SIBTAIN ABBAS SAQI A REALITY BASED COLUMN IN URDU

SIBTAIN ABBAS SAQI A REALITY BASED COLUMN IN URDU


SIBTAIN ABBAS SAQI A COLUMNIST





 ایک سجدہ جو قضا ہوا

سبطین عباس ساقی

تقسیم ہند یعنی آزادی کے بعد ممبئی سے کراچی آمد کے حوالے سے قدرت اللہ شہاب "شہاب  نامہ"میں لکھتے ہیں "جب ائیر انڈیا کا وائی اکاونٹ جہاز کراچی کے ہوائی اڈے پر لینڈ ہوا تو میرا خیال تھا کہ ہم سب مسافر ارض پاک پر سر کے بل اتریں گے اور اترتے ہی اپنی جان اور ایمان سلامت لے آنے پر باجماعت سجدہ شکرانہ ادا کریں گے۔لیکن جہاز سے نکلتے ہی ہمیں نفسا نفسی کے آسیب نے دبوچ لیا اور ہم ایک دوسرے سے ٹکراتے، ایک دوسرے کو پچھاڑتے، ایک دوسرے سے دھکم دھکا ہوتے اپنے اپنے سامان کی تلاش میں سرگرداں ہو گئے۔سامان وصول کرکے ہم اسے سینے سے لگا کر بیٹھ گئے اور آج تک اسی سامان کو بڑھانے،سجانے اور چمکانے میں دل و جان سے مصروف ہیں۔جو سجدہ شکرانہ کراچی ائیر پورٹ پر قضا ہو گیا تھا سامان کے جھمیلے میں وہ اب تک واجب الادا آ رہا ہے"

آج قدرت اللہ شہاب کے تخلیق شدہ الفاظ سچ ثابت ہو رہے ہیں۔ آنکھوں پر حرص و لالچ کی پٹی بندھ چکی ہے۔"میں" نے دل میں بسیرا کرلیا ہے۔عاجزی و انکساری راہ دیکھتے رہ گئے مگر ہمیں ان کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔کتنے المناک و ہولناک واقعات و سانحے سرزد ہوئے۔مگر ہم صرف مذمت ہی کرسکے۔ہم ان پر ترانے ہی لکھ سکے۔ہم سیاہ پٹیاں ہی باندھ سکے۔ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ظاہری طور پر چند روز سر جوڑ کر بیٹھے مگر سب بے نتیجہ رہا۔کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے خلاف ہر سیاسی پارٹی نے احتجاج ریکارڈ کروایا مگر برسر اقتدار آتے ہی سابقہ حکومتوں کی طرح چپ سادھ لی۔بھارت کشمیر پر مسلط رہا اور بھارتی حکومتیں کشمیر پر غاصبانہ قبضے کی بنا پر بنتی رہیں جبکہ ہمارے ہاں "کشمیر بنے گا پاکستان" اور دیگر نعروں نے سیاسی جماعتوں کی راہیں ہموار کیں۔کشمیری جدوجہد کی کامیابی یقینی ہے مگر ہماری سیاسی جماعتوں نے کشمیر کے لیے نعرے لگانے کے کیا کیا؟؟

