MrJazsohanisharma

EPISODE 19 AND NILE FLOWING ON A THRILLING HISTORICAL NOVEL

NEW EPISODE OF OR NEEL BEHTA RAHA NO 19  URDU NOVEL

episode 19,ep 19,demon slayer episode 19,kimetsu no yaiba episode 19,demon slayer 19,plunderer ep 19,suno chanda season 2 episode 19 hum tv,episode 19 anges,aatish episode 19,udaari episode 19,saison 2 episode 19,kimestsu no yaiba 19,drama ehd-e-wafa 19,plunderer episode 19,mann mayal episode 19,plunderer ep 19 eng sub,ehd-e-wafa episode 19,shri krishna episode 19,zara yaad kar episode 19,ehd-e-wafa | episode 19,jo tou chahay episode 19,abad kejayaan episode 19,pyaar lafzon mein kahan 19




episode 19,ep 19,demon slayer episode 19,kimetsu no yaiba episode 19,demon slayer 19,plunderer ep 19,suno chanda season 2 episode 19 hum tv,episode 19 anges,aatish episode 19,udaari episode 19,saison 2 episode 19,kimestsu no yaiba 19,draMA

*اورنیل بہتارہا*
*قسط نمبر/19  
مرتب؛ *محمدساجداشرفی*


_____________________________________________

اس وقت روزی نیل سے بہت دور نکل گئی تھی ۔اویس اور اس کے ساتھی کوئی ایسے مسافر تو نہیں تھے جن کے پاس نہ پیسہ ہو نہ کوئی اور وسیلہ، وہ جاسوس تھے ان کے پاس رقم بھی تھی عقل بھی تھی انہوں نے کرائے کے اونٹ لے لیے اور قوص جا پہنچے۔
قوص ان عیسائیوں کا مرکز تھا جو ہرقل اور قیرس کی عیسائیت کے خلاف برسر پیکار تھے۔ یہاں بھی ان تینوں نے اپنے آپ کو عیسائی ظاہر کیا انہوں نے روزی کو اس طرح چادر میں لپٹا ہوا تھا کہ اس کا چہرہ تھوڑا سا ہی دکھائی دیتا تھا۔
اونٹوں نے انہیں جلد ہی قوص پہنچا دیا تھا شام گہری ہو گئی تھی انہیں رات وہیں گزارنی تھی ۔وہاں سرائے موجود تھی وہ سرائے میں چلے گئے کھانے کے بعد باتیں کرنے بیٹھ گئے۔
اب بتاؤ روزی!،،،، ایک مجاہد جاسوس نے اس سے پوچھا ہمارے متعلق تمہارے دل میں کوئی شک تو نہیں؟ 
نہیں !،،،،روزی نے کہا۔
اسے کوئی شک ہونا بھی نہیں چاہیے وہ گزشتہ رات سے ان کے ساتھ تھی اگر یہ تینوں بدنیت ہوتے تو اب تک عملا بدنیتی کا ارتکاب کر چکے ہوتے زیادہ خطرہ اویس کی طرف سے تھا ۔روزی نے اسے یوکلس کے مقابلے میں دھتکار دیا تھا ،اویس سوچ سکتا تھا کہ انتقام لینا اس کا حق ہے لیکن اس نے روزی کے ساتھ سلوک برتاؤ اور انداز ایسا رکھا جیسے روزی نوخیز اور حسین لڑکی نہیں بلکہ اس کا کوئی مجاہد رفیق ہو۔
اویس!،،،، روزی نے کہا ۔۔۔۔تم نے کہا تھا کہ تمہیں مسلمانوں نے نئی زندگی دی اور تم نے دیکھا کہ مسلمانوں نے تمہیں احسان نہیں جاتا یا بلکہ اسلام کا حکم ہی یہی ہے تو تم نے اسلام قبول کر لیا ۔اب تم نے اور تمہارے ان ساتھیوں نے مجھے نئی زندگی دی ہے، مجھے پتہ چل گیا تھا کہ اب میرے ہاتھ باندھ کر دریا میں پھینک دیں گے ،تم نہ آجاتے تو اس وقت میری لاش کو دریائے مخلوق نوچ رہی ہوتیں۔
اللہ کا حکم تھا تم زندہ رہو گی۔۔۔۔ اویس نے کہا۔۔۔ اللہ نے اس کا سبب یہ بنایا کہ مجھے وہاں بھیج دیا جہاں تمہاری زندگی اور موت کا فیصلہ ہو رہا تھا ہم تینوں وہاں اللہ کے بھیجے ہوئے پہنچے تھے تمہیں میں نے نہیں اسلام نے نئی زندگی دی ہے۔
پھر مجھے اسلام میں داخل کر لو اویس!،،،، روزی نے کہا ۔۔۔اور اس کے آنسو بہہ نکلے پھر بولی مجھے ذرا سی بھی توقع نہیں تھی کہ تم مجھے بخش دو گے میں تم سے اور تمہارے ان ساتھیوں سے اتنی متاثر ہوئی ہوں کہ باقی عمر تمہارے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ابھی نہیں روزی!،،،، اویس کی پارٹی کے سردار نے کہا ۔۔۔تم اپنے ماں باپ کے پاس پہنچو گی تو ہوسکتا ہے تمہارے خیالات بدل جائیں، یہاں تم خوف و ہراس کی کیفیت میں ہوں اور تم کمسن بھی ہو ہم تمہیں تمہارے ماں باپ کے پاس پہنچا دیں گے وہاں آزادی سے فیصلہ کرنا۔
روزی فیصلہ کرچکی تھی۔ تینوں مجاہدین نے اسے کہا کہ اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ آزادی سے کیا جاتا ہے لیکن وہ رو پڑی کہتی تھی ماں باپ کے پاس جائے گی ہی نہیں۔ اویس نے اسے بتایا تھا کہ وہ تجارت کے سلسلے میں مصر آئے ہیں ، روزی کی ضد یہ تھی کہ وہ ان کے ساتھ واپس جائے گی۔
اسے بتایا نہیں جاسکتا تھا کہ ان تینوں کا مشن کچھ اور ہے اور وہ اسے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔
 لیکن روزی کی ضد اور آہ وزاری نے انہیں پریشان کر دیا اس نے آخر یہ کہہ دیا کہ وہ اب مسلمان ہے عیسائی نہیں۔
مجاہدین کے لئے روزی نے ایسا مسئلہ کھڑا کردیا کہ ان کے لئے کوئی راہ فرار نہ رہی روزی اعتماد اور جرات کے ساتھ بات کرنے والی لڑکی تھی وہ کسی پہلو ڈرپوک لڑکی نہیں تھی۔
 جماعت کے امیر نے ساتھیوں سے صلاح مشورہ کر کے روزی کو اپنے ہاتھ پر مسلمان کر لیا اور اس کا نام رابعہ رکھ دیا اسے معلوم تھا کہ غیر مسلم کو کس طرح اسلام میں داخل کیا جاتا ہے۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ رابعہ کو اپنی اصلیت اور مشن سے آگاہ کیا جائے یا نہیں۔
 اسلام کے احکام ایسے تھے کہ وہ ایک دوشیزہ کو اس کے حال پر نہیں چھوڑ سکتے تھے ۔اب تو یہ لڑکی مسلمان ہو گئی تھیں بہت ہی غوروفکر کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ رابعہ کو اپنے راز میں شریک کرلیا جائے۔
تینوں نے رابعہ کو پاس بٹھا کر بتایا کہ وہ مصر میں کیا کرنے آئے ہیں۔ اور وہ قبطی پادری بنیامین سے ملنے جا رہے ہیں اس پر یہ ظاہر نہیں ہونے دیا جائے گا کہ وہ مسلمان ہیں۔ بلکہ یہ بتایا جائے گا کہ ہم قبطی عیسائی ہیں اور شام کے عیسائی سرداروں کا پیغام لائے ہیں۔
میں ہر طرح سے تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔ رابعہ نے کہا ۔۔۔جان بھی دے دوں گی لیکن اس طرح نہیں کہ مجھے نیل میں ڈوبو دیا جائے یہ بھی سوچ لو کہ جس کے پاس جا رہے ہو وہ قبطی ہے اس کے پاس اور لوگ بھی آتے ہونگے کسی نے مجھے پہچان لیا تو پھر میں ان سے بچ نہیں سکوں گی۔
یہ بھی ایک مسئلہ تھا مگر ان کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود نہیں تھا انھوں نے یہ مسئلہ اللہ پر چھوڑ دیا۔

