EPISODE 16 URDU ISLAMIC HISTORICAL NOVEL MUSLIMS HISTORY
(new novel,deedan,hum tv,ary digital,har pal jeo,pakistani drama in urdu,urdu story and novels,ummera ahmad novels,ummera ahmed official,urdu waqiyat,urdu point,humna qandeel,urdu khaniyan stories novels,ghumand,band kherkiyan,jab zindagi shuru hogi,jab zindagi shoro hogee,when life begins,jub zindagi shoro hogi,qayamat ka manzar,qayamt ki nishanian,qayamat kab aye gi,nabi ki shifaat,qayamat ka bayan,yajooj majooj,imam mehdi,hazrat esa ka nazool,urdu novel,famous novel,famous urdu novel,mp3)
*اورنیل بہتارہا*
مصنف *عنایت اللہ التمش*
*قسط نمبر 16*
ابو عبیدہ نے اپنے ماتحت سالاروں کو بلایا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک قاصد خالد بن ولید کی طرف دوڑا دیا کہ وہ جس قدر جلدی ہو سکے حمص پہنچ جائیں۔
میرے عزیز رفیقوں!،،،، ابو عبیدہ نے اپنے سالاروں سے کہا تم سب نے سن لیا ہے کہ اس رومی فوج کے افسر روتاس نے ہرقل کی فوج اور عیسائی قبائلیوں کے متعلق کیا باتیں بتائی ہیں، اور ہرقل کس تذبذب میں پڑا ہوا ہے لیکن اس سے ہمیں اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے کہ ہمارا دشمن اپنے ہاں کی صورتحال اپنے موافق کرکے حملہ کرے گا،
ہم یہی سمجھیں گے کہ کسی بھی وقت حمص محاصرے میں آجائے گا۔
اور ہمارے پاس نفری اتنی تھوڑی ہے کہ ہم یہ محاصرہ توڑ نہیں سکیں گے میں نے قبائلیوں میں شامل ہونے کے لیے بڑے ذہین اور اپنے کام میں ماہر مجاہدین کو روانہ کر دیا ہے ۔
مدیہ کو بھیجے ہوئے قاصد آدھا راستہ طے کر چکے ہوں گے۔
اپنی دفاعی تیاریاں مکمل رکھو، اور خود بھی دعا کرو اور مجاہدین سے کہو وہ بھی اللہ کے حضور دعا کرتے رہیں کہ کمک جلدی پہنچ جائے اور اگر نہ پہنچ سکے تو اللہ ہماری مدد کرے۔
سپہ سالار ابوعبیدہ کی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ راتوں کو جیسے سوتے بھی نہ ہو ایسا تو وہ دن اور رات میں دو تین مرتبہ ضرور کرتے کہ قلعے کی دیوار پر جا کھڑے ہوتے اور مدینہ کی طرف دیکھنے لگتے حالانکہ وہ جانتے تھے کہ اتنی جلدی کمک نہیں پہنچ سکتی، دن گزرتے جا رہے تھے اس وقت خالد بن ولید شام کی مفتوحہ شہر قنسرین میں تھے ،حمص کا قاصد ان تک پہنچا اور انہیں بتایا کہ حمص کس طرح خطرے میں آ گیا ہے ۔
اور سپہ سالار اس وقت کس تکلیف اور اذیت میں مبتلا ہیں، خالد بن ولید اسی وقت کمان اپنے نائب سالار کے حوالے کرکے حمص کو روانہ ہو گئے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷=÷*
ابو عبیدہ نے خالد بن ولید کو اپنے سامنے دیکھا تو انہوں نے دلی سکون محسوس کیا وہ تو اپنے آپ کو تنہا اور کچھ حد تک بے بس سمجھنے لگے تھے، خالد بن ولید بہت ہی تیز رفتاری سے آئے تھے وہ خود بھی آرام کرنے کے قائل نہیں تھے نہ ابوعبیدہ نے کہا کہ ذرا سستالو پھر بات کریں گے۔