مہنگائی اور بے روزگاری پاکستان کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔مہنگائی کے آسیب نے تاحال ہمیں جکڑ رکھا ہے۔نوبت فاقوں تک آگئی مگر ہم جلسے جلوسوں میں صرف نعرے بازی کرنے تک ہی محدود ہیں۔مہنگائی کے خاتمے کا نعرہ لگانے والا ہمارا لیڈر ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا مہنگائی کا خاتمہ کسی معجزے سے ممکن ہے؟ ہر سیاسی جماعت اپنے حریف کو بد عنوان،کرپٹ،ضمیر فروش بلکہ کبھی کبھار تو بات کشمیر فروش،ایمان فروش،یہودی ایجنٹ،غدار یہاں تک کہ چور و ڈاکو کے القابات سے نوازتی ہے۔اپنے آپ کو معصوم ثابت کرنے کا کوئی ذریعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ہر سیاسی جماعت کا عہدیدار دوسری جماعتوں کو تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔مگر افسوس عوام اصلی ذمہ دار کے میک اپ میں چھپے چہرے سے انجان ہیں۔آخر کون ہے یہ؟؟ اگر اپنے گریبانوں میں جھانکا جائے تو اس کا جواب ملنا مشکل نہیں۔ہم ذہنی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں۔ان جماعتوں نے ہمارے اذہان میں ایک ہی بات ڈالی ہے اور وہ یہ کہ مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ صرف وہی کر سکتے ہیں۔چلیں مان لیتے ہیں مگر کیسے؟؟کیا صرف اہل اقتدار ایسا کر سکتے ہیں؟؟کیا کبھی کسی نے پوچھنے کی زحمت کی؟؟نہیں بلکل نہیں۔بلکہ ہمارے مطابق تو حکومت سب کچھ کر سکتی ہے۔

حکومت قانون بناتی ہے۔ملک کی ترقی کے لیے سوچ و بچار کرتی ہے۔لیکن عوام کی کیا ذمہ داری ہے؟؟عوام کیا بناتے ہیں؟؟عوام انہی سیاسی جماعتوں کو  با اختیار کرتے ہیں۔اپنے مستقبل کا رہنما منتخب کرتے ہیں۔مگر کس سوچ کی بنا پر؟؟

آج سے تہتر سال قبل جب کانگرس لارڈ مونٹ بیٹن کو بھارت کا پہلا گورنر جنرل بنانے پر آمادہ ہوئی تو آل انڈیا مسلم لیگ نے پاکستان کے لیے صاف انکار کردیا۔مگر کیوں؟؟؟کیونکہ قائداعظم محمد علی جناح جانتے تھے کہ لارڈ ویول کے خلاف سازشیں کرکے برطانوی حکومت کی جانب سے مونٹ بیٹن کو بطور وائسرائے مقرر کرنا اپنی دھاک بٹھانا تھا۔انہیں ایسا وائسرائے چاہیے تھا جو ان کی مرضی کے فیصلے کرے۔قائد جانتے تھے کہ مونٹ بیٹن کو گورنر جنرل تسلیم کرکے ہم آزادی سے دوبارہ غلامی کی دلدل میں پھنس جائیں گے۔کیونکہ لارڈ مونٹ بیٹن کٹھ پتلی گورنر جنرل ہوتا جبکہ حقیقت میں کانگرس مسلط ہوتی۔مگر آج ہم سیاسی جماعتوں کو برسر اقتدار کرکے پچھتاوہ کررہے ہوتے ہیں۔ایک ہی غلطی کو بار بار دہراتے ہیں اور الیکشن کے بعد یاد آتا ہے کہ اسے تو منتخب ہی نہیں کرنا تھا۔اس نے تو گزشتہ دور حکومت میں ایسا کیا تھا۔

ہم وہی قوم ہیں جس نے ستاون کی جنگ آزادی کے بعد نوے سال کی مسلسل جدوجہد سے پاک سرزمین کے قیام کو سچ کر دکھایا۔تکالیف و مصائب کو بخوشی سہا اور قربانیوں سے دریغ نہ کیا۔ لیکن آج ہم معاشرے کو خود سا بنانے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ہماری نسلیں سیاست دانوں کی غلامی میں گزر گئیں ہم غلامی کے درجات میں بلندی کی تگ و دو میں مشغول ہیں اور آزادی کے لیے سجدہ شکرانہ ادا کرنے سے تاحال محروم ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آزاد ہو کر بھی آزادی میسر نہیں۔آزادی پر شکرانے کا سجدہ قضا کرکے ہم نے غلامی سے نجات کو ترک کر دیا ہے۔جس سے انقلابی سوچ رستہ بدل چکی ہے۔کاش ہم آزادی کا مطلب سمجھ پائیں!کاش ہم ملکی ترقی کے لیے کچھ کر سکیں! 

اے کاش!

Post a Comment

if you have any doubt please let me know

Previous Post Next Post