بنیامین روپوشی کی حالت میں تھا اس لئے اس کا ٹھکانہ معلوم کرنا آسان کام نہیں تھا ۔یہ تینوں جاسوس تھے انہوں نے کسی طریقے سے اپنی اس منزل کا سراغ لگا لیا تھا۔ وہ جگہ دور نہیں تھی لیکن علاقہ دشوار گزار تھا۔ ریتیلے ٹیلے اور گھاٹیاں تھیں ،کہیں زمین نیچے اور کہیں اوپر چلی جاتی تھی۔
وہ دن کے پچھلے پہر وہاں پہنچ گئے وہ چھوٹا سا نخلستان تھا جیسے جلتے جھلساتے ہوئے جہنم میں چھوٹی سی جنت ہو ۔
ایک گرجا تھا اس کے اردگرد چھوٹے بڑے خیمے لگے ہوئے تھے گرجا پتھروں اور گارے کا بنایا گیا تھا۔ بنیامین گرجے کے ایک کمرے میں رہتا تھا اسے اطلاع دی گئی کہ تین آدمی اور ایک لڑکی آئیں ہیں ۔  بنیامین نے انہیں اسی وقت بلا لیا۔
تین مجاہدین کی اس جماعت کے امیر نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ حلب کے رہنے والے عیسائی ہیں، اور قبطی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، رابعہ کا تعارف اس طرح کرایا کہ یہ اویس کی بیوی ہے ابھی ابھی ان کی شادی ہوئی ہے ،اور رابعہ مصر دیکھنے اور بنیامین سے ملنے کو بے تاب تھی،،،،،انہوں نے اپنے نام عسائیوں والے بتائے ۔ ہر ایک نے اپنے گلے سے چھوٹی سی صلیب لٹکا رکھی تھی۔
کیا آپ مجھے صرف ملنے آئے ہیں؟۔۔۔ بنیامین پوچھا ۔۔۔یا کوئی اور بات ہے آپ کے ملک شام میں عیسائی کس حال میں ہیں؟ 
ہم شام سے صرف آپ سے ملنے آئے ہیں۔۔۔ امیر جماعت نے کہا۔۔۔۔ اور ایک خاص بات بھی ہے ۔۔۔شام میں رومیوں نے عیسائیوں کو بہت بڑا دھوکا دیا ہے ہم تیس ہزار کا لشکر بن کر ہرقل کے پاس گئے کہ رومیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر حملہ کریں گے لیکن ہرقل اور اس کے بیٹے قسطنطین نے ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہمارے سرداروں نے فیصلہ کیا کہ ہم مسلمانوں سے دشمنی مول لے کر آئے ہیں مگر رومی ہمیں آگے کرکے خود بھاگ نکلنے کی فکر میں ہیں،،،،، 
رومیوں کے کہنے اکسانے پر ہم نے مسلمان فاتحین کے خلاف بغاوت کر دی رومی پھر بھی ہماری مدد کو نہ آئے ہم مسلمانوں کا مقابلہ نہ کرسکے اور ہتھیار ڈال دیے مسلمان ہمارا قتل عام کرسکتے تھے ہمارے بیٹیوں کو لونڈیاں بنا لیتے اور ہماری حیثیت غلاموں جیسی بنا دیتے تو انہیں کون روک سکتا تھا لیکن انہوں نے ایسی کوئی ظالمانہ حرکت نہیں کی ۔ انہوں نے اپنے آپ کو فاتح اور ہمیں مفتوح اور محکوم سمجھا ہی نہیں نہ ہمارے مذہب میں دخل اندازی کی ہے نہ کریں گے۔
میں مسلمانوں کے کردار سے واقف ہوں ۔۔۔بنیامین نے کہا۔۔۔ شام میں رومیوں کی شکست کی وجہ یہ ہے کہ یہ بد کار لوگ ہیں اور مصر میں انھوں نے اپنی ہی ایک عیسائیت رائج کردی ہے تمھیں یہ تو معلوم ہو گیا ہوگا کہ میں یہاں روپوش ہوں۔
 میں شام کے عیسائیوں کے لئے  کر ہی کیا سکتا ہوں۔
ہم آپ سے مدد لینے نہیں آئے ۔۔۔امیر جماعت نے کہا۔۔۔ ہم مصر کے عیسائیوں کی مدد کرنے آئے ہیں۔
وہ ہماری کیا مدد کرسکتے ہیں؟ ۔۔۔بنیامین نے پوچھا۔
ہمارے سرداروں اور پادریوں کو مصر کے حالات معلوم ہے۔۔۔ امیر جماعت نے کہا۔۔۔ مصر میں کچھ عیسائی خاندان بھاگ کر شام چلے گئے ہیں انہوں نے وہاں جا کر بتایا کہ مصر میں عیسائیوں پر کس طرح ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں ہمارے سرداروں کے لئے یہ تو ممکن ہی نہیں کہ وہ لشکر تیار کرکے مصر پر حملہ کر دیں، انہوں نے ایک مسلمان سپہ سالار عمرو بن عاص کے پاس ایک وفد بھیجا،،،،،  
وفد میں دو معمر پادری بھی تھے۔ وفد نے اس مسلمان سپہ سالار کو مصر کے عیسائیوں کی مظلومیت اور کسمپرسی سے آگاہ کیا ،اور کہا کہ مسلمان عیسائیوں کی مدد کریں تو ملک کے شام کے عیسائی تیس سے چالیس ہزار تک کا لشکر دے دیں گے۔
 امیر جماعت نے یہاں سے بات شروع کی اور بولتا ہی چلا گیا ۔بنیامین انہماک سے سنتا رہا یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اسے یہ بات اچھی لگ رہی ہو، امیر جماعت کا مدعا یہ تھا کہ مصر کے عیسائی بغاوت کردیں تو مسلمان مصر پر حملہ کر دیں گے، اگر بغاوت نہ کرے تو حملے کی صورت میں وہ مسلمانوں کی مدد کریں عمرو بن عاص نے اپنے تین مجاہدین کو جو مشن دیا اور جو ہدایت دی تھی امیر جماعت نے ان کے مطابق بات کی۔
میں ایک بات اور کہوں گا ۔۔۔امیر جماعت نے کہا ۔۔۔یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ عیسائی فرقوں میں بٹ گئے ہیں یہ صورتحال عیسائیت اور عیسائیوں کے اتحاد کے لئے بہت ہی خطرناک ہے ،عیسائیت کو نقصان پہنچا رہی ہے کےایک کنواری کو دریائے نیل میں پھینک دیا جاتا ہے یہ بدعت قبطی عیسائیوں میں پائی جاتی ہے۔
 کیا آپ اس ظالمانہ رسم کو روک نہیں سکتے؟،، 
میں اس رسم کو صحیح نہیں مانتا۔۔۔ بنیامین کہا ۔۔۔میں یعقوبی فرقے کا قبطی ہوں۔ یعقوبی اس رسم کو قتل جیسا گناہ سمجھتے ہیں لیکن میں ابھی اس بحث میں پڑنے سے گریز کر رہا ہوں لڑکی کی قربانی دینے والے قبطی بھی مجھے اپنا پیشوا مانتے ہیں اور ہرقل کے خلاف ہم نے جو محاذ بنایا ہے اس پر میری ہر ہدایت  پر عمل کرتے ہیں۔
 اگر میں نے یہ حکم جاری کردیا کہ لڑکی کی قربانی گناہ ہے تو کم فہم اور کٹر قبطی نہیں مانیں گے اور تفرقہ پیدا ہوجائے گا ۔
 اس کا نتیجہ ہ۔ارے محاذ کیلئے اچھا نہیں ہوگا،،،، ابھی تم وہ بات کرو جس کے لئے آئے ہو۔
وہ بات تو ہو چکی ہے۔۔۔ امیر جماعت نے کہا۔۔۔ ہمیں آپ کے جواب اور حکم کی ضرورت ہے جو ہم اپنے سرداروں تک پہنچائیں گے۔
اپنے سرداروں تک نہیں۔۔۔ بنیامین نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ اپنے سالار عمرو بن عاص تک تم یہ پیغام پہنچاؤ گے تم نے اتنی زیادہ باتیں کی ہیں کہ تم نے اپنے اوپر جو پردہ ڈال رکھا تھا وہ اتنا زیادہ سرک گیا کہ میں نے تمہاری اصلیت دیکھ لی، اس لڑکی کو دیکھ کر میں سوچ رہا ہوں کہ تم اسے اپنے ساتھ کیوں لئے پھرتے ہو مسلمان عورت کو میدان جنگ میں نہیں لڑاتے نہ عورت کو جاسوسی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
میں نومسلم ہوں ۔۔۔رابعہ نے کہا ۔۔۔کل اسلام قبول کیا ہے شام کے شہر حلب کی رہنے والی ہوں۔
رابعہ پر جو بیتی تھی وہ اس نے سنا دی کوئی بات چھپائی نہیں نہ مبالغہ آمیزی کی۔
 ان مسلمانوں نے اپنے فرائض سے ہٹ کر مجھے نئی زندگی دی ہے۔
 رابعہ نے آخر میں کہا ۔۔۔میں ان کے کردار سے اتنی متاثر ہوئی کہ ان کا مذہب قبول کر لیا انہوں نے مجھے ایک مقدس اور پاک چیز جان کر مجھے اپنے ساتھ رکھا۔
 اور میں بھی نومسلم ہوں۔۔۔ اویس نے کہا۔۔۔ اپنی جان اسلام کے لئے وقف کر دی ہے اویس نے بنیامین کو سنایا کہ اس نے کیوں اسلام قبول کیا تھا۔
تاریخ داں ایلفریڈ بٹلر اور عربی مؤرخوں نے بنیامین کی شخصیت کا جو عکس پیش کیا ہے وہ ایک ہی جیسا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بنیامین مصر کے قبطیوں کا اسقف اعظم تھا ،لوگ دل و جان سے اس کی تعظیم و تکریم کرتے تھے، بنیامین تھا ہی عظیم الشان اور غیرمعمولی طورپر دانشمند ،اس کے کردار کی بنیاد نیکی اور بنی نوع انسان کی بھلائی اور محبت تھی، عیسائیت کے ان مذہبی پیشواؤں اور قبائل کے سرداروں کا جانی دشمن تھا ،جو ہرقل کی سرکاری عیسائیت کے پیروکار تھے  اس کی فہم و فراست اور دور بین نگاہیں مستقبل کے پردے چاک کر سکتی تھیں۔
 اپنے سپہ سالار سے کہنا ۔۔۔بنیامین نے کہا ہرقل ہمارا مشترکہ دشمن ہے اگر آپ مصر پر فوج کشی کریں گے تو ایسا ہوگا ہی نہیں کہ عیسائی ہرقل کا ساتھ دیں گے ہم اس وقت کو نہیں بھولے جب فوکاس قیصر روم تھا۔ عیسائیوں کا تو وہ دشمن تھا ہرقل نے اس کے خلاف بغاوت کی تو ہم نے اس کا ساتھ دیا اور فوکاس کا تختہ الٹ کر ہرقل کو قیصر روم بنایا تھا۔
 ہرقل خود عیسائی تھا لیکن عیسائیوں کے تعاون اور ان کی قربانیوں کو نظر انداز کر کے اس نے عیسائیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ،عیسائیوں کے لیے وہ قصاب اور درندہ بن گیا ،اس کے حکم سے عیسائی کسانوں کا پیدا کیا ہوا اناج چھین کر بزنطیہ بھیج دیا جاتا ہے۔ عیسائیوں کو اس نے نیم فاقہ کش بنا کر ان پر ظالمانہ لگان عائد کردیا تھا،،،، 
 عیسائیوں پر جور و ستم کی داستان بہت طویل ہے، شام کے عیسائی قبائل کو ہرقل نے دھوکے دیے مسلمانوں کے سامنے انہیں ڈھال بنانا چاہا شام میں جو ہوا وہ مجھے معلوم ہے ،میں جانتا ہوں کہ مسلمان مفتوحہ ملک کے لوگوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے۔ محکوموں پر جور و استبداد کا تو ان کے ہاں تصور ہی نہیں ،جزیہ ادا کرکے ہر کوئی اپنے مذہب پر قائم رہ سکتا ہے۔
 میری نظریں آنے والے وقت کو دیکھ رہی ہیں مسلمانوں کا یہ رویہ قائم رہا تو عسائیت اپنے پیروکاروں کو اسلام کی آغوش میں ڈالنا شروع کر دی گی، اور مصر اسلامی ملک بن جائے گا ۔
رومی مصر میں نہیں ٹھہرسکیں گے مسلمانوں نے مصر پر فوج کشی کی تو یہاں کے عیسائی خاموش تماشائی بنے رہیں گے، اور یہ کوئی حیرت ناک بات نہیں ہوگی کہ روم میں اہل مصر کے ہم مذہب ہیں لیکن اہل مصر مسلمانوں کا استقبال کریں گے۔
 تم واپس چلے جاؤ ۔عیسائیوں کو رومیوں کے خلاف بھڑکانے کی کسی کوشش کی ضرورت ہی نہیں ہم بغاوت نہیں کریں گے ۔
ہمارے پاس رومیوں جیسی جنگی طاقت نہیں،   ہم رومیوں کو اس دھوکے میں رکھنا چاہتی ہیں کہ ہم ان کی وفادار رعایا ہیں۔

