4TH EPISODE |AND NILE FLOWING ON|INAYATULLAH ALTAMASH


ISLAMIC HISTORY AND LITERATURE EPISODE 4

AOR NEEL BEHTA RAHA EPISODE NO 4 ISLAMIC NOVEL

NOVEL INAYATULLAH ALTAMASH MUSLIMS HISTORY

RIVER NILE,HISTORY OF MUSLIMS,NOVEL,ISLAMIC ,LITERATURE,HAZRAT KHALID BIN WALEED



*اور نیل بہتا رہا*



*قسط نمبر 4*


بات جب فتح مصر پر آتی ہے تو لامحالہ یہ سوال ہوتا ہے کہ اس وقت مصر میں حکومت کس کی تھی اور جب تاریخ یہ جواب دیتی ہے، کہ اس وقت رومی مصر پر قابض تھے اور حکمران ہرقل تھا تو یاد آتا ہے کہ ہرقل تو ملک شام میں تھا اور یہ سارا خطہ اس کی حکمرانی میں تھا پھر ہرقل مصر کس طرح پہنچ گیا؟
شام سے ہر قل اپنی مرضی سے مصر نہیں گیا تھابلکہ  اسے مسلمانوں نے شام سے بھگایا تھا ۔
اس وقت دنیا میں دو ہی جنگی طاقتیں  تھی ایک آتش پرست ایرانی اور دوسرے رومی  بہت مدت پہلے رومیوں نےعیسائیت قبول کر لی تھی یہ دونوں طاقتیں مشرق وسطیٰ میں ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتی تھی کبھی ایرانی شام اور مصر  پر قابض ہوجاتے تھے تو کبھی رومی انہیں شکست دے کر ان سے یہ علاقہ چھین لیا کرتے تھے۔
ان دونوں طاقتوں کے کبھی تصور میں بھی نہیں آیا تھا کہ افق اسے ایک تیسری طاقت بھی ابھرے گی جو ان دونوں طاقتوں کو ریزہ ریزہ کرکے بکھیر دے گی عربوں سے تو یہ لوگ کوئی ایسی توقع رکھتے ہی نہیں تھے عربوں کو جاھل اور پسماندہ بدو کہا کرتے تھے۔
 لیکن اسی عرب کے ایک غار کی تاریکی سے اللہ کانور پھوٹا جس کی کرنیں بڑی تیزی سے پھیلتی چلی گئیں اور لوگوں کے دل و دماغ کو منور کرتی گئیں۔
 اس غار کو غار حرا کہتے ہیں یہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی تھی اور آپ کو اللہ تبارک وتعالی نے رسالت عطا فرمائی تھی ۔
یہاں سے تیسری جنگی طاقت ابھرنے لگی لیکن ایک فرق کے ساتھ ،اس تیسری طاقت کو صرف جنگی ہتھیاروں پر بھروسہ نہیں تھا بلکہ یہ طاقت عظیم نظریے سے لیس تھی اور اس نظریے میں اللہ کی طاقت شامل تھی، ایرانیوں اور رومیوں کو اپنے بےانداز گھوڑوں اور تیر و تفنگ  پر ناز تھا ۔
لیکن جب ان کے بڑے بڑے لشکر مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے لشکروں کے مقابلے میں آئے تو ان کے لیے میدان میں ٹھہرنا محال ہو گیا یہ ایک نظریے اور عقیدے کا کرشمہ تھا جسے آج تک اللہ کا دین کہا جاتا ہے۔
تاریخ آج بھی حیران ہے کہ جن رومیوں نے ایرانیوں جیسی طاقت کو پے در پے شکست دے دی تھی وہ مٹھی بھر مسلمانوں کے ہاتھوں کس طرح پیٹ گئے اور پیٹے بھی ایسے کہ مسلمانوں نے انہیں شام سے بےدخل ہی کر ڈالا اور ان کی فوجوں نے مصر میں جا دم لیا۔
تاریخ حیرت کا اظہار بھی کرتی ہے اور اس سوال کا جواب بھی تاریخ کے دامن میں موجود ہے ایک ایک لمحے کی داستان مسلم اور غیر مسلم مؤرخوں نے قلم بند کرکے تاریخ کے حوالے کر دی تھی اور وہ آج بھی دنیا کے سامنے موجود ہے یہ تفصیلات جنگی نوعیت کی ہے مورخوں نے مسلمانوں کی جنگی اہلیت جذبہ اور فن حرب و ضرب کے معجزہ نما کارنامے لکھیں ہیں۔
 انہوں نے مسلمان سپہ سالاروں کی جنگی چالوں پر قیادت پر اور لشکروں میں ڈسپلن قائم رکھنے پر خراج تحسین پیش کیا ہے لیکن ایک پہلو ایسا ہے جو مؤرخوں نے نظر انداز کیا ہے ،یا وہ اس سے واقف ہی نہیں تھے اس کی صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
