹھیک نہیں قاصد نے انہیں بتایا کہ حالات بہت برے ہیں اور مسلمان تعزیری کارروائی کے طور پر بستیاں اجاڑ رہے ہیں، مختصر یہ کہ قاصد نے اچھی خاصی دہشت پھیلا دی اور پھر وہ ڈھونڈتا ہوا حدید تک بھی پہنچ گیا حدید بھی قبائلی عیسائی بنا ہوا تھا، قاصد نے اسے بتایا ابوعبیدہ کا پیغام دیا حدید نے اسے بتایا کہ وہ واپس چلا جائے اور سپہ سالار ابوعبیدہ کو تسلی دے کہ جو طریقہ کار انہوں نے بتایا ہے اس پر پہلے ہی عمل ہورہا ہے ،اور اس میں جھوٹ بولنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کیونکہ الجزیرہ سے خود عیسائی خبریں لے کر پہنچ گئے ہیں اور اس تمام تر تیس ہزار لشکر کو پتہ چل چکا ہے کہ پیچھے خیریت نہیں۔
قاصد واپس آگیا ،اور حدید اور اس کی مختصر سی جماعت نے جلتی پر خوب تیل ڈالا اور قبائلیوں کے لشکر پر دہشت طاری کر دی ۔
محاذ پر یہ قبائلی کسی ایک جگہ اکٹھا نہیں تھے وہ تو میلوں لمبائی میں رومی فوج کے ساتھ پھیلے ہوئے تھے ایک افواہ اڑی تھی جو تیز ہوا کی طرح دور دور تک پھیلے ہوئے قبائل تک پہنچ جاتی تھی کوئی ضرورت نہیں سمجھتا تھا ہر ایک کی زبان پر یہی ایک افواہ ہوتی تھی اس لیے ہر کوئی اسے سچ مانتا تھا۔
قبائلی پہلے ہی رومیوں سے بد دل ہو چکے تھے ان کے دلوں میں رومیوں کے متعلق جو شکوک و شبہات پیدا ہوگئے تھے انہیں حدید اور اس کی جماعت نے مزید پکا کر دیا تھا اور یہ شکوک یقین کی صورت اختیار کرگئے تھے، اصل میں یہ بات پیدا کردی گئی تھی کہ جو لڑائی لڑتے آئے ہیں وہ رومیوں کے مفادات کی لڑائی ہے اور اس میں ان کے لئے نقصان ہی نقصان ہے اب انہیں یہ خبر ملی کہ مسلمانوں کا لشکر ان کے علاقوں پر حملہ آور ہو گیا ہے تو قبائلی سرداروں کا ایک وفد ہرقل کے پاس گیا۔
یہ خبریں ہرقل تک بھی پہنچ چکی تھیں قبائلی سرداروں نے اسے بتایا کہ وہ اس کی لڑائی لڑنے آگئے ہیں لیکن ان کے اپنے علاقوں پر مسلمانوں نے یلغار کردی ہے۔
ہرقل بڑا ہی ہوشیار اور چالاک آدمی تھا، عیار ایسا کہ کہ کسی کو شک نہیں ہوتا تھا کہ یہ شخص عیاری کررہا ہے ،اس نے قبائلی سرداروں کے وفد کی پوری بات بڑی دلچسپی اور ہمدردی سے سنی۔
میرے عزیز بھائیوں !۔۔۔ہرقل نے کہا ۔۔۔مجھے سب سے پہلے تمہارے گھروں کا اور بیوی بچوں کے تحفظ کا خیال ہے اگر مسلمان تمہارے علاقوں میں آگئے ہیں تو کوئی قیامت نہیں آگئی میں اب حمص پر حملے کو مزید ملتوی نہیں کروں گا ، ہم نے حمص مسلمانوں سے لے لیا تو پھر ہم اس کی کمر توڑ دیں گے اور پھر تم دیکھنا کہ تمہارے علاقوں میں مسلمانوں کی جو فوج پھیل گئی ہے وہ سب بھاگی بھاگی اس طرف آ جائے گی میرا ساتھ دو اور پھر دیکھنا کہ ہم ان مسلمانوں کو کس انجام تک پہنچائیں گے۔