ابو عبیدہ نے انہیں بتایا کہ حمص کی طرف کتنا بڑا خطرہ بڑھا چلا آرہا ہے اور حمص میں اس لشکر کے مقابلے میں بہت تھوڑی نفری ہے ،ابوعبیدہ نے اس دوران جو اقدام کئے تھے وہ تفصیل سے خالد بن ولید کو بتائی۔
میں نے جو سوچا ہے وہ یوں ہے ۔۔۔۔ابو عبیدہ نے کہا۔۔۔ انطاکیہ، حماۃ، حلب ،اور قریب کی تمام چھاؤنیوں سے مجاہدین کی آدھی آدھی نفری حمص میں اکٹھی کر لی جائے اور محصور ہو کر لڑا جائے۔
محصور ہو کر نہیں،، ۔۔۔خالد بن ولید نے مشورہ دیا۔۔۔ ہم قلعے سے باہر دشمن کا مقابلہ کریں گے یہ کوئی نیا دشمن نہیں۔ اسے ہم بڑی دور سے دھکیلتے چلے آ رہے ہیں اور شام کی آخری سرحد تک پہنچا چکے ہیں ۔اسکی چالوں کو اور اس کی فوج کو ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں ہم اس میدان میں بھی اسے شکست دے دیں گے۔
تمام مؤرخوں نے لکھا ہے ابو عبیدہ نے خالد بن ولید کا یہ مشورہ قبول نہ کیا ،وہاں حمص کے دو تین سالار بھی موجود تھے انہوں نے اپنے سالار ابوعبیدہ کی اس تجویز سے بھی اختلاف کیا کہ دوسری جگہوں سے مجاہدین کی آدھی آدھی نفری یہاں بلا لی جائے اور انہوں نے خالد بن ولید کے مشورے سے بھی اختلاف کیا۔ وجہ یہ بتائی کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ دشمن کو پہلے پتہ چل جائے کہ حمص کو مضبوط کرنے کے لئے دوسری جگہوں سے نفری اکٹھا کر لی گئی ہے تو دشمن ان میں سے کسی اور جگہ پر حملہ کرکے قبضہ کر سکتا ہے اور اس طرح دوسری بڑی چھاؤنیوں پر بھی ہلا بول کر کامیاب ہو سکتا ہے ،ان سالاروں نے کہا کہ کسی شہر اور قبضے کو کمزور نہ کیا جاۓ اور صرف مدینہ کی کمک کا ہی انتظار کیا جائے اگر کمک آنے سے پہلے روم میں پہنچ گئے تو پھر انھیں حالت میں لڑیں گے اور اللہ سے دعا کریں گے کہ ہمارے صبر اور استقامت کا اجر عطا فرمائے۔
وہ دین ایمان والے تھے اللہ کے راہ میں باطل کے خلاف وطن سے بے وطن ہوئے اور اپنا اور دشمن کا خون بہا رہے تھے، ان کے دلوں میں ہوس ملک گیری نہیں تھی اور وہ اپنی بادشاہی قائم کرنے کے ارادے سے گھروں سے نہیں نکلے تھے انہوں نے تلوار کا مقابلہ تلوار سے کیا اور جو نہتے تھے ان کے دل انہوں نے اخلاق سے موہ لئے تھے، جن شہروں کو انہوں نے فتح کیا انہوں نے وہاں کے لوگوں سے جزیہ تو وصول کیا لیکن ہرقل جیسے بادشاہوں نے ان پر جو ظالمانہ محصولات عائد کر رکھے تھے ، وہ اتنے کم کر دیے کہ جس کی جتنی حیثیت اور استطاعت تھی اس سے اسی کے مطابق محصولات وصول کیے جاتے تھے ، وہاں کے غیر مسلم مسلمانوں سے بہت ہی خوش اور مطمئن تھے، اور نظر یوں یوں آتا تھا کہ مشکل کے وقت مسلمانوں کے شانہ بشانہ لڑیں گے لیکن اسلام کے سالار ان پر اتنا بھروسہ نہیں کرتے تھے۔
اسلام کے لیے اولین مجاہدین اللہ سے مدد مانگتے تھے دعائیں کرتے تھے لیکن صرف دعاؤں پر ہی بھروسہ نہیں کرتے تھے وہ قرآن کے اس فرمان سے بڑی اچھی طرح آگاہ تھے کہ تم عملاً جتنی کوشش کرو گے اللہ تمہیں اتنا ہی دے گا ۔