ان تینوں مجاہدین کا مشن کامیاب تھا۔ انہیں مصر کے کسی اور علاقے میں جاکر عیسائیوں کو بھڑکانے کی ضرورت نہیں تھی۔
 ان کے اسقف اعظم نے وہ کام کردیا جو یہ تینوں کرنے آئے تھے۔
 اویس کو تو کچھ زیادہ ہی کامیابی حاصل ہو گئی تھی، وہ بنیامین سے رخصت ہوئے رات قوص کے سرائے میں گزاری ش صبح طلوع آفتاب آفتاب سے بہت پہلے کرائے کے اونٹوں پر اسکندریہ کو روانہ ہوگئے ، انہیں خطرہ یہ نظر آ رہا تھا کہ پہچانے جائیں گے، رابعہ کو بھی پہچان لیں گے اسے اس سے چھین کر نیل میں پھینک دیں گے، وہ خوش قسمت تھے کہ انہیں ایک جہاز تیار مل گیا وہ اس جہاز میں سوار ہوئے اور جہاز روانہ ہو گیا۔
تاریخ سے یہ پتا نہیں چلتا کہ یہ تینوں مجاہدین کتنا عرصہ مصر میں رہے تھے اور جب عمرو بن عاص نے انہیں مصر بھیجا تھا اس وقت عمرو کہاں تھے، البتہ یہ واضح ہے کہ یہ مجاہدین واپس آئے تو اس وقت وہ بیت المقدس میں تھے ، مجاہدین کو راستے میں ہی کسی نے بتا دیا تھا۔
 انہیں عمرو بن عاص نے بھیجا تھا اس لئے وہ وہ بیت المقدس جاپہنچیں۔
 عمرو بن عاص نے اطلاع ملنے پر انہیں فوراً بلا لیا۔
کیا کرآئے؟،،،، سپہ سالار عمرو نے ان سے پوچھا۔
امیر جماعت میں تمام تر کرگزاری سنائی اور بنیامین نے جو باتیں کی تھیں وہ لفظ بلفظ سنائی۔
یہ تو قبطیوں کے اسقف اعظم کی باتیں ہیں۔۔۔ امیر جماعت نے کہا۔۔۔ ہم نے وہاں ہر عیسائی کے دل میں رومیوں کے خلاف نفرت بھری ہوئی دیکھی ہے ، ہر محفل میں ،گرجوں میں، سراؤں میں، سفر میں، اس نفرت کا کھلم کھلا اظہار ہوتا ہے ۔
بنیامین نے جو کہہ دیا ہے اسے میں حرف آخر سمجھتا ہوں،،، عمرو بن عاص نے کہا۔
میرا مشورہ قبول کریں۔۔۔ ایک اور مجاہد نے کہا ۔۔۔مصر پر حملہ کرنا ہے تو فوراً کریں، رومی فوج کی ذہنی اور جسمانی حالت ابھی تک نہیں سمبھلی، اور عیسائی اس فوج کے دشمن ہو گئے ہیں۔
عمرو بن عاص یہ رپورٹ سن کر بہت خوش ہوئے،،،، کہنے لگے کہ وہ پہلی فرصت میں مدینہ جائیں گے اور امیرالمومنین سے مصر پر حملے کی اجازت لے لیں گے۔
کام کی باتیں ہو چکیں تو رابعہ کی بات سپہ سالار کو سنائی گئی ، رابعہ باہر بیٹھی ہوئی تھی اویس نے سپہ سالار سے کہا کہ وہ اس کا رابعہ کے ساتھ نکاح پڑھا دے۔
سپہ سالار نے رابعہ کو اندر بلایا اور اس سے پوچھا کہ وہ کس طرح اویس کے پاس آئی ہے۔ رابعہ نے وہی کہانی سنا دی جو سپہ سالار پہلے سن چکے تھے وہ دراصل تصدیق چاہتے تھے، اور یہ بھی کہ اس کمسن دوشیزہ پر جبر نہ ہو رہا ہو ۔
رابعہ نے انہیں مطمئن کردیا اور شادی کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے اویس اور رابعہ کا نکاح پڑھا دیا

عمرو بن عاص مدینہ جانے کا موقع پیدا کررہے تھے ،امید بندھ گئی تھی کہ انہیں مصر پر حملے کی اجازت مل جائے گی۔
 تین چار ہی دن گزرے ہوں گے کہ مدینہ سے امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ایک پیغام لایا لے کر قاصد آ گیا ۔
عمرو بن عاص نے پیغام پڑھا تو لرز کر رہ گئے اتنے حوصلے مند اور پر عزم سپہ سالار کے ہاتھ کانپنے لگے۔
پیغام صرف اتنا تھا۔۔۔ عمرو بن عاص کے نام۔۔۔ السلام علیکم۔۔۔ اما بعد۔۔ کیا تم مجھے میرے ساتھیوں کو اور ان لوگوں کو جن کا میں ضامن اور ذمہ دار ہوں ہلاک ہوتا دیکھو گے، اور خود اپنے ساتھیوں کے ساتھ زندہ رہو گے مدد ،مدد ،مدد،،،،،
یہ پیغام ایسی نوعیت کا تھا جسے موجودہ دور میں sos کہا جاتا ہے۔
کیا آفت آن پڑی ہے عمرو بن عاص نے قاصد سے پوچھا۔
قحط۔۔۔۔ قاصد نے جواب دیا۔۔۔ عرب کی جنوبی سرحد سے لے کر شمالی سرحد تک ہر انسان کی اور مویشیوں کی جان بےدردی سے لے رہا ہے ۔مدینہ کو میری واپسی تک نہ جانے کتنی اور جانیں لے چکا ہوگا۔ اناج کا ایک دانہ کہیں نظر نہیں آتا لوگ پانی کو ترس رہے ہیں، دودھ دینے والے مویشی ہڈیوں کے ڈھانچے بن کر مر رہے ہیں، ان کے جسموں میں نمی کا ایک قطرہ نہیں دودھ کہاں سے دیں۔
یہ تاریخ  عیسویں 639 بمطابق 18 ہجری میں پڑا تھا۔
قاصد نے قحط کی تباہ کاری سنائی، اور سننے والے لرزہ براندام ہو گئے۔
 عمرو بن عاص نے امیرالمؤمنین کے نام پیغام لکھوایا، تاریخ کے مطابق تحریر اتنی سی ہی تھی۔
 امیر المومنین کے نام۔۔۔ السلام علیکم۔۔۔ اما بعد۔۔۔ اطمینان رکھیں خوراک کا ایسا قافلہ بھیج رہا ہوں جس کا اگلا سرا آپ کے پاس اور دوسرا سرا میرے پاس ہوگا،،،،، 
امیر امیرالمومنین نے ایسے ہی پیغام معاویہ بن ابی سفیان، اور ابو عبیدہ ،کو شام بھیجے تھے جو وہاں کے امراء اور سپہ سالار تھے۔ پھر ایسا ہی پیغام عراق کے امیر اور سپہ سالار سعد بن ابی وقاص کو بھی بھیجا ان سب نے امیرالمومنین کو ایسا ہی جواب دیا جیسا عمرو بن عاص نے لکھ بھیجا تھا۔
تاریخ میں جو اعداد و شمار آئے ہیں ، یوں ہیں۔
عمرو بن عاص نے فلسطین سے ایک ہزار اونٹ آٹے اور گھی سے لدے ہوئے، خشکی کے راستے، اور انہیں اشیا سے لدے ہوئے بیس بحری جہاز کی عقبہ کی بندرگاہ سے روانہ کیے۔
خوراک کے علاوہ عمرو نے پانچ ہزار کمبل بھی بھیجے ۔
شام سے معاویہ بن ابی سفیان نے آٹے سے لدے ہوئے تین ہزار اونٹ بھیجے خوراک کے علاوہ تین ہزار چغے بھی ساتھ تھے، سعد بن ابی وقاص نے عراق سے ایک ہزار آٹھ سو اونٹ یہ بھی اناج سے لگے ہوئے تھے، 
شام کے ایک اور حصے کے امیر اور سپہ سالار ابوعبیدہ بن جراح نے چار ہزار اونٹوں پر اناج اور دیگر اشیاء خورد و نوش لدوائیں اور خود اس قافلے کے ساتھ چل پڑے ۔
مدینہ پہنچے تو امیر المومنین نے لوگوں میں اس خوراک کی تقسیم کا کام ابوعبیدہ کے ہی سپرد کر دیا، تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ امیرالمومنین نے حکم دیا کہ ابو عبیدہ کو چار ہزار درہم ادا کیے جائیں۔
امیرالمومنین!،،، ابوعبیدہ نے کہا۔۔۔ مجھے اس معاوضے کی ضرورت نہیں ،میں نے جو معاونت کی ہے یہ اللہ کی خوشنودی کے لئے کی ہے مجھے دنیاوی مفاد کی طرف نہ کھینچیں۔
یہ معاوضہ تم نے طلب نہیں کیا!،،،،امیرالمومنین نے کہا۔۔۔ اس لئے یہ لے لینے میں کوئی قباحت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مجھے ایسا ہی ایک واقعہ پیش آ چکا ہے، تم نے جو بات مجھ سے کہی تھی وہی میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہی تھی، لیکن آپ نے میرا جواز رد کرکے مجھے رقم وصول کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔
 ابو عبیدہ نے چار ہزار درہم لے لیے اور شام کے اس علاقے کو واپس چلے گئے جہاں کے وہ امیر مقرر ہوئے تھے۔