ہم اور انتظار نہیں کرسکتے وفد کے ایک سردار نے کہا۔۔۔ حمص فتح ہونے تک مسلمان ہماری بستیوں کا صفایا کر چکے ہوں گے ،اگر آپ ہمارا تعاون اور اتحاد چاہتے ہیں تو پہلے اپنی فوج کو ہمارے ساتھ ہمارے علاقوں میں بھیجیں ہم مسلمانوں کو وہاں سے بھگا دیں گے اور پھر حمص پر حملہ کریں گے یا جہاں آپ چاہیں گے ہم آپ کے ساتھ ہونگے۔
ہرقل اتنا کچا آدمی نہیں تھا کہ وہ ان قبائلیوں کی باتوں میں آ جاتا وہ تو انہیں اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہا تھا قبائلیوں کی پریشانی بلا وجہ نہیں تھی پہلے ایک موقع پر مسلمانوں نے ان کی تین بستیاں اس جرم کی سزا کے طور پر تباہ کر دی تھی کہ انھوں نے اس وقت بھی مسلمانوں کے خلاف رومیوں کا ساتھ دیا تھا ان قبائلیوں کو یہ بھی معلوم تھا کہ ہرقل تو حمص پر حملے کو ملتوی کرتا چلا جا رہا رہا ہے لیکن مسلمان عزم کے اتنے پکے ہوتے ہیں کہ وہ اللہ کا نام لے کر تکبیر کے نعرے لگاتے حملے کر دیتے ہیں اور اپنی کوئی کاروائی التوا میں نہیں ڈالتے۔
ہرقل چاہتا تھا کہ قبائلی اس کے ساتھ رہیں اور وہ حمص پر حملہ کرے، لیکن قبائلی چاہتے تھے کہ ہرقل انہیں اپنی فوج دے دے اور وہ مسلمانوں کو اپنے علاقوں سے نکالیں، 
ہرقل نے زبان سے یہ داؤٰ آزمایا، بڑے پیار اور بظاہر دلی ہمدردی سے بھی انھیں قائل کرنے کی کوشش کی لیکن قبائلی سردار جو پہلے ہی رومیوں سے بد دل ہو گئے تھے ان کی باتوں میں نہ آئیں اور یہ مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو گئے۔
میری ایک بات سن لو ۔۔۔ہرقل نے بگڑے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔ جسے تم اپنا علاقہ کہہ رہے ہو وہ تمہارا اپنا نہیں وہ علاقہ اس کا ہے جس نے یہ ملک فتح کیا ہے پہلے تم میرے زیر تسلط تھے اب اس علاقے پر مسلمان قابض ہو گئے ہیں لہذا تم آزاد نہیں ہو اگر تم لوگوں میں ہمت اور غیرت ہے تو مسلمانوں کے خلاف بغاوت کر دو وہ نئے نئے آئے ہیں اور ابھی یہاں کا نظام انہوں نے نہیں سنبھالا اس بدنظمی سے فائدہ اٹھاؤ اور باغی ہو جاؤ۔
سردار وہاں سے آ گئے وہ ہرقل سے ملنے بزنطیہ گئے تھے جو حمص سے خاصا دور تھا۔ واپس محاذ تک پہنچتے پورا دن اور آدھی رات گزر گئی تھی، وہ محاذ پر پہنچے تو انہیں اطلاع ملی کہ قبائلیوں کے بیشتر نفری یہاں سے رخصت ہو چکی ہے اور سب اپنے اپنے علاقے کی طرف چلے گئے ہیں ان سرداروں نے بھی بریا بسترا سمیٹا اور روانہ ہوگئے انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ اپنی لڑکیوں کو ساتھ لے گئے ہیں۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
مورخوں نے لکھا ہے کہ ایک صبح ابو عبیدہ اذان کی آواز پر جاگے اور اٹھے وہ نماز کے لیے اٹھے تھے کہ دربان نے انہیں اطلاع دی کہ حدید ببن مومن خزرج اپنے ساتھیوں کے ساتھ آیا ہے۔
