خود شناسی اور میں Self-knowledge and I by Sibtain Abbas Saqi

 خود شناسی اور میں Self-knowledge and I by Sibtain Abbas Saqi 



خود شناسی اور "میں"

تحریر:سبطین عباس ساقی

انسان اشرف المخلوقات ہے۔خدائے ذوالجلال نے انسان کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ انسان نے خود کو پہچان کر ہواوں میں اڑنا سیکھ لیا۔انسان چاند تک پہنچ گیا۔پانی میں تیرنا سیکھ لیا اور سمندروں کی گہرائی تک پہنچ گیا۔بلند و بالا عمارتیں بنا لیں۔ان عمارتوں میں بے خوف زندگی بسر کرنے لگا۔خون خوار جانوروں کو اپنا تابع کر لیا۔حتی کہ ہر ناممکن کو ممکن بنا لیا۔

سوائے موت کے بیشتر امراض کا علاج دریافت کر لیا۔انسان نے خود کو پہچانا اور سوچنا شروع کیا کہ دنیا کی تمام تر نعمتیں کس نے عطا کیں۔سائنس کے میدان میں کامیابی و کامرانی کس نے عطا فرمائی۔اسی طرح وہ خود شناس کے ساتھ ساتھ خدا شناس ہوگیا۔یعنی خود شناسی خدا شناسی کے لیے پہلا اور اہم قدم ہے۔اگر خدا کو پہچاننا ہے تو خود کی پہچان ضروری ہے۔انسان کا ہر عضو اس کے لیے اہم ہے۔اسی وجہ سے انسان خدا کا شکر بجالاتا ہے۔

یقینی طور پر جب تک انسان تنہا رہتا ہے۔اس میں خود اعتمادی و خود شناسی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔وہ اپنی ذات کو پر اعتماد بناتا ہے اور اسے اپنی ذات کی پہچان ہوتی ہے۔لیکن جب اس کا علم شیطان کو ہوتا ہے تو وہ اسے انا پرستی اور غرور و تکبر میں مبتلا کر دیتا ہے۔جو تاحیات اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔اسی انا پرستی نے سائنس کی دنیا میں ہلچل مچا کر رکھ دی ہے۔لفظ "میں" نے لاکھوں جانیں نگل لی ہیں۔نجانے کرنے افراد چلنے کے قابل نہیں رہے۔انسان نے سائنس کے میدان میں ترقی کی بے شمار منازل طے کیں مگر جونہی اس کے ذہن میں لفظ "میں" نے جنم لیا۔وہ دوسروں کی تباہی کے اسباب پیدا کرنے لگا۔انہیں نیست و نابود کرنے کا سوچنے لگا۔اسی بے مقصد جنگ میں وہ اپنے ضمیر،وقت اور زر کا قاتل بن گیا۔

اکثر "میں" اپنے سے کمزور لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آج کے انسان کا خود شناسی و خدا شناسی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی انسان نے اس کی کبھی کوشش کی ہے۔
لیکن خدائے مطلق کی لاٹھی بے آواز ہے۔یہ کمزور لوگوں کی ساتھی بن کر "میں" کے خلاف کلمہ حق بلند کرتی ہے۔اہل "میں" اس سے بچ نہیں سکتے۔بلکہ اس کے سامنے لاغر دکھائی دیتے ہیں۔

آج کا انسان اگر خود شناس ہو تو ولی کہلائے گا۔مگر افسوس کہ ایسے انسان دنیا میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔آج طاقت و دولت کا نشہ انسان میں "میں" کا مادہ ڈال دیتا ہے۔جسے نکالنے کے لیے ضمیر کو جھنجھوڑنا ضروری ہوتا ہے۔لیکن افسوس کہ آج کا انسان صرف "میں" میں ہی خوش ہے۔آج غربت کا نام صرف "میں" کے مطابق زندگی بسر نہ ہونے کو کہتے ہیں۔

بلا شبہ آج کے انسان کو خود شناسی و خدا شناسی کی اہم ضرورت ہے۔ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک کی کورونا کے معاملے میں بے بسی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔مگر افسوس ہم آج بھی غافل ہیں۔خدارا خود کو پہچانیں۔خود شناسی سچ کو مفادات پر فوقیت دینے کا نام ہے۔حق کا بول بالا کرنے کا نام ہے۔سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے کا نام ہے۔اس جدید دور میں ہم اڑ رہے ہیں ، تیر رہے، چل رہے ہیں مگر افسوس کہ ہم خود کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔"میں" نے ہمیں گھپ اندھیروں میں دھکیل کر رکھ دیا ہے۔جہاں سے نکلنا ہمارے لیے بے حد مشکل ہے۔

    RELATED POSTS

Post a Comment

if you have any doubt please let me know

Previous Post Next Post