اس داستان کا یہ باب اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس خوفناک قحط میں امیرالمومنین اور ان کے ماتحت افسروں کی فرض شناسی اور انسان دوستی کا تذکرہ نہ کیا جائے۔
قحط کا باعث یہ ہوا کہ آسمان بادلوں سے خالی ہو گیا بادلوں کی غیر حاضری میں سورج نے زمین و آسمان کو جلانا شروع کردیا ۔ کھیتوں کی مٹی اکڑ گئی اور زمین چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں پھٹنے لگی، آسمان کے تیور دیکھ کر کسانوں نے ہل نہ چلائے وہ دیکھ رہے تھے کہ گھاس کی ایک پتی بھی ہری نہیں رہ گئی تھی، فصل جو پکنے کے لئے اوپر ہی اوپر اٹھ رہے تھے جہاں تک پہنچے تھے وہی جل کر راکھ ہوگئے، اناج کی پیداوار کی امیدیں دم توڑ گئیں۔
نخلستان سوکھ گئے ہریالی کا کہیں نام و نشان نہ رہا، ہوا چلتی تو دھول اڑتی تھی، کسی درخت کا ایک پتہ بھی ہرا نہ رہا ،درخت خشک لکڑیاں بن کے رہ گئے، بھیڑ بکریوں کے ریوڑ مویشی اور دیگر جانور ایسی تیزی سے مرنے لگے جیسے موت جھاڑو دے رہی ہو۔ انسان فاقوں مرنے لگے، جن لوگوں کے پاس روپیہ پیسہ تھا وہ بھی مر رہے تھے، اناج کا ایک دانہ نہ تھا روپیہ پیسہ محض بیکار تھا۔
اس قحط والے سال کو عام الرّمادہ (یعنی خاک والا سال) کہا گیا تھا۔
اب دیکھئے اس وقت کے سربراہ ملت و حکومت کا کردار اور حسن تدبر ۔
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ذاتی کردار تو بلند تھا ہی، لیکن غور اس پر کریں کہ یہ کردار اسلام کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا۔
 انہوں نے جلسوں میں تقریریں نہیں کی کہ ہم عوام کو بھوکا نہیں مرنے دیں گے، ذخیرہ اندوزی ختم کرنے کے لیے قانون بنایا جارہا ہے ،ہم تباہ کر دیں گے ،کمیٹی بنا دی گئی ہے ،ایسی بھڑک نما تقریروں کے بعد رات گھر جاکر مرغن کھانے کھائے اور سو گئے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ عراق ،شام، اور فلسطین سے آنے والی خوراک کے قافلوں کے لیے حکم دیا کہ یہ متاثرہ علاقوں میں چلے جائیں ،اور اشیاء لوگوں میں تقسیم کردی جائیں ،دوسرا حکم یہ دیا کہ قافلوں کے اونٹ واپس نہ کئے جائیں انہیں ذبح کر کے ان کا گوشت لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے۔
 قحط زدہ علاقوں میں ایک بھی اونٹ زندہ نہیں رہا تھا ،اگر کوئی اونٹ زندہ نظر آتا تھا تو وہ ہڈیوں کا ڈھانچا ہوتا تھا گوشت کا نام و نشان نہیں ،زرخیز علاقوں سے آئے ہوئے اونٹ تنو مند اور تروتازہ تھے ،کم و بیش دس ہزار اونٹ ذبح کرکے فاقہ کش لوگوں کو کھلا دیے گئے۔
مدینہ دارالخلافہ بھی تھا اور ہر لحاظ سے عرب کا مرکزی شہر بھی وہاں خوشحال لوگ رہتے تھے ،ان کے گھروں میں خوراک کا ذخیرہ تھا۔ مدینہ کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ بہت سے بھاگے ہوئے ہزارہا لوگ پورے پورے کنبے مدینہ میں آگئے، اور ان کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی تھی یہ سب بھوکے تھے، ان کے بچے بھوکے، ان کی عورتیں بھوکی تھیں، ماؤں کے دودھ سوکھ گئے، اور دودھ پیتے بچے مر رہے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے مدینہ کے لوگوں سے کہا کہ وہ گھروں میں دو گنا کھانا پکایا کریں اور ان پناہ گزینوں کو آپس میں بانٹ کر گھروں میں لے جائیں، لوگوں نے فوراً اس پر عمل کیا لیکن پناہ گزینوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی تھی۔
 حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے گھوم پھر کر جائزہ لیتے رہتے تھے ،مدینہ کے خوشحال لوگ پورا پورا تعاون کررہے تھے کچھ لوگ پھر بھی بھوکے رہ جاتے تھے۔
امیر المومنین نے اس کا حل یہ نکالا کہ حکم جاری کردیا کہ کسی شہری کے گھر کھانا نہیں پکے گا، تمام خوراک ایک جگہ اکٹھا کرکے مشترکہ طور پر کھانا پکے گا اور سب ایک دستر خوان پر کھانا کھایا کریں گے۔
 امیر المومنین نے اس کی ابتدا اپنے گھر سے کی کھانا ایک جگہ پکنے لگا، امیرالمومنین اپنے اہل و عیال کے ساتھ اسی دسترخوان پر کھانا کھاتے تھے۔
مسلم اور غیر مسلم تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ اس دستر خوان پر ہر روز دونوں وقت کھانے والوں کی تعداد دس ہزار کے لگ بھگ ہوتی تھی، مریض، بوڑھے ،معذور ،عورتیں، بچے ،جو دسترخوان تک نہیں پہنچ سکتے تھے انہیں وہاں کھانا پہنچایا جاتا تھا جہاں جہاں ان کا قیام تھا ان کی تعداد پچاس ہزار کے لگ بھگ تھی۔
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے کردار کی اور امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور ایثار کی صرف ایک مثال کافی ہوگی ۔مؤرخوں نے ایسے متعدد واقعات لکھے ہیں۔
 امیرالمومنین سب کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے تھے ایک روز دسترخوان پر گھی میں چُوری کی ہوئی روٹی تھی ،حضرت عمر نے ایک بدو کو اپنے ساتھ بٹھا لیا دونوں ایک ہی پلیٹ سے چوری کھانے لگے۔
بدو بدتمیزی سے کھا رہا تھا پلیٹ میں جدھر گھی دیکھتا ادھر سے بہت بڑا لقمہ بنا کر منہ میں ڈال لیتا امیرالمومنین نے اس سے پوچھا کہ تو نے کبھی گھی والی روٹی نہیں کھائی؟ 
یا امیرالمومنین!،،،، بدو نے لجاجت کے لہجے میں کہا۔۔۔ جب سے قحط پڑا ہے نہ کہیں گھی دیکھا ہے، نہ روٹی، نہ کسی اور کو گھی روٹی کھاتے دیکھا ہے۔
امیر المومنین نے قسم کھالی کہ جب تک قحط ہے وہ گھی والی روٹی نہیں کھائیں گے ،سب نے دیکھا کہ انہوں نے گھی کے علاوہ گوشت کھانا بھی چھوڑ دیا ،ان کی بھاگ دوڑ کا یہ عالم تھا کہ ابھی مدینہ میں کھانے کا انتظام دیکھ رہے ہیں اور ابھی کسی دور کے علاقے کی طرف دیکھنے جا رہے ہیں کہ وہاں لوگوں کو ٹھیک طرح کھانا مل رہا ہے یا نہیں۔
 مسلسل مشقت بھاگ دوڑ اور پریشانی کے ایسے آثارات تھے، اس کے ساتھ امیر المومنین نے اپنی روزمرہ غذا کم کر دی تھی، ان کا رنگ سرخ سفید ہوا کرتا تھا جو سیاہ پڑ گیا ،اور جسم لاغر ہوتا چلا گیا، پیٹ میں کوئی تکلیف بھی رہنے لگی ان کے رفقائے کار کو پریشانی لاحق ہو گئی کہ امیرالمؤمنین نے پوری غذا کھانی شروع نہ کی تو یہ صورت ان کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔
ان رفقاء نے جن میں معمر صحابہ اکرام بھی تھے۔۔۔ امیرالمومنین سے کہا۔۔۔ کہ آرام کریں نہ کریں اپنی روزمرہ غذا پوری کر لیں۔ امیرالمؤمنین نے جو جواب دیا وہ تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے۔۔۔ انہوں نے کہا ۔۔۔مجھے لوگوں کی تکلیف کا احساس اسی طرح ہوسکتا ہے کہ مجھ پر بھی وہی گزرے جو لوگوں پر گزر رہی ہے۔
اگر ہمارے آج کے حکمران حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ان الفاظ کو اپنا اصول حیات بلکہ ایمان کا جزو بنا لیں تو ملک کا اجڑا ہوا گلستان سرسبزوشاداب ہوجائے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اللہ کے حضور بہتے آنسو سے گڑگڑاتے تھے۔۔۔۔ یا اللہ یہ قحط اگر میرے کسی گناہ یا اپنے فرائض سے کوتاہی کی سزا ہے تو مجھے بخش دے میری قوم کو سزا نہ دے۔
 کوئی دعا قبول نہیں ہورہی تھی آسمان جل رہا تھا زمین کو جلا رہا تھا۔

*آسمان*   سر زمین عرب کا دشمن ہوگیا تھا۔ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے انتظامات اور ان کی اپنی بھاگ دوڑ لوگوں کو قحط سے نھیں فاقہ کشی سے نجات دلاسکتی تھی۔ جو انہوں نے دلادی لیکن صحابہ کرام اور دیگر اکابرین حضرت عمر کی بڑی تیزی سے گرتی ہوئی صحت کے متعلق پریشان تھے۔
 حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ تو گھولے جا رہے تھے، انہوں نے جسمانی توانائی برقرار رکھنے والی غذا ترک کر دی تھی، اور کہتے تھے کہ یہ غذا اس وقت کھاؤں گا جب میری قوم کے ہر فرد کو یہ غذا میسر آنے لگے گی۔
تاریخ نویس ابن سعد نے اپنی ایک کتاب (طبقات) میں لکھا ہے کہ بزرگوں کے کہنے پر بعض جواں سال افراد نے کھانے کے وقت حضرت عمر کو کسی بہانے دسترخوان عام سے ہٹا کر الگ بٹھایا اور گوشت کے ساتھ گھی میں پکائی ہوئی روٹی ان کے آگے رکھ دی، اور انہیں باتوں میں لگالیا، انہوں نے عہد کر لیا تھا کہ امیرالمومنین کو گوشت اور گھی کھلا کر ہی رہیں گے، لیکن امیرالمومنین نے یہ کھانا ایک طرف سرکا دیا۔
دسترخوان پر گھوم پھر کر دیکھو۔۔۔ امیر المومنین نے کہا۔۔۔ جو کوئی فاقہ کشی سے بہت ہی نحیف ہو گیا ہو یہ کھانا اسے کھلا دو میرے لئے عام روٹی اور سب کے لیے پکا ہوا سالن زیادہ اچھا رہے گا۔
ابن سعد نے تین مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس شام حکم دیا کے دسترخوان  عام پر جو لوگ موجود ہیں ان کی گنتی کی جائے۔ گنتی کی گئی۔ سات ہزار سے کچھ زائد تھی اور بوڑھے، بچے اور مریض جو دسترخوان پر نہیں آ سکے اور انہیں جہاں جہاں تھے کھانا پہنچایا گیا تھا ان کی تعداد چالیس ہزار سے ذرا زیادہ تھی۔
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس رات بھی وہیں کھانا کھایا جو باقی سب نے کھایا تھا۔ انھوں نے پانی مانگا تو انھیں وہ پانی دیا گیا جس میں شہد ملا ہوا تھا انہوں نے ایک گھونٹ پی کر پیالہ رکھ دیا۔
خدا کی قسم!،،،، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا۔۔۔ میں ایسا کام نہیں کروں گا جسکی روزقیامت مجھ سے جواب طلبی ہو۔
پھر ایک واقعہ یہ بھی قابل غور و فکر ہے کہ ایک روز امیرالمومنین نے اپنے ایک چھوٹے بیٹے کو تربوز کا ایک ٹکڑا کھاتے دیکھا تو بولے،،،،، واہ امیر المومنین کے بیٹے تو پھل کھا رہا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بھوکی مررہی ہے۔
بچہ اپنے عظیم باپ کی سخت مزاج سے واقف تھا وہ رو پڑا امیرالمومنین کو بچے کا رونا متاثر نہ کرسکا ،کسی نے انہیں بتایا کہ بچے نے تربوز کا یہ ٹکڑا چند ایک کھجوروں کے بدلے لیا ہے تو انہیں اطمینان ہوا اور انہوں نے بچے کو بہلا لیا۔