انہوں نے کبھی معجزے کی توقع نہیں رکھی تھی، انہوں نے اپنی جانیں دے کر اسلام کو زندہ رکھا اپنا خون بہا کر شمع رسالت کو بجھنے نہ دیا اور اس طرح اللہ کا پیغام حق دور دور تک پھیلتا چلا گیا۔
ابو عبیدہ نے خالد بن ولید کو واپس قنسرین بھیج دیا تھا کہ وہاں کا دفاع ان کے غیر حاضری میں کمزور نہ ہوجائے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ جب خالد بن ولید ابو عبیدہ سے رخصت ہوئے تو ان کے چہرے پر ایسا تاثر تھا جیسے وہ اپنے سالار کو اس مشکل صورتحال میں اکیلا چھوڑنا نہ چاہتے ہوں۔
ابن جراح! ۔۔۔خالد بن ولید نے ابوعبیدہ سے کہا۔۔۔ میری ضرورت پیش آ گئی تو ایسا قاصد بھیجنا جو اڑتا ہوا مجھ تکپہنچے ،اور میں اس سے زیادہ تیز رفتاری سے پوچھوں گا ،خالد بن ولید ابو عبیدہ سے گلے ملے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اللہ حافظ کہہ کر روانہ ہو گئے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
دونوں قاصد مدینہ پہنچ گئے اس وقت وہ اونٹوں پر سوار تھے اور اونٹ دوڑ دوڑتے آ رہے تھے وہ اکیلے نہیں تھے مدینہ کے کئی آدمی اور لڑکے ان کے ساتھ ساتھ دور سے آ رہے تھے ، یہ تو مدینہ کا معمول بنا ہوا تھا کہ جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے اور کسی نہ کسی وجہ سے محاذ پر نہیں گئے تھے وہ قاصد کے منتظر رہتے تھے بعض تو شہر سے کچھ آگے چلے جاتے اور جب کوئی قاصد آتا تو اس کے ساتھ ساتھ دوڑ پڑتے اور پوچھتے تھے کیا خبر لائے ہو ،قاصد لوگوں کے جذبات کو سمجھتے تھے اور کم از کم الفاظ میں ان کو خبر سنا دیتے تھے۔
اس وقت مجاہدین اسلام بیک وقت دو محاذوں پر لڑ رہے تھے دونوں دشمن باطل کی بڑی ہی زبردست جنگی قوت سمجھے جاتے تھے، اور یہ غلط نہیں تھا کہ ان کے مقابلے میں کوئی آنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا ۔
ایک آتش پرست ایرانی، اور دوسرے رومی، ان محاذوں سے کسی بھی وقت کوئی بہت ہی بری خبر آ سکتی تھی۔
اور اکثر توقع یہی ہوتی تھی کہ بری خبر آئے گی، لیکن مجاہدین کے ساتھ ضعیف العمر بوڑھوں ، معصوم بچوں، اور معذوروں کی دعائیں تھیں جو محاذوں پر جانے کے قابل نہیں تھے اور دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی دعاوں سے ان کی مدد کر رہے تھے۔
مدینہ کی گلیوں میں شور بپا ھوگیا قاصد آئے ہیں دو قاصد آئے ہیں یہ شور و غل امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنی کے کانوں سے ٹکرائی تو وہ بڑی تیزی سے اٹھے اور قاصدوں کے استقبال کے لیے باہر آگئے، اور اس طرف دوڑ پڑے جدھر سے قاصد آ رہے تھے قاصدوں نے ان کے قریب آ کر اونٹ پر روکے اور اونٹوں کو بٹھا کر اترنے کے بجائے اونٹوں سے کود آئے۔
اچھی خبر لائے ہو؟ ۔۔۔حضرت عمر نے پوچھا اور اس کے ساتھ ہی اپنے گھر کی طرف چل پڑے۔
خبر بری بھی نہیں۔۔۔ ایک قاصد نے ان کے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ کمک جلدی پہنچ جائے گی تو خبر اچھی بھی ہو جائے گی۔
