MERA JISM MERI MARZI

*میرا جسم میری مرضی*

*100%  A G R E E D*


تحریر: سید جواد حسین نقوی


ظاہر ہے جس کا جسم ہے اسکی مرضی۔ ہم اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ ہم اپنی مرضی سے کپڑے خریدتے ہیں اپنی مرضی سے اور اپنی پسند کے درزی سے سلواتے ہیں۔ میں ناشتے میں کیا کھاؤں گا دوپہر اور رات کو کیا کھاؤں گا میری مرضی۔ کونسا چینل اور کون سا پروگرام دیکھوں گا میری مرضی۔ کونسا موبائل خریدوں کونسا رنگ ٹون رکھوں میری مرضی۔ وغیرہ وغیرہ، کسی بات پر کیا اعتراض، اپنی ہی مرضی چلائی جاتی ہے اور کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہوتا۔
اسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ میں آزاد ہوں اس لیے میری مرضی۔ میں کیوں دوسروں کی مرضی سے جیُوں؟
اس لیے معذرت کے ساتھ میرے بھائیو میری بہنو! میں اس نعرے سے بلکل متفق ہوں کہ *میرا جسم میری مرضی)MARVI SARMAD)* اور آپکو آپکی مرضی کرنے سے کسی نے آج تک روکا بھی نہیں
مگر کیا یہ بات اتنی ہی سادہ ہے اور  یہاں پر ہی ختم ہو جاتی ہے؟ تو جواب ہے *نہیں*

کیونکہ جب تم سڑک پہ نکل کر بیہودہ، فحش اور شرمناک ترین نعروں کے زریعے خود کو ایک بے شرم، بے حیا، بےغیرت اور فحاشی و عریانی کے کلچر  کا نمائندہ بنا کر اس تباہ کن کلچر کو زبردستی میرے ملک میں لانا چاہو گے تو پھر اب معاملہ تیرے جسم اور تیری مرضی سے نکل کر دوسرے کی زندگی میں مداخلت تک چلا جائے گا تو اب صرف تیری ہی نہیں دوسروں کی بھی مرضی چلے گی۔ تیری آزادی اگر دوسرے کی انفرادی یا اجتمائی زندگی کو  متاثر کرے تو پھر دوسرے کی بھی مرضی چلے گی۔ تیری زبان درازی اور تیری آوارگی کی خواہش کو کوئی گالی دیدے تو پھر اسی نعرے کے مطابق اتنی تو اسے بھی اجازت ہونی چاہیئے کیونکہ اس کی زبان اس کی مرضی۔

اب واپس آتے ہیں *میرا جسم میری مرضی* کی بات پر، تو آخر تمہیں اپنے جسم کی عریانیت اور فحاشیت میں ہی اپنی مرضی کیوں معاشرے میں عام کرنی ہے؟
خود کو سر عام گولی مار دو پھر کہو میرا جسم میری مرضی۔۔۔۔
دس منزلہ عمارت سے چھلانگ مارو اور میرا جسم میری مرضی۔۔۔۔
ریلوے ٹریک پر جاکر خودکشی کردو اور کہو میرا جسم میری مرضی۔۔۔۔
شیشے یا بلیڈ سے اپنی نبض کاٹ دو اور کہو میری مرضی۔۔۔۔
آخر جسمانی بے راہ روی ہی کیوں۔۔۔۔۔ !؟
تو سمجھ میں آیا کہ *میرا جسم میری مرضی* کا مسئلہ نہیں ہے یہاں کسی اور کا ایجنڈا چل رہا ہے اور ڈوری کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔
اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو بات بلکل واضح ہے۔
گنتی کی چند بے ہودہ، بےحیا اور بدزات عورتیں ایک سڑک پر چند منٹوں کیلیے اپنے جسم کی نمائش کرنا چاہتی ہیں تاکہ اس فحاشی کے کلچر کو مسلمان معاشروں میں داخل کرکے مسلمان معاشروں کو بھی تباہ و برباد کیا جا سکے اور ہمارا مغرب زدہ میڈیا ایک ہفتے سے مسلسل دن رات یہی بحث چھیڑے ہوئے ہے۔ آخر کیوں۔۔؟؟؟؟؟
اس میڈیا کو ملک کی مہنگائی، بدامنی، جائز حقوق کی جدوجہد کیوں نظر نہیں آتی؟ شیعہ مسنگ پرسنز کی رہائی کیلیے مہینوں سے دھرنے پر بیٹھی مائیں بہنیں بیٹیاں اور انکی آہ و فغاں اور سسکیاں انہیں کیوں نہیں سنائی دیتی؟؟؟؟
ہندوستان میں مسلمانوں کے قتل عام پر بات کیوں نہیں ہو رہی۔ یمن اور فلسطین اس بے غیرت میڈیا کو کیوں نظر نہیں آتے ان پر بات کیوں نہیں ہوتی؟؟؟
ان کو خود کو ننگا کرنے والی چند عورتیں اور انکے خود ساختہ حقوق تو سمجھ میں آتے ہیں مگر دوسری جانب ہندوستان میں ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو قتل کیا جارہا ہے انکی عزتیں تار تار ہو رہی ہیں بچے ذبح کر کے وڈیوز بنائی اور وائرل کی جاری ہیں مردوں کو ٹارچر دے کر مارا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔
ہمارے ملک میں *میرا جسم میری مرضی* کا اشو اٹھا کر کہیں ہمیں اصل بات سے ہٹایا تو نہیں جارہا؟
خدارا سنجیدگی سے غور کریں اور دشمن کی سازش کو سمجھیں کہ وہ آپکو کس بے ہودہ بحث میں الجھا کر اپنا کام کیے جا رہا ہے۔۔۔
میں کسی کی آزادی کا مخالف نہیں ہوں۔ بقول ایک دوست کے آپ کی *آزادی اور مرضی* میری ناک کے قریب تک آگئی تو پھر یاد رکھنا وہاں سے میرے *اختیارات* کی حد بھی شروع ہوجائے گی۔
کون کتنا آزاد ہے اور کس کی کتنی مرضی چل سکتی ہے امیرالمؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام نے بہت ہی خوبصورت انداز میں سمجھا دیا۔
آیک شخص آیا اور سوال کیا اے امیر المؤمنین انسان کتنا آزاد ہے؟
آپ عہ نے فرمایا "ایک پاؤں اوپر اٹھاؤ اور دوسرے پاؤں پہ کھڑے ہوجاؤ۔"
وہ شخص ایک پاؤں پر کھڑا ہو گیا۔
پھر آپ عہ نے فرمایا "اب دوسرا پاؤں بھی اٹھالو تو اس نے کہا یہ تو میرے بس میں نہیں ہے اور میں گر جاؤں گا"
تو آپ ع نے فرمایا *پس سمجھ جاؤ کہ انسان کتنا آزاد ہے اور کتنا پابند"

دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو ہدایت دے اور اس طرح کے فتنے اور ان کے شر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ان شآءٙ اللہ۔
والسلام علیکم ورحمة اللہ



Post a Comment

if you have any doubt please let me know

Previous Post Next Post