قحط ٹلتا نظر نہیں آرہا تھا، عراق، اور شام سے اناج اور اجناس آرہی تھی جو نہایت اچھے انتظامات کے تحت مدینہ سے دور دراز علاقوں تک بھی پہنچائی جا رہی تھی۔ امیرالمومنین خود جاکر تقسیم کے انتظامات دیکھتے تھے چھ سات مہینے گزر گئے تھے۔
ایک روز حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ سے تھوڑی ہی دور ایک بستی میں گئے تو وہاں دو گھروں میں ماتم کی آہ و بکا دیکھی، ایک عورت کا جوان بیٹا، اور ایک عورت کا خاوند مر گیا تھا۔
 حضرت عمر نے پہلی بات یہ پوچھی کہ یہ بھوکے تو نہیں مرے، یہ جواب سن کر انہیں اطمینان ہوا کہ انہوں نے ایک وقت کا بھی فاقہ نہیں کیا تھا، موت کا سبب کوئی ایسی بیماری بنی جسے کوئی بھی نہ سمجھ سکا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حکم دیا کہ ان کے کفن بیت المال سے دیئے جائیں۔ کفن آ گئے دونوں کی نماز جنازہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے خود پڑھائی تھی۔
یہ پراسرار بیماری بڑھنے لگی بیماریاں ایسی تھی کہ علاج کی مہلت ہی نہیں دیتی تھی، یہ وبا کی صورت اختیار کرتی جا رہی تھی کسی بھی مؤرخ نے نہیں لکھا کہ اس بیماری کی علامت کیا تھی۔
 امیرالمومنین جو ذرا سا آرام کرتے تھے وہ بھی چھوڑ دیا اور اس بیماری کی روک تھام کے لئے بستی بستی بھاگنے دوڑنے لگے۔ طبیب بھی پریشان ہو گئے ان کی دوائیوں کا اتنا سا ہی اثر ہوتا تھا کہ مریض کی موت کچھ دن ٹل جاتی تھی لیکن وہ آخر موت کے منہ میں چلا ہی جاتا تھا۔
طبیب اتنا ہی سمجھ سکے کہ اس بیماری کا تعلق قحط اور خشک سالی کے ساتھ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حکم جاری کردیا کہ اس بیماری سے مرنے والوں اور قحط ختم ہونے تک کسی بھی بیماری سے مرنے والے کا کفن بیت المال سے ملے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جہاں تک پہنچ سکتے وہاں نماز جنازہ خود پڑھاتے تھے۔
امیرالمومنین کسی بیمار کی وفات کی اطلاع پر جاتے تو کچھ اس قسم کے الفاظ ان کے کانوں سے ٹکراتے تھے۔
 یا امیرالمومنین!،،، آپ نے بھوک سے تو بچا لیا موت سے نہیں بچا سکیں گے،،،، یا یہ کہ یا امیرالمومنین!،،،، روٹی دے سکتے ہو زندگی نہیں دے سکتے. 
اس پر اسرار اور ظالم بیماری نے تمام تر عرب پر دہشت طاری کردی تاریخ بتاتی ہے کہ پہلے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نماز کے بعد قحط سے نجات کی دعا کرتے تھے، بیماری نے زور پکڑا تو رات رات بھر نوافل پڑھتے اور اس طرح قحط اور
 بیماری سے نجات کی دعا کرتے تھے کہ روتے روتے ان کی ہچکی بندھ جاتی تھی۔
یا اللہ! یا غفور الرحیم! ۔۔۔۔حضرت عمر دعا میں یہ الفاظ ضرور کہتے تھے۔۔۔ میرے گناہوں کی سزا اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو نہ دے اپنے بندوں کو میرے ہاتھوں ہلاک نہ کرا پروردگار۔
یوں لگتا تھا جیسے اللہ نے سرزمین عرب سے نگاہیں پھیر لی ہوں دعاوں کو قبولیت حاصل ہو ہی نہیں رہی تھی۔

آخر امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی حالت ایسی ہو گئی جیسے بالکل ہی ہار کر بے دست و پا ہو گئے ہوں۔
 انہوں نے ہر طرف قاصد اس پیغام کے ساتھ دوڑا دیے کہ تمام لوگوں کو اپنی اپنی جگہ اکٹھا کرکے نماز استسقاء پڑھی جائے اور اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں کی جائے کہ قحط کے عذاب سے اللہ چھوڑا دے ۔
پیغام میں یہ بھی کہا گیا کہ جو لوگ رات ہی رات مدینہ پہنچ سکے پہنچے جائیں۔
قاصد فوراً ہی روانہ ہو گئے تھے دور کے علاقوں کو جانے والے قاصد رات کو بھی چلتے رہے تھے ،مدینہ منورہ میں نماز استسقاء کا وقت اگلے روز دوپہر کا مقرر کیا گیا تھا،،،،، جہاں جہاں پیغام پہنچایا گیا اور لوگوں نے نماز کا وقت مقرر کرکے اعلان کردیا۔
اگلے روز مدینہ کے لوگ اور مدینہ میں آئے ہوئے پچاس ساٹھ ہزار پناہ گزین زمین و آسمان کو جلاتی ہوئی دوپہر کے وقت نماز استسقاء کے لیے باہر نکلے ،اور میدان میں صفیں باندھ کر کھڑے ہوگئے، زمین دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح گرم تھی ،جس پر ننگے پاؤں کھڑا ہونا ممکن نہ تھا، لیکن لوگ اللہ کی ذات باری میں جیسے تحلیل ہو گئے تھے کہ انہیں پاوں جلنے کا احساس ہی نہیں ہو رہا تھا۔
 حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ امامت کے لیے آگے آئے انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ردائے مبارک اپنے جسم پر لے رکھی تھی۔
جن مؤرخوں نے اس نماز کا آنکھوں دیکھا حال لکھا ہے اس وقت کے وقعے نگاروں کے حوالے سے وہ منظر بیان کیا ہے۔
 جب مدینہ کے لوگ نماز استسقا پڑھ رہے تھے لوگوں کی سسکیاں اور ہچکیاں صاف سنائی دے رہی تھیں اور یہی کیفیت امیرالمومنین پر طاری تھی۔
نماز کے بعد امیرالمومنین دعا کے لیے اٹھے ان کا کوئی لفظ واضح طور پر سمجھ میں نہیں آتا تھا، کیونکہ وہ بچوں کی طرح بلبلا اور رو رہے تھے۔
 مؤرخوں نے یہ الفاظ لکھے ہیں کہ حضرت عمر کے انسو ان کی داڑھی سے یوں ٹپکنے لگے جیسے انہوں نے اپنے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ہوں۔
حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالی عنہ ان کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے ،دعا کے دوران حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ان کا بازو پکڑا اور اٹھا کر اپنے پہلو میں کھڑا کر لیا پھر ان کے دونوں ہاتھ پکڑ کر دعا کے انداز میں آسمان کی طرف کیے۔
یااللہ !،،،،،حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی ہی بلند آواز میں کہا۔۔۔ ہم تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو تیرے حضور شفاعت کے لئے لائے ہیں ہماری نہیں تو ان کی ہی سن لے۔
یا پروردگار !۔۔۔۔۔حضرت عباس نے حضرت عمر کی آواز سے بھی بلند آواز میں کہا۔۔۔ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے اپنی رحمت کے چند قطرے،،،،،، 
حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی آواز رقّت میں دب گئی اور اس طرح ہچکیاں لے لے کر رونے لگے جیسے اپنے آپ پر قابو نہ پا سکیں گے۔
مدینہ سے دور دور تک جہاں جہاں امیر المومنین کا پیغام پہنچا تھا اس وقت نماز استسقاء پڑھی جا رہی تھی، ہر آنکھ سے آنسو بہہ رہے تھے، اور لوگ اس عذاب سے اللہ کی پناہ مانگ رہے تھے ۔
نماز کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بلند آواز سے ورد کرتے جاتے تھے۔ اللہ، رحمان ،اور رحیم، ہے۔
پھر جلتے اور جلاتے ہوئے اس دن کا سورج بھی غروب ہوگیا ایک اور رات آئی موسم کی تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ لیکن اس رات کے بطن سے جس صبح نے جنم لیا اسے دیکھ کر کسی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا تھا ۔ سورج جیسے طلوع ہوا ہی نہ ہو کیونکہ آسمان پانی سے لدے ہوئے سرمائی اور سیاہ بادلوں کی اوٹ میں چھپا ہوا تھا ۔اور جب یہ بادل پھٹ پڑے تو دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف جل تھل ہوگیا بارش ایسی موسلادھار کے اس کی دھند میں کچھ دور تک نظر کام نہیں کرتی تھی۔
نو مہینوں کی پیاسی زمین اللہ کی رحمت سے سیراب ہوگی ،یہ تاریخی قحط پورے نو مہینے رہا تھا۔
دو تین دنوں بعد بارش کا زور تھاما، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ کے اندر اور باہر ان پچاس ساٹھ ہزار پناہ گزینوں میں دوڑتے جو نو مہینوں سے وہاں پڑے تھے، وہ ان لوگوں سے یہ کہتے پھرتے تھے کہ اپنے گھروں کو چلے جاؤ ،لوگوں کو ان کے گھروں بھیجنے پر امیرالمؤمنین کچھ زیادہ ہی زور دے رہے تھے۔
 انہوں نے بعد میں اپنے مصاحبین سے کہا کہ وہ ان پناہ گزینوں کو اس خیال سے مدینہ سے نکال رہے تھے کہ انھیں آرام سے حاصل ہونے والی روٹی کا چسکا نہ پڑ جائے۔
 حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا خیال یہ تھا کہ لوگ فوراً کھیتی باڑی میں لگ جائیں۔