 ابو عبیدہ کو جیسے اپنے کانوں پر شک ہوا ہو انہیں توقع نہیں تھی کہ حدید اپنی جماعت کے ساتھ اچانک واپس آجائے گا انہیں کچھ پریشانی سی ہوئی کہ رومیوں کو ان کی اصلیت معلوم ہو گئی ہو گی اور دو چار آدمی پکڑے گئے ہونگے اور باقی بھاگ آئے ہیں، ابو عبیدہ انہیں بلانے کے بجائے دوڑے باہر نکلے دیکھا حدید کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور اس کی جماعت کے تمام فرد موجود تھے اور سب کے چہروں پر بشاشت تھی۔

تم سب کیوں آئے ہو؟ ۔۔۔ابوعبیدہ نے پوچھا۔ اس لیے کہ تیس ہزار قبائلیوں کا لشکر چلا گیا ہے ۔۔۔حدید نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
 کہاں؟ 
 جہاں سے وہ آئے تھے حدید نے جواب دیا۔۔۔ کچھ ہماری کامیابی نے ان لوگوں میں بدلی پھیلا دی تھی اور باقی کام ان اطلاعات اور خبروں نے کر دیا جو ان لوگوں کو اپنے علاقوں سے پہنچی تھی کہ مسلمان آگئے ہیں ہم نے افواہیں پھیلائی جلتی پر تیل ڈالا اور آخر قبائلی رومیوں کا ساتھ چھوڑ کر چلے گئے، 
حدید اور اس کے ساتھیوں نے تفصیلات سنائی کہ قبائلی کس طرح ہرقل سے بدظن ہوئے تھے ،اور آخر وہ کس طرح ہرقل کا ساتھ چھوڑ کر چلے گئے ۔
ابو عبیدہ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اور آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کیا اور بلند آواز سے کہا کہ یہ سب اس اللہ تبارک و تعالی کی رحمت و برکت ہے جس کے نام پر ہم یہاں آئے تھے اور جس کے نام پر ہم نے اپنی جان کی قربانی کے لئے وقف کر رکھی ہے۔
 ابو عبیدہ اور یہ سب لوگ نماز پڑھنے کے لیے چلے گئے، اس زمانے میں سپہ سالار امامت کے فرائض سرانجام دیا کرتا تھا ،ابو عبیدہ نے نماز کی امامت کی اور نماز سے فارغ ہوئے تو ابوعبیدہ اٹھے اور سب سے کہا کہ کوئی آدمی ابھی جائے نہیں۔
 آج کی صبح ہمارے لیے ایک بہت بڑی خوشخبری لے کر طلوع ہوئی ہے ،ابو عبیدہ نے بڑی بلند آواز میں کہا ۔۔۔اور ہزارہا مجاہدین جو وہاں موجود تھے سناٹے میں آگئے ابو عبیدہ نے اعلان کیا تیس ہزار عیسائی قبائل کا لشکر رومیوں کا ساتھ چھوڑ کر اپنے علاقوں میں چلا گیا ہے یہ اللہ کی غیبی مدد ہے اللہ نے قرآن کی سورۃ الزمر میں فرمایا ہے کہ جنہوں نے شیطان سے منہ موڑ کر اللہ کی طرف رجوع کیا ان کے لیے خوشخبری ہے۔ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت میں فرمایا ہے کہ میرے ان بندوں کو خوشخبری سنادیں جو میری بات سنتے ہیں اور نیک راستے پر چلتے ہیں اور اللہ انہی کو صحیح راستہ دکھاتا ہے اور یہی ہے جو عقل و ہوش والے ہیں،،،،،،،،،  اللہ کے یہ بندے تم ہو جنہیں اللہ نے آج خوشخبری بھیجی ہے کہ الجزیرہ کے قبائلیوں کا وہ تیس ہزار کا لشکر جو ہمارے لئے ایک بہت بڑا خطرہ بن گیا تھا چھوڑ کر ان سے بدظن ہوکر چلا گیا ہے اور پیچھے روم کی تھوڑی سی فوج رہ گئی ہے یہ فوج تم سے پہلے ہی خوفزدہ ہے اور اس فوج میں اتنا سا دم خم بھی نہیں کہ تمہارے سامنے ایک دن بھی ٹھہر سکے۔