یا امیرالمومنین! ۔۔۔دوسرے قاصد نے کہا۔۔۔ ہم کہیں سے پسپا نہیں ہوئے ۔چلیے بیٹھ کر پیغام سناتے ہیں ،گھر میں داخل ہو کر حضرت عمر نے قاصدوں کو بٹھایا اور ان کے لیے پانی اور کھانا وغیرہ منگوایا اور پھر کہا ۔۔۔کہ اب بتاؤ ایک قاصد بولنے لگا اس نے پوری تفصیل سے بتایا کہ حمص کس خطرے میں آ گیا ہے، اور رومی فوج کے ساتھ الجزیرہ کے غیر مسلم قبائل کا لشکر بھی شامل ہو گیا ہے،
خدا کی قسم! ۔۔۔امیرالمومنین نے ساری تفصیلات سن کر کہا مجھے میری ذات سے اشارے مل رہے تھے کہ ایسی صورت پیدا ہو ہی جائے گی میں اللہ تبارک و تعالی کا شکر ادا کیوں نہ کروں جس نے مجھے اتنی فہم و فراست عطا کی ہے کہ اس کا دفاعی انتظام پہلے ہی سوچ رکھا تھا۔
امیرالمومنین نے جس دفاعی انتظام کی طرف اشارہ کیا تھا تاریخ میں اس کا ذکر ایک دو مؤرخ ہی کرتے ہیں تو ہم ان کے نام لے کر حوالے دیتے ہیں لیکن صرف مسلمان مؤرخین نے ہی نہیں بلکہ غیر مسلم یورپی مؤرخوں نے بھی حضرت عمر کی جنگی فہم و فراست کو خراج تحسین پیش کیا ہے، کہ ہر محاذ کے ہر گوشے تک کمک پہنچانے کے انتظامات انہوں نے تیار رکھے ہوئے تھے، سب سے بڑا انتظام یہ تھا کہ انہوں نے بصرہ اور کوفہ کو اس طرح آباد کیا تھا کہ ان دونوں جگہوں کو بہت بڑی چھاونی بنا دیا اور کسی غیر مسلم کو وہاں آباد نہیں ہونے دیا تھا تاکہ دشمن کو خبر نہ ہونے پائے کہ یہاں کیا کچھ موجود ہے۔
اس کے علاوہ سات اور شہر کے جن میں سے ہر شہر میں امیرالمؤمنین چار چار ہزار سوار مجاہدین ہنگامی حالت کے لیے رکھے ہوئے تھے ۔
ان کے لئے حکم تھا کے اس طرح ہر وقت کیل کاٹنے سے لیس ہوکر تیار رہیں کہ جو نہی کہیں ہی سے کمک طلب کی جائے تو قریبی شہر سے چار ہزار سوار یا اس سے کم فوراً روانہ ہو جائیں اور ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر وہاں تک پہنچے جہاں ان کی ضرورت ہو۔
https://www.facebook.com/335030187421775/posts/615967992661325/
امیرالمومنین نے اسی وقت ایک قاصد سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی طرف دوڑا دیا اور یہ پیغام دیا کہ قعقاع بن عمرو کو چار ہزار سوار دے کر یہ پیغام ملتے ہی حمص بھیج دو اور وہاں ابوعبیدہ سبھی دشمن میں گھرگئے ہیں اور کمک پہنچنے تک نہ جانے وہاں کیسی صورتحال پیدا ہو جائے۔
اس وقت سعد بن ابی وقاص مدائن میں تھے اور زرتشت کے پجاری وہاں سے بھاگ گئے تھے اور اس طرح کسریٰ ایران کو شکست فاش دے دی گئی تھی اور عراق مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا تھا۔
قعقاع بن عمرو اس وقت کوفہ میں تھے، سعد بن ابی وقاص نے امیرالمومنین کا پیغام ملتے ہی ایک قاصد کوفہ بھیج دیا۔
قعقاع پیغام ملتے ہی چار ہزار سوار لے کر یوں کوفہ سے حمص کو نکلے جس طرح اچانک طوفان اور بگولے اٹھا کرتے ہیں۔
ان کے لیے حکم تھا کہ کم سے کم پڑاؤ کرکے تیز سے تیز حمص پہنچنا ہے۔
اس وقت حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پاس ان کے مشیر بیٹھے ہوئے تھے۔
اور امیرالمومنین جو کچھ بھی سوچتے ان سے مشورہ لیتے تھے۔