ہم اس داستان کو پیچھے اس مقام پر لے جاتے ہیں جہاں روزی ایک بار پھر قربانی سے بچ گئی تھی ۔
اور پادری اس کے ساتھی اس کے انتظار میں نیل کے کنارے اس جگہ کھڑے تھے جہاں سے روزی کو نیل میں پھینکنا تھا۔
 ماہی گیروں کا سردار بابا اس توقع پر وہاں پہنچا تھا کہ روزی کو ان تین آدمیوں نے اس جگہ پہنچا دیا ہو گا جن تین آدمیوں نے اسے یقین دلایا تھا کہ وہ روزی کو قربانی کی جگہ پہنچا دیں گے، لیکن انہوں نے راستے میں کشتی رانوں کو قتل کرکے دریا میں پھینک دیا اور روزی کو لے اڑے ، اس کے بعد روزی رابعہ بن گئی۔
ماہی گیروں کے سردار نے وہاں پہنچ کر پادری کو بتایا کہ اس نے روزی کو تین اجنبی آدمیوں کے ساتھ پہلے ہی بھیج دیا تھا، تو سب حیران ہوئے کہ لڑکی گئی کہاں؟ 
بڑے پادری نے یہ فتوی دیا کہ نیل کو اس لڑکی کی قربانی  نہیں چاہئے، نیل اسی لڑکی کو چاہتا ہے جس کی قربانی کا فیصلہ پہلے ہوا تھا۔
وہ لڑکی ہور شش کی اکلوتی بیٹی تھی جسے دریا میں ڈوب مرنے سے بچانے کے لیے اس نے روزی کو دھوکہ دیا اور انطاکیہ سے اسے ساتھ لے گیا تھا ،قربانی کے دستور کے مطابق اس نے اپنی بیٹی کے سارے زیورات روزی کو پہنا دیے تھے وہ بڑے ہی قیمتی زیورات تھے جو باپ نے اپنی بیٹی کی زندگی میں قربان کردئے تھے، مگر ہوا یہ کہ زیورات بھی گئے اور روزی بھی ہاتھ سے نکل گئی۔ اور اب پادری نے یہ فیصلہ دے دیا کہ ہورشیش کی بیٹی کو ہی نیل کے حوالے کر دیا جائے اور اسے زیورات سے سجانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
چنانچہ ہورشش کی بیٹی کو جگا کر لے آئے اور پادری نے اپنے ہاتھوں اسے دریا میں پھینک دیا۔
یہاں سے یہ داستان یوں آگے چلی کہ بیٹی کے صدمے نے ہورشیش کے دل و دماغ کو ماؤف کردیا ،یہ بیٹی اس کی اکلوتی اولاد تھی اس پر وہم طاری ہونے لگا، جن میں ایک یہ تھا کہ ان لوگوں نے اس لڑکی یعنی روزی کو قربانی سے بچانے کے لئے خود غائب کیا ہے اور اس کی بیٹی کو مروا ڈالا ہے۔
 ہورشیش اپنے مذہب کو بھول ہی گیا اور اس کی جگہ انتقام کا جذبہ پیدا ہو گیا۔
 بیٹی کے صدمے کے ساتھ یہ چوٹ بھی کچھ کم نہ تھی کہ اس کے بڑے ہی قیمتی زیورات بھی ضائع ہو گئے تھے۔
ہورشیش کی بستی سے تقریباً تین میل دور رومی فوج کی ایک چوکی تھی جس میں افسر ایک عہدے دار اور چند ایک سپاہی رہتے تھے۔ شاہ ہرقل کو بڑی اچھی طرح احساس ہو گیا تھا کہ مصر کے لوگ اس کے حق میں نہیں رہے ۔وجہ بڑی صاف تھی جس کا تفصیلی ذکر پیچھے ایک باب میں آگیا ہے وجہ یہ تھی کہ اس نے جو سرکاری عیسائیت رائج کی تھی اسے لوگ قبول نہیں کر رہے تھے، لڑکی کی قربانی کو تو اس نے قتل جیسا جرم قرار دے دیا تھا پھر بھی قبطی عیسائی چوری چھپے لڑکیوں  کی قربانی دے رہے تھے۔
 لوگوں پر دہشت طاری رکھنے کے لئے اور لڑکی کی قربانی روکنے کے لئے ہرقل نے مصر کے دیہاتی اور دور دراز علاقوں میں بھی چھوٹی بڑی چوکیوں کی صورت میں اپنی فوج پھیلا رکھی تھی۔
 ان چوکیوں کے فوجی اپنے اپنے علاقے میں گشت کرتے رہتے اور لوگوں کو ڈراتے رہتے۔ ہورشیش کی بستی سے کچھ دور ایسی ہی چوکی تھی جس کے فوجی افسر اس بستی میں گشت کے لیے آتے رہتے تھے۔
ہورشیش کو اس چوکی کا خیال آیا تو اس کے اندر انتقام کی جو آگ سلگ اٹھی تھی وہ بہت بڑا شعلہ بن گئی اور وہ اس چوکی کی طرف چل پڑا۔
 چوکی پر جاکر چوکی کے کمانڈر سے ملا اور اسے بتایا کہ ان کے پادری نے اس کی بیٹی کو اس کی مرضی کے خلاف زبردستی گھر سے اٹھا کر دریا میں پھینک دیا ہے۔
رومی افسر غصے سے بھڑک اٹھا اور پادری اور دیگر ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
 ہورشیش نے اسے روک لیا اور کہا کہ وہ یہ کارروائی اس طرح کرے کہ یہ ظاہر نہ ہوں کہ ہورشیش  نے مخبری کی ہے، اور اس کو ڈر یہ تھا کہ بستی والوں کو صحیح بات کا علم ہو گیا تو وہ اسے اور اس کی بیوی کو قتل کر دیں گے، اور اس نے یہ بھی کہا کہ وہ گھر پہنچ جائے تو کچھ دیر بعد فوجی آئیں۔
ہورشیش کے ساتھ اس طرح بات کریں جیسے وہ بھی اپنی بیٹی کی قربانی کا مجرم ہے۔
رومی افسر بات سمجھ گیا اور ہورشیش کو واپس بھیج دیا ۔
ہورشیش نے اپنی بیوی کو بھی نہیں بتایا تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے اور کیا کر رہا ہے۔

دن آدھے سے کچھ زیادہ گزر گیا تھا ،ہورشیش کی بستی کے لوگوں نے دوڑتے گھوڑوں کے ٹاپ سنے جو بستی کی طرف بڑھتے آ رہے تھے، یہ کوئی بڑی بستی نہیں تھی بیس پچیس مکانوں کی چھوٹی سی آبادی تھی لوگ گھروں سے نکل کر باہر آ گئے انہوں نے گھوڑوں کو اور سواروں کو بھی پہچان لیا یہ ان کے اپنے فوجی تھے جو گشت پر آتے ہی رہتے اور بستی کے لوگوں کے ساتھ گپ سبب بھی لگایا کرتے تھے۔
ان میں ایک افسر ایک جواں سال عہدے دار اور کم و بیش بیس سپاہی تھے، قریب آ کر انہوں نے بستی کو گھیرے میں لے لیا افسر نے اعلان کیا کہ کوئی مرد یا عورت بھاگنے کی کوشش نہ کرے اور تمام لوگ باہر آجائیں۔
بستی کے لوگوں پر خوف طاری ہو گیا یہ سب قبطی عیسائی تھے اور اپنے بادشاہ ہرقل کی سرکاری عیسائیت کے سخت خلاف تھے اور یہ لوگ لڑکی کی قربانی میں بھی یقین رکھتے تھے انھیں ڈرنا ہی چاہیے تھا۔
ہورشیش کہاں ہے؟،،،، رومی نے کہا۔۔۔ جو کوئی بھی ہو سامنے آ جائے۔
 ہورشیش آگے ہوگیا افسر گھوڑے سے اتر آیا اور اس نے اپنے سوار سپاہیوں سے بھی کہا کہ گھوڑوں سے اتر آئیں اور گھوڑے ایک جگہ کھڑے کرکے بستی کے اردگرد پھیلے رہیں۔
کیا گزشتہ رات تم نے اپنی بیٹی کو قربانی کے لیے دریا میں پھینکا تھا رومی افسر نے پوچھا۔
ہورشیش نے تو انکار ہی کرنا تھا کیونکہ یہ پہلے طے ہوچکا تھا کہ یہ ظاہر نہیں ہونے دیا جائے گا کہ یہ مخبری ہورشیش نے کی ہے۔ رومی افسر نے یہ ظاہرکرنے کے لئے کہ وہ اپنے طور پر تفتیش کر رہا ہے اور اس سے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کو سامنے لائے۔
میں ابھی تمہارا جھوٹ ثابت کردوں گا ۔۔۔رومی افسر نے کہا۔۔۔ میں جانتا ہوں تمہاری یہی ایک ہی بیٹی تھی میں کسی شک پر نہیں آیا پوری یقین کے ساتھ آیا ہوں اگر تم سچے ہو تو اپنی بیٹی کو سامنے لے آؤ میں تمہیں مہلت بھی دے دیتا ہوں۔
چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ سولہ سترہ سال عمر کی ایک بڑی ہی خوبصورت لڑکی دوڑی آئی اور رومی افسر کے سامنے جاکر اس نے کہا کہ میں ہوں ان کی بیٹی۔
میں گھر میں نہیں تھی۔۔۔ لڑکی نے کہا ۔۔۔میں لڑکیوں کے ساتھ کسی دوسرے گھر کی چھت پر کھڑی دیکھ رہی تھی کہ یہ کیا ہورہا ہے ایک آدمی دوڑا آیا اس نے مجھے بتایا کہ آپ لوگ میرے باپ پر یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ اس نے مجھے نیل کی نذر کردیا ہے۔ میرا باپ اس لیے پریشان ہو گیا تھا کہ میں گھر میں نہیں تھی رومی افسر مسکرایا اس کی مسکراہٹ میں طنز تھی جیسے وہ جان گیا ہوں کہ اسے بے وقوف بنایا جارہا ہے اس نے ویسے ہی ایک آدمی کی طرف اشارہ کرکے اپنے پاس بلایا اور اس سے پوچھا کہ یہ لڑکی کس کی بیٹی ہے۔
ہورشیش کی ہے اس آدمی نے نڈر ہو کر جواب دیا ۔
رومی افسر نے ایک اور آدمی کو اپنے پاس بلا کر یہی سوال پوچھا۔
میں حیران ہوں آپ پوچھ کیا رہے ہیں ؟،،،،اس شخص نے جواب دیا کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اتنا بھی نہیں جانتے کہ یہ بیٹی کس کی اور فلاں بچہ کس کا ہے سب جانتے ہیں کہ یہ ہورشیش کی بیٹی ہے اور اس کا نام عینی ہے۔
رومی افسر بستی کے تمام لوگوں سے مخاطب ہوا اور یہی سوال پوچھا بستی کی ساری آبادی نے بیک زبان جواب دیا کہ یہ ہورشیش کی بیٹی ہے۔ رومی افسر کو معلوم نہیں تھا کہ ان لوگوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایکا کر لیا ہے اور یہ لوگ جان گئے ہیں کہ ہورشیش کی بیٹی کی قربانی کی خبر کسی غدار نے فوجیوں تک پہنچادی ہے ۔
اور اگر اس افسر نے ثابت کردیا کہ یہ خبر صحیح ہے تو کوئی بعید نہیں کہ یہ بستی کو ہی آگ لگا دیں گے ۔
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ہرقل اور اس کے مقرر کیے ہوئے اسقف اعظم قیرس کے دلوں میں ان لوگوں کے لئے ذرا سا بھی رحم نہیں تھا جو ان کی سرکاری عیسائیت کے خلاف تھے ۔
رومی افسر چکرا گیا اسے شک ہوا کہ کسی ذاتی وجہ کی بنا پر ہورشیش اس سے بستی والوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ اس نے بڑے غصے کے عالم میں ہورشیش کو بازو سے پکڑا اور ایک طرف لے گیا۔
تمہارے دل میں جو بدمعاشی ہے وہ فوراً بتا دو ۔۔۔رومی افسر نے کہا ۔۔۔نہیں بتاؤ گے تو یہی سب کے سامنے تمہارا سر اڑا دیا جائے گا۔
سچ بولوں گا تو یہ لوگ میرا سر اڑا دیں گے، ہورشیش نے سرگوشی میں جواب دیا میں سچ ہی بتاؤں گا لیکن ان لوگوں سے مجھے بچانا آپ کا کام ہے۔
تم سچ بولو رومی افسر نے کہا۔
ہورشیش نے بتادیا کہ یہ اس کی بیٹی نہیں اور یہ فلاں شخص کی بیٹی ہے اور اس نے لڑکی کی ماں کا نام بھی بتا دیا۔
یہ بستی دریائے نیل کے کنارے پر آباد تھی وہاں کنارہ خاصہ اونچا اور چٹانیں تھا وہیں سے دریا مڑتا تھا اور پارٹ تنگ تھا اس لئے وہاں دریا گہرا بھی تھا اور اس کا جوش وخروش بھی زیادہ تھا، لڑکیوں کی قربانی اسی کنارے سے لڑکی کو دھکا دے کر دی جاتی تھی۔
 جس لڑکی کی قربانی دی جاتی تھی اسے نیل کی دلہن کہا جاتا تھا اور اسے ایک مقدس آسمانی مخلوق سمجھ کر یاد کیا جاتا تھا۔
رومی افسر نے لڑکی کے باپ کو اور اس کی ماں کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ یہ کس کی بیٹی ہے دونوں نے جواب دیا کہ یہ ہورشیش کی بیٹی ہے ان لوگوں کے مذہبی جذبے کا یہ عالم تھا کہ لڑکی کی ماں نے رومی افسر کو ایک دو باتیں بڑے غصے میں کہہ ڈالی اور یہ بھی کہا کہ تم لوگ ہمیں ذلیل و رسوا کرنے کے لئے آجاتے ہو۔
رومی افسر نے سچ معلوم کرنے کے لئے ایک انوکھی ترکیب سوچ لی اس نے لڑکی کو بازو سے پکڑا اور دریا کے بلند کنارے پر جا کھڑا کیا دو سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ لڑکی کو کنارے سے ذرا پیچھے رکھیں اور اس کے دائیں بائیں کھڑے رہیں وہ خود لوگوں سے مخاطب ہوا۔
میں اس لڑکی کو دریا میں پھینک رہا ہوں رومی افسر نے کہا اگر اس کی ماں اسے بچانا چاہتی ہے تو اسے اپنے ساتھ لے جائے میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس کی ماں اور لڑکی کے باپ کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی میں تمہیں سوچنے کی مہلت دیتا ہوں کوئی جلدی نہیں اچھی طرح سوچ لو۔
لڑکی دریا کے کنارے کھڑی تھی رومی فوج کے دو سپاہی اس کے قریب کھڑے تھے اور رومی افسر بستی کے لوگوں اور لڑکی کے درمیان بڑے آرام سے ٹہلنے لگا اس نے بڑی اچھی ترکیب سوچی تھی کوئی ماں برداشت نہیں کر سکتی کہ اس کی اولاد کو اس کی آنکھوں کے سامنے اتنے پر شور دریا میں پھینک دیا جائے ہورشیش اور اس کی بیوی کے جذبات سگے ماں باپ والے تو ہو ہی نہیں سکتے تھے توقع ہی یہی تھی کہ لڑکی کی سگی ماں اپنی بیٹی کو بچانے کے لئے دوڑی آئے گی، مگر وہاں جو ہوا اس کی تو کسی کو توقع ہی نہیں تھی ہوا یہ کہ بستی کے ایک پہلو سے ایک گھوڑاسرپٹ دوڑتا نکلا سب نے ادھر دیکھا گھوڑ سوار رومی فوج کی اس پارٹی کا عہدہ دار تھا اس کا رخ لڑکی کی طرف تھا فاصلہ بہت ہی تھوڑا تھا۔
عینی ہوشیار!،،،، گھوڑسوار نے پرجوش آواز میں کہا۔۔۔ لڑکی نے ادھر دیکھا سوار سرپٹ دوڑتے گھوڑے سے لڑکی کی طرف جھکا اور دایاں بازو اس کی طرف پھیلا دیا لڑکی نے دونوں بازو پھیلا دیے کسی کو کچھ سوچنے کی مہلت ہی نہیں ۔
ان کے افسر نے لڑکی کے پہرے پر جن فوجی کو کھڑا کیا تھا وہ کچھ سمجھ گئے اور دونوں گھوڑے کے آگے آ گئے لیکن گھوڑا ان تک پہنچ چکا تھا اس نے دونوں کو ایسی ٹکر ماری کہ ایک تو لوٹتا ہوا دریا میں جاگرا اور دوسرا دوسری طرف گرا اس میں اٹھنے کی ہمت نہیں رہی تھی۔
 گھوڑے کی رفتار اور تیز ہو گئی اور جب گھوڑا آگے نکلا تو لڑکی کنارے پر نہیں تھی بلکہ سوار کی پیچھے بیٹھی ہوئی تھی اور اس نے دونوں بازو سوار کی کمر کے گرد لپیٹ لیے تھے ۔
فوجیوں کے گھوڑے ایک طرف کھڑے تھے ان کے افسر نے تعقب کا حکم دیا لیکن تعقب محذ بیکار تھا، یہ سب کچھ چند سیکنڈ میں ہوگیا
فوجی اپنے گھوڑوں کی طرف دوڑے کودکر سوار ہوئے اور اپنے عہدے دار کے پیچھے گھوڑے دوڑا دیے عہدے دار کا گھوڑا بھی فوجی گھوڑا تھا اور وہ خاصی دور نکل گیا تھا۔ تعقب اس لئے بیکار تھا کہ آگے علاقہ کچھ پہاڑی اور زیادہ تر جنگلاتی تھا ادھر کسی کو نظر نہیں آ رہا تھا اس کے گھوڑے کی ٹاپ سنائی دے رہے تھے جو اس کی رفتار کے ساتھ دور ہٹتے جارہے تھے سپاہی کچھ دور تک گئے اور ناکام لوٹ آئے۔