جب مسلمان ابو عبیدہ ،خالد بن ولید، اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنھم کی قیادت میں رومیوں سے برسرپیکار تھے اور ہر میدان سے رومیوں کے پاؤں اکھڑتے جا رہے تھے اس وقت اس علاقے کا ایک بڑا قلعہ بند شہر بہت شہرت یافتہ تھا یہ تھا قنسرین ۔
اس کی دفاعی پوزیشن بڑی ہی مضبوط تھی یہ ایک الگ داستان ہے کہ حضرت خالد بن ولید نے قنسرین کو کس طرح فتح کیا تھا۔
 یہاں بات ایک شخصیت کی سامنے آتی ہے جس کے حوالے سے ہم اسلام کی بنیادی تعلیمات اور عظمت واضح کریں گے۔
اس علاقے میں ایک شخص جبلہ بن الیہم غسانی تھوڑے سے علاقے کا بادشاہ بنا ہوا تھا۔
 یہ اس کا اپنا قبیلہ تھا جو بنو غسان کے نام سے مشہور تھا وہ رومیوں کا دوست تھا اور جبلہ بن الیہم رومیوں کے شانہ بشانہ لڑنے کے سوا انہیں ہر طرح کی مدد دیتا تھا۔
 جبلہ بے پناہ دولت اور خزانوں کا مالک تھا اور موقع پرست بھی تھا وہ رومیوں کا تو دوست تھا لیکن مسلمانوں کو وہ اس طرح دشمن نہیں سمجھتا تھا جس طرح رومی سمجھتے تھے جبلہ بڑے ہی صاف ستھرے ذوق و شوق کا مالک تھا اسے عرب کے شاعروں کے ساتھ دلی محبت تھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شاعر حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ تو اسے سب سے زیادہ عزیز تھے اور انکے کلام پر وہ وجد میں آ جایا کرتا تھا ۔
اس کے باوجود وہ رومیوں کا حلیف تھا ۔
جو اس کی مجبوری تھی کیونکہ اس کی چھوٹی سی سلطنت رومیوں میں گھری ہوئی تھی۔
ہرقل جب مسلمانوں سے شکست کھا کر بھاگا تو جبلہ بن الیہم نے اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ اسلام قبول کرلے اس علاقے میں مجاہدین کے جو لشکر لڑ رہے تھے ان کے سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ تھے جبلہ بن الیہم نے ان کی طرف اپنا ایلچی اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ وہ اپنے تمام تر قبیلے غسان کے ساتھ اسلام قبول کرنا چاہتا ہے ۔
ابو عبیدہ کی نگاہ میں یہ ایک بڑی فتح تھی انہوں نے اپنے ان دو تین آدمیوں کو جبلہ کے پاس بھیجا جو غیر مسلموں کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کے طریقے سے اچھی طرح واقف تھے۔
 یہ آدمی وہاں گئے اور جبلہ اپنے پورے قبیلے کے ساتھ مسلمان ہوگیا۔
 ابو عبیدہ نے یہ اطلاع امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو بھیجی۔
 تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس اطلاع پر اتنا خوش ہوئے کہ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
جبلہ کو سرزمین عرب کی یاد ستا رہی تھی وہ اپنے محبوب شاعروں کے وطن کو دیکھنا چاہتا تھا ۔
اس نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کی خدمت میں اپنا ایک ایلچی اس درخواست کے ساتھ بھیجا کہ وہ ان کے حضور حاضری دینا چاہتا ہے۔
 اور اس کی خواہش ہے کہ فریضہ حج بھی ادا کرے ۔
حضرت عمر نے اسے اجازت دے دی امیرالمومنین جانتے تھے کہ جبلہ بن الیھم کس پائے کا آدمی ہے اور وہ حج کر کے پکا مسلمان بن جائے گا اس کا پورا قبیلہ مسلمان ہو کر مسلمانوں کا ایک بازو بن گیا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=۔=÷=÷*
ایک روز امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ کو اطلاع دی گئی کہ جبلہ بن الیھم غسانی آ رہا ہے۔
 یہ مدینہ کا واقعہ  ہے مدینہ شہر میں تو ہنگامہ برپاہوگیا جبلہ بن الیہم اپنے چند ایک مصاحبوں کے ساتھ نہیں آرہا تھا بلکہ اس کے ساتھ پانچ سو افراد تھے جن میں اکثریت اس کے شاہی خاندان کی تھی اور باقی قبلہ غسان  کے سرکردہ افراد تھے اور ان سب کی عورتیں بھی ساتھ تھی ۔