یہ صورت حال امیرالمؤمنین حضرت عمر کے تدبر اور دور اندیشی کی بڑی سخت آزمائش تھی۔ وہ پسپائی اور شکست کا نام بھی نہیں سننا چاہتے تھے۔ یہ تو جذباتی کیفیت تھی۔ حقیقت یہ انہیں نظر آرہی تھی کہ حمص سے پاؤں کھڑے تو پھر نہ جانے کہاں تک مجاہدین کو پیچھے ہٹنا پڑے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ایران سے فوج نکال کر بھیجی جائے اور کسرا ایران پھر اٹھ کھڑا ہو، اور عراق کے مختلف علاقوں پر پھر قبضہ کرلے۔
میرے بھائیوں! ۔۔۔۔امیرالمومنین نے اپنے مشیروں سے کہا۔۔۔ خدا کی قسم یہ ساری سازش الجزیرہ کے قبائل کی ہے ان میں اکثریت عیسائیوں کی ہے وہ نہیں چاہتے کہ اسلام اس علاقے کے تک پہنچے انہوں نے ہرقل کو اکسایا اور کم و بیش تیس ہزار کا لشکر اسے دیا ہے کہ وہ ان کا ساتھ دیں اور مسلمانوں کو ملک شام سے بے دخل کردیا جائے،،،،،
یہاں تک میں جانتا ہوں ہرقل میں اتنا دم خم نہیں رہا کہ وہ کہیں بھی ہمارے مجاہدین پر جوابی حملہ کرے گا اس کی اس فوج کی تو کمر ہی ٹوٹ چکی ہے جو شام میں لڑی تھی اس کی فوج کی بیشتر نفری ماری گئی ہے۔ اس سے زیادہ نہیں تو اتنی زخمی ہے اور اگر کچھ نفری جسمانی لحاظ سے صحیح اور سلامت ہے تو اس میں لڑنے والا جذبہ بجھ چکا ہے ۔
اسے مصر سے جو فوج ملی ہے اس نے ہرقل کے نیم مردہ ارادوں میں کچھ جان ڈال دی ہوگی اور اس برے وقت میں یہ قبائلی اس کے پاس جا پہنچے اور اتنا بڑا لشکر اسے دے کر اس میں پھر غرور اور تکبر پیدا کردیا ہوگا۔
تم جانتے ہو کہ قبائلیوں کا علاقہ جنگ سے محفوظ رہا ہے ان کے تین بستیوں نے ہمارے مقابلے میں ہمارے دشمن کا ساتھ دیا تھا لیکن دشمن پھر بھی شکست کھا کر پسپا ہوا اور ہم نے ان تینوں بستیوں کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ ان کی باقی تمام بستیاں محفوظ رہی۔
کیا تم کوئی طریقہ سوچ سکتے ہو کہ ان قبائلیوں کو رومیوں سے الگ کیا جائے۔
ان کی بستیوں پر یلغار کی جائے ایک مشیر نے کہا ۔۔۔انہوں نے ابھی جنگ کا ذائقہ نہیں چکھا سوائے ان تین بستیوں کے ۔۔۔ان پر آفت نازل ہوگی تو وہ تیس ہزار قبائلی جو بزنطیہ ہرقل کے پاس چلے گئے ہیں بھاگم بھاگ واپس اپنی بستیوں کو جائیں گے۔
خدا کی قسم !۔۔۔امیرالمومنین نے کہا ۔۔۔ہماری سوچیں ایک جیسی ہیں اور جب خیالات میں ہم آہنگی ہو تو پھر اس دیوار کو کوئی نہیں توڑ سکتا ان قبائلیوں کی بستیوں پر حملے ہونگے تو وہ واپس آئیں گے ہی لیکن ہرقل ان کا ساتھ نہیں دے گا۔
اس صورت میں ابوعبیدہ تھوڑی سی کمک کے ساتھ ہرقل پر چڑھ دوڑے گا اور پھر ہرقل کے لئے یہی راہ نجات رہ جائے گی کہ وہ بحری جہازوں میں فوج کو لاد کر مصر کو روانہ ہوجائے۔
یہ بھی یاد رکھو کہ شام اب ہمارا ملک ہے اس ملک کے جو لوگ ہمارے دشمن کے پاس اس نیت سے گئے ہیں کہ وہ ہم پر جوابی حملہ کرے اور یہ لوگ اس کی مدد کریں گے تو یہ بغاوت ہے یہ لوگ باغی ہیں ،غدار ہیں ،اور ان کے دماغوں کو ٹھکانے پر لانا ہمارا حق بھی ہے فرض بھی۔
*جاری ہے*
*رمضان مبارک*
*پاک ترک میڈیا فورم*
Tags:
CURRENT AFFAIRS