اس فوجی عہدیدار کا نام بن عامر تھا ، جواں سال اور بڑا ہی خوبرو آدمی تھا، وہ جب گشت پر نکلتا تو اس بستی میں ضرور آتا تھا، ایک بار اینی اور بن سامر کا آمنا سامنا ہو گیا ۔
جگہ ایسی تھی جہاں اور کوئی نہ تھا بن سامر نے اینی کا راستہ روک لیا، اینی مسکراتے مسکراتے سنجیدہ ہوگئی اور اس کے معصوم اور بھولے بھالے چہرے پر خوف کے آثار آگئے۔
تم فوجی ہوناں۔۔۔۔ اینی نے کہ۔۔۔ا تم سمجھتے ہو کہ جو چاہو کر سکتے ہو، ہم لوگوں پر یہی الزام کافی ہے کہ ہم قبطی ہیں اور بادشاہ کے مذہب کو نہیں مانتے تم مجھے زبردستی اٹھا لے جاؤ گے۔
بن سامر پر رومانی موڈ طاری تھا اس نے اینی کی یہ بات سنی تو اینی کی طرح اس کے چہرے پر بھی سنجیدگی آ گئی وہ ایک طرف ہو گیا اینی شاید بن سامر کے چہرے کے بدلے ہوئے تاثر سے متاثر ہو گی۔
 بن سامر نے اسے راستہ دے دیا اسے بھاگ جانا چاہیے تھا لیکن وہ وہیں کھڑی رہی۔
میں تمہارے نام سے بھی واقف ہوں اینی!،،،، بن سامر نے کہا۔۔۔ تمہیں دور دور سے دیکھتا رہا ہوں میری نیت بد ہوتی تو تمہیں آٹھواں لینا میرے لئے کوئی مشکل کام نہیں تھا ۔میں تمہارے ماں باپ کو حکماً اپنی چوکی پر بلوا سکتا تھا تم بھی دوڑی آتی۔
بن سامر جذباتی ہوتا چلا گیا اور اینی پر جیسے سحر طاری ہو گیا تھا ، وہ بھی بن عامر کی پرکشش شخصیت میں تحلیل ہوتی چلی گئی، اس پہلی ملاقات کے بعد اینی کئی بار بن عامر سے ملی بن سامر نےاینی کو عملاً یقین دلادیا تھا کہ وہ اینی کی عصمت کا لٹیرا نہیں،،،،،، محافظ ہے۔
میں تمہیں راز کی ایک بات بتانا چاہتا ہوں اینی!،،،،،، ایک ملاقات میں بن عامر نے اینی سے کہا ۔۔۔۔اب مجھے تم پر اعتبار آ گیا ہے کہ تم میرے راز کو اپنا ایک بڑا ہی نازک راز سمجھو گی میں قبطی عیسائی ہوں، لیکن ظاہر یہ کر رکھا ہے کہ میں شاہ ہرقل اور قیرس کی عیسائیت کا پیروکار ہوں لیکن میں کسی لڑکی کو نیل کی دلہن بنانے کو گناہ سمجھتا ہوں، میں قیرس کو اسقف اعظم نہیں مانتا، ہمارا اسقف اعظم بنیامین ہے وہ لڑکی کی قربانی کے سخت خلاف ہے۔
بن عامر اور اینی عیسائی تھے وہ جب چاہتے شادی کرسکتے تھے لیکن بن سامر نے اپنا اخلاقی فرض سمجھا کہ اینی کے والدین سے اجازت لے لے۔
 ایک روز اس نے اینی کے والدین کے ساتھ بات کی، دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور خاموش رہے آخر اینی کے باپ نے کہا کہ وہ اینی کو جواب دے دے گا۔
 اور اینی بن سامر  کو بتا دے گی۔
 اگلے ہی روز بن سامر گشت کے بہانے آیا اور اینی باہر جاکر اسے ملی۔
نہیں بن سامر ۔۔۔۔۔اینی نے بن سامر کو اپنے باپ کا جواب سنایا، نہ میرا باپ رضامند ہے نہ ماں وہ کہتے ہیں فوجی قابل اعتماد نہیں ہوا کرتے، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ فوجی سرکاری عیسائیت کے پیروکار ہوتے ہیں۔
کیا تم نے انہیں بتایا نہیں بن سامر نے پوچھا، 
بتایا ہے۔۔۔۔ اینی نے جواب دیا ۔۔۔۔میں نے بتایا ہے کہ بن سامر قبطی عیسائی ہے اور بنیامین کو اپنا اسقف اعظم مانتا ہے۔
 باپ نے کہا کہ وہ جھوٹ بولتا ہے کوئی فوجی کسی دوسری عیسائیت کا پیروکار نہیں ہوسکتا باپ نے یہ بھی کہا کہ اب تم بن سامر سے ملنا چھوڑ دو۔
تمہارا اپنا فیصلہ کیا ہے۔۔۔ بن سامر نے پوچھا۔
میرا کوئی اور فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔اینی نے جواب دیا۔۔۔۔ میں نے اپنے دل کو مذہب کا اور مذہب کے فرقوں کا پابند بنا رکھا ہی نہیں، اپنے والدین کا فیصلہ بدلنے کی کوشش کروں گی وہ نہ مانے تو میں تمہارے پاس آ جاؤں گی