 نعرہ تکبیر،، ۔۔۔کسی نے پھیپڑوں کا پورا زور لگا کر یہ نعرہ بلند کیا اور حمص کے زمین و آسمان اللہ اکبر کے گونجدار اور گرج دار دھماکے سے لرز اٹھے۔
 یہ نعرہ بلند کرنے والے خالد بن ولید تھے جو ابوعبیدہ کی مدد کے لئے قنسرین سے آکر حمص میں مقیم تھے انہوں نے شہر سے باہر نکل کر لڑنے کا مشورہ دیا تھا جو سپہ سالار ابوعبیدہ نے نہیں مانا تھا اب انھیں شہر سے باہر جا کر کھلے میدان میں رومیوں سے آمنے سامنے کے معرکے کا موقع مل گیا تھا، 
 مجاہدین اسلام ابوعبیدہ بڑی پرجوش آواز میں کہہ رہے تھے ان شاء اللہ یہ معرکہ شام کا آخری معرکہ ہوگا جس طرح عراق کی سرزمین زرتشت کے پجاریوں سے پاک ہو گئی ہے اسی طرح شام سے رومی ہمیشہ کے لئے چلے جائیں گے، اور یہ زمین بھی پاک ہوجائے گی، مجھے یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں تھی لیکن ایک بار پھر یاد دلانا ضروری سمجھتا ہوں ہم نے یہ ملک اس لیے فتح نہیں کیا کہ یہاں حکمرانی کریں گے یا یہاں کے بادشاہ بن بیٹھیں گے، بلکہ ہمارا مقصد اور ایمان یہ ہے کہ یہاں اللہ کی حکمرانی قائم کریں گے، یہ بھی سن لو کہ ملک کے فتح کرنے پر ہی ہمارا کام ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اصل کام اسکے بعد شروع ہوتا ہے، 
 یہ کام ہے لوگوں کے دلوں پر فتح حاصل کرنا اور ان کے دلوں سے غلامی کا احساس مٹا کر انہیں وہ تقریم و تعظیم دینا جو اللہ نے اپنے بندوں کو عطا کی ہے، لیکن ابھی اپنے آپ کو فاتح نہ سمجھ لینا کیونکہ دشمن ابھی یہاں موجود ہے جب تک دشمن اپنے خون میں ڈوب نہ جائے اور اپنے گھوڑوں کی اڑائی ہوئی گرد میں گم نہ ہو جائے اپنے آپ کو فاتح نہ سمجھنا۔
 اللہ نے معجزہ دکھا کر ہمارے دشمن کو تیس ہزار کے لشکر سے محروم کر دیا ہے ہمیں یقین ملا ہے کہ اس کی ذات باری ہمارے ساتھ ہے ۔
امیرالمومنین بھی کمک لے کر آرہے ہیں اور قعقاع بن عمرو ہماری مدد کے لئے چار ہزار گھوڑسوار لے کر پہنچنے ہی والے ہیں۔
 اب فورا حملے کی تیاری کرو ضروری ہدایت اور دیگر باتیں تمہیں سالار بتا دیں گے۔
 مجاہدین کے اس لشکر کی جذباتی اور جسمانی کیفیت ایسی ہوگی جیسے ان میں نئی روح پھونک دی گئی ہو وہ ہمت اور حوصلہ ہارنے والے نہیں تھے انہوں نے ہر میدان قلیل تعداد سے فتح کیا تھا اور کئی گناہ زیادہ طاقتور دشمن کو تہہ تیغ کیا تھا لیکن یہاں ایسی صورتحال پیدا ہوگئی تھی کہ پریشانی کے آثار سپہ سالار کے چہرے پر بھی نظر آنے لگے تھے وہ محاصرے میں آکر لڑنے کے لئے تیار تھے لیکن اب اپنے سپہ سالار سے یہ خوشخبری سنی تو وہ بند کلیوں کی طرح کھل اٹھے ابوعبیدہ اور خالد بن ولید نے حملے کا پلان تیار کر لیا اور اپنے لشکر کو فوری تیاری کا حکم دے دیا

جاری ہے

Post a Comment

if you have any doubt please let me know

Previous Post Next Post