عینی ابھی اپنے والدین کا فیصلہ بن سامر کے حق میں کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن والدین مان نہیں رہے تھے اتنے میں یہ واقعہ ہوگیا ۔بن سامر نے دیکھا کہ اینی کو ہورشیش کی بیٹی بنا کر اس کے افسر کے سامنے کھڑا کردیا تو بن سامر خاموش رہا اسے معلوم تھا کہ اینی کس کی بیٹی ہے۔
رومی افسر نے اینی کو دریا کے اونچے کنارے پر کھڑا کر کے اعلان کیا کہ اس لڑکی کے جو بھی ماں باپ ہیں وہ آگے آجائیں ورنہ لڑکی کو دریا میں پھینک دیا جائے گا۔ بن سامر کو یہ خطرہ صاف نظر آنے لگا کے لڑکی کے اصل والدین سامنے نہیں آئیں گے۔ اور ہورشیش سچ نہیں بولے گا ،اور رومی افسر اینی کو نیل میں دھکیل دے گا۔
 بن سامر کسی طرح بستی کے اندر چلا گیا کہ اسے کوئی دیکھ نہ سکا اس کا گھوڑا بستی کے باہر تھا سب کی نظروں سے اوجھل ہو کر بن سامر دوڑ کر اپنے گھوڑے تک پہنچا کود کر سوار ہوا اور پیشتر اس کے کہ کوئی سنبھل اور دیکھ سکتا کہ یہ کیا ہوا ہے، بن سامرنے اینی کو لے اڑا، اور پیچھے تڑپتا ہوا ایک سپاہی رہ گیا دوسرا سپاہی دریا میں ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔
رومی افسر غصے سے باؤلا ہونے لگا اس نے ہوشیش اور اس کی بیوی کو دیکھا ان کے چہروں پر رنج یا افسوس کا کوئی خاص تاثر نہیں تھا ۔ اس افسر کے لیے یہ معلوم کرنا کے اینی کس کی بیٹی تھی بہت ہی مشکل تھا لیکن جس ماں اور جس باپ کی وہ بیٹی تھی وہ کیسے برداشت کر لیتے کہ ان کی بیٹی کو ایک فوجی لے گیا ہے۔
اینی کا باپ افسر کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ یہ گھوڑسوار کون تھا جو اس کی بیٹی کو لے گیا ۔
صحیح بات سامنے آگئی۔۔۔ رومی افسر نے غصے میں حکم دیا کہ بستی کو آگ لگا دو لوگ تڑپ اٹھے اور سب نے واویلا باپا کردیا رومی افسر نے انہیں خاموش کرایا اور کہا کہ کوئی ایک آدمی بات کرے۔
لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ وہ سب ان پڑھ اور پسماندہ ہیں، مذہب کے معاملات کو وہ نہیں سمجھتے انہیں پادری جو بات کہتے ہیں وہ اسی کو صحیح مان لیتے ہیں کوئی ماں باپ اپنی نو جوان اور کنواری بیٹی کو دریا میں پھینک دینا برداشت نہیں کرسکتا ۔ یہ مذہبی پیشواؤں کا عقیدہ ہے اور وہ لوگوں سے کہتے ہیں کہ نیل کو کچھ عرصے بعد ایک کنواری لڑکی نہ دو تو یہ لوگوں کے لئے غضب کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
میں  بھی تمہاری طرح عیسائی ہوں۔۔۔ رومی افسر نے کہا۔
اور میں قبطی بھی ہوں لیکن لڑکی کی قربانی کو میں ظلم اور بہت بڑا گناہ سمجھتا ہوں یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے مردوں کو زندہ کیا تھا پھر ہم کس طرح مان لیں کے ایک لڑکی کی جان لینا عیسائیت میں جائز ہے؟ 
حضرت عیسی علیہ السلام نے کوڑھیوں کو شفا بخشی تھی، اور انہوں نے پیار اور محبت کا راستہ دکھایا تھا ،کیا تم نہیں جانتے ہمارا خدا کون ہے ہمارا خدا وہ ہے جو ہمیں حضرت عیسی علیہ السلام نے دکھایا تھا، یہ دریا ہمارا خدا نہیں ہو سکتا اور یہ وصف خدا کا ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ ایک معصوم انسان کی جان لے کر خوش ہوتا ہو۔
پھر ہمیں یہ بتا۔۔۔۔ ایک آدمی نے پوچھا کیا ہم وہ عیسائیت کو بھول جائیں جو ہمارے بادشاہ ہرقل نے رائج کی ہے۔
رومی افسر اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا تھا کیونکہ وہ ھرقل کی فوج کا افسر تھا اور اس کی وفاداری ہرقل کے ساتھ تھی اگر وہ کہہ دیتا کہ ہرقل والی عیسائیت صحیح نہیں، اور اس کی مخبری ہوجاتی تو اس کی سزا موت سے کم نہیں ہوسکتی، کی قربانی جرم ہے اور اس کی سزا موت ہے۔
اس نے ہورشیش سے پوچھا کہ اس نے جھوٹ کیوں بولا تھا۔
میری یہی ایک بیٹی تھی۔۔۔ ہورشیش نے کہا ان لوگوں نے بڑے پادری کے حکم سے اسے دریا میں پھینک دیا میں اس کوشش میں تھا کہ بستی والوں کو پتہ نہ چلے کہ میں نے مخبری کی ہے لیکن یہ دیکھ کر کے آپ بستی کو جلا دینے کا حکم دے رہے ہیں تو میں سچ بول رہا ہوں میں بستی کو نذرآتش ہونے سے بچانا چاہتا ہوں اگر بستی والے مجھے غداری کی سزا دینا چاہیں تو مجھے وہ سزا قبول ہے۔
یہ خوف دل سے نکال دو ۔۔۔رومی افسر نے کہا ۔۔۔۔میری موجودگی میں تمہیں کوئی سزا نہیں دے سکتا میں تم سب کی تعریف کرتا ہوں کہ تم میں اتحاد اور اتفاق ہے میں تمہارا یہ اتحاد قائم رکھنا چاہتا ہوں تمھاری بستی کو کوئی نہیں جلائے گا لیکن اس بستی میں سے کسی لڑکی کی قربانی دی گئی تو پھر میرا رویہ وہی ہوگا جو شاہ ہرقل کے حکم کے مطابق ہونا چاہئے۔
ہم اپنے بڑے پادری کے حکم کے پابند ہیں۔۔۔۔ ایک آدمی نے کہا ۔
رومی افسر نے ان لوگوں سے معلوم کر لیا کہ بڑا پادری کہاں رہتا ہے اور اس کے ساتھ اس قسم کی کارروائیوں میں کون کون ہوتا ہے لوگوں نے رومی افسر کو یہ ساری معلومات دے دیں اور اس شخص یعنی ماہی گیروں کے سردار کا نام بھی بتا دیا۔
رومی افسر نے اسی وقت وہاں سے اپنے سپاہیوں کو اکٹھا کیا اور اس بستی کی طرف گھوڑوں پر سوار ہو کر چلا گیا جس میں بڑا پادری رہتا تھا۔
 پادری وہاں مل گیا اس کے تین چار چیلے بھی اسی بستی میں رہتے تھے ان سب کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسی رات رومی افسر اس بستی میں پہنچا جہاں ماہی گیروں کا سردار بابا رہتا تھا اسے بھی گرفتار کر لیا گیا۔

دوسرے دن رومی افسر چند ایک گھوڑسوار سپاہیوں کے ساتھ بستی میں جا پہنچا ،جہاں لڑکی کی قربانی دی گئی تھی اب اس کے ساتھ فوج کا ایک بڑا افسر بھی تھا ،اس کے علاوہ اس کے ساتھ بڑا پادری ،پادری کے تین چار ساتھی اور ماہی گیروں کا بابا بھی تھا، یہ سب زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے ،اور ان کے پیروں میں بیڑیاں تھیں ۔بستی کی ساری آبادی کو باہر نکال لیا گیا زنجیروں میں بندھے ہوئے ملزموں کو دریا کے اونچی چٹانی کنارے پر کھڑا کردیا گیا۔
انہیں غور سے دیکھو ۔۔۔بڑے فوجی افسر نے لوگوں سے کہا۔۔۔ اور پوچھا کیا یہی وہ لوگ جنہوں نے پہلے ایک لڑکی کو یہاں سے دریا میں پھینکا تھا اور پھر ہورشیش کی بیٹی کو بھی دریا میں پھینک دیا تھا۔
یہی ہیں ۔۔۔ حورشیش کی آواز تھی۔
یہی ہیں ۔۔۔۔دو تین اور آوازیں اٹھیں۔
سب بولو۔۔۔ فوجی افسر نے کہا۔
ہاں یہی ہیں ۔۔۔ساری آبادی بول اٹھی۔
افسر نے سر سے اشارہ کیا ،سپاہی مجرموں کی طرف دوڑے گئے ان کی زنجیر اور بیڑیاں اتار لیں ،اور انہیں دریا کے اونچے کنارے پر کھڑا کردیا ،دوسرے کئی ایک سپاہیوں کے پاس تیر اور کمان تھی، اپنے افسر کے اشارے پر انھوں نے کمانوں میں تیر ڈالے اور دوسرے ہی لمحے یہ تیر مجرموں کے جسموں میں داخل ہو چکے تھے۔
 ان میں سے کچھ اس طرح گرے کے بلند کنارے سے دریا میں جا پڑے اور جو ایک دو کنارے سے ہٹ کر گرے انہیں سپاہیوں نے پاؤں کی ٹھوکروں سے دریا میں پھینک دیا۔
اس وقت بن سامر اور اینی وہاں سے بہت دور ریگستان میں جارہے تھے ۔
اینی بن سامر کے پیچھے گھوڑے پر بیٹھی تھی، مجھے صرف اپنے ماں باپ کا خیال آتا ہے اینی کہہ رہی تھی رومی فوجی انہیں مار ڈالیں گے۔
کچھ تو قربانی دینی پڑتی ہے اینی!،،، بن سامر نے کہا۔۔۔ میرے بھی ماں باپ ہیں اور یہ بھی دیکھو کہ میں نے اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈال دیا ہے،  میں جب پکڑا جاؤں گا تو مجھے جلاد کے حوالے کردیا جائے گا، ایک تو میں نے فوجی قانون کے خلاف ورزی کی ہے، اور فوج کے دو سپاہیوں کو مار آیا ہوں، وہ جو دو سپاہی میرے گھوڑے کے آگے آگئے تھے وہ زندہ نہیں رہے ہونگے، اب پیچھے نہ دیکھو آگے کا خیال کرو میں تمہیں قبطی عیسائیوں کے بڑے پادری بنیامین کے پاس  لے جا رہا ہوں وہ کوئی راستہ دکھا دے گا۔
بن سامر کو بنیامین کے ٹھکانے کا علم تھا۔ پچھلے باب میں بیان ہوچکا ہے کہ بنیامین شہروں اور بستیوں سے بہت دور دشوار گزار ریگستان میں ایک ایسی جگہ روپوش تھا۔ جس کے اردگرد ریت اور مٹی کے ٹیلے اور نشیب و فراز تھے۔
 بن سامر کو یہ ٹھکانہ اس طرح معلوم تھا کہ وہ بنیامین کی ہی ایک خفیہ تنظیم کا آدمی تھا،
ہرقل نے قیرس نام کے ایک بڑے پادری کو اپنی بنائی ہوئی عیسائیت کا اسقف اعظم بنا دیا ، اور اسے کلی اختیارات دے دیے تھے کہ وہ ظلم اور درندگی کے ذریعے سرکاری عیسائیت لوگوں سے منوائے، قیرس نے کسی ایسے پادری کو زندہ نہیں رہنے دیا تھا جس نے اس کی اور ہرقل کی عیسائیت کو قبول نہیں کی تھی، انہیں صرف مار ہی نہیں ڈالا تھا، بلکہ ایسی اذیت دی تھی کہ وہ مرتے بھی نہیں اور جیتے بھی نہیں تھے۔
 مثلا اپنے مخالف کے کپڑے اتار کر اور لٹا کر اسکے جسم پر دہکتے ہوئے انگارے یا جلتی ہوئی مشعلیں رکھ دی جاتی تھی، اور پھر اسے کہا جاتا تھا کہ وہ ھرقل کی عیسائیت کو قبول کر لے اور اسی عیسائیت کو گرجوں میں رائج کرے۔
یہ تو سرکاری کارروائیاں تھی جو کھلم کھلا کی جاتی تھیں، تاکہ لوگوں کے دلوں پر دہشت طاری ہوجائے لیکن بنیامین نے ایک خفیہ تنظیم بنا لی تھی جس میں عیسائیت کے عالم بھی تھے اور بن ثامر جیسے دلیر اور نڈر فوجی بھی تھے ،جو اپنی جان پر کھیل جانے کو ایک کھیل ہی سمجھتے تھے ۔
بن سامر اسی تنظیم کا جاں باز تھا اسے بنیامین کے ہاں ہی پناہ مل سکتی تھی۔



Post a Comment

if you have any doubt please let me know

Previous Post Next Post