حضرت عمر نے کہا کہ مدینہ کے لوگ باہر نکل کر جبلہ اور اس کے ہمراہیوں کا استقبال کریں ۔
اور اسے پوری تعظیم دیں لوگ پہلے ہی گھروں سے نکل آئے تھے اور عورتیں منڈیروں پر کھڑی ہو کر اس قافلے کو دیکھنے لگیں۔
جبلہ اپنے دو سو سواروں کو خصوصی لباس پہننے کو کہا اس مقصد کیلئے یہ قافلہ مدینہ سے کچھ دور رہ گیا ۔
ان سواروں نے جب لباس پہنا تو دیکھنے والے حیران رہ گئے کیونکہ یہ بڑی ہی قیمتی ریشم کا لباس تھا ہر سوار اپنی اپنی جگہ بادشاہ اور شہزادہ لگتا تھا ۔
ان کے گھوڑوں کے گلوں میں سونے اور چاندی کے ہار ڈالے ہوئے تھے گھوڑوں پر رنگا رنگ ریشمی چادر پڑی ہوئی تھی جبلہ نے اپنے سر پر تاج رکھ لیا اس کا اپنا لباس تو انتہائی قیمتی تھا آخر بادشاہ تھا خواہ اس کی بادشاہی محدود سے علاقے میں تھی یہ قافلہ جب شہر میں داخل ہوا تو شہر کے لوگوں پر سناٹا طاری ہو گیا بعض نے حیرت سے انگلیاں دانتوں تلے دبا لیں، انہوں نے اتنے قیمتی لباس کبھی نہیں دیکھے تھے۔
 وہ اس لئے بھی حیران ہو رہے تھے کہ یہ لوگ مسلمان ہوگئے ہیں پھر بھی انہوں نے اپنی شاہانہ انداز نہیں چھوڑے۔
حضرت عمر جبلہ کے استقبال کے لیے باہر نہ آئے جبلہ ان کے ملاقات کے کمرے میں داخل ہوا تب امیرالمومنین نے اٹھ کر اسے گلے لگایا اور جس طرح خود فرش پر بیٹھا کرتے تھے اسی طرح اسے اپنے پہلو میں بٹھا لیا اور اسے مبارک باد دی کہ اس نے اللہ کا سچا دین قبول کرلیا ہے اور اب کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی۔
 جبلہ اپنے پانچ سو ہمراہیوں کے لئے نہایت خوبصورت اور قیمتی خیمے ساتھ لایا تھا۔
 امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اسے ایک نہایت اچھی جگہ دے دی جہاں اس کے آدمیوں نے ترتیب سے خیمہ گاڑ لئے اور وہاں ایک الگ تھلک بستی آباد ہوگی یہ بستی شہر سے کچھ دور تھی۔
روز حج قریب آرہا تھا ایک روز امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے ساتھ لیا اور حج کیلئے مکہ کو روانہ ہوگئے اس وقت مکہ سلطنت اسلامیہ میں شامل ہو چکا تھا اب صلح حدیبیہ کی پابندیاں ختم ہوگئی تھی ۔
جبلہ حج کے لئے چلا تو اس کے ساتھ چند ایک ہی اپنے آدمی تھے باقی سب کو وہ مدینہ چھوڑ گیا فریضہ حج ادا کرنے کے لئے جبلہ نے جو احرام باندھا تھا وہ اس کے ٹخنوں سے نیچے چلا گیا تھا ۔
خانہ کعبہ کے طواف کے دوران پیچھے آنے والے ایک آدمی کا پاؤں اس کے احرام پر جاپڑا اور احرام کھل گیا۔
 اس شخص کی اس حرکت کو وہ اپنی توہین سمجھا اور پیچھے مڑ کر اس آدمی کی ناک پر بڑی زور سے مکا مارا اس آدمی کی ناک سے خون بہنے لگا۔
اس وقت حضرت عمر اس کے ساتھ نہیں تھے انہیں بعد میں اطلاع ملی کہ جبلہ نے یہ حرکت کی ہے ۔
حضرت عمر نے اس آدمی کو بلایا اور اس آدمی نے بھی شکایت کی کہ جبلہ نے اس کی ناک پر مکا مارا ہے جس سے اس کی ناک سے خون بہنے لگا تھا اور وہ طواف مکمل نہیں کر سکا تھا۔
 اس شکایت کے بعد حضرت عمررضی اللہ عنہ کی حیثیت بالکل ہی بدل گئی وہ اب جبلہ کے میزبان نہ رہے بلکہ وہ خلیفۃالمسلمین بن گئے اور اس کے ساتھ ہی ان پر قاضی کے فرائض بھی آپڑے انہوں نے جبلہ بن الیہم کو طلب کیا جبلہ فوراً پہنچا اس کا انداز شاہانہ تھا اور وہ حضرت عمر کے پہلو میں بیٹھنے لگا ۔
خلیفہ یہ عزاز کسی بڑے ہی اہم مہمان کو دیا کرتے تھے کہ اسے اپنے ساتھ بٹھا تے جبلہ کو بھی انہوں نے یہی مقام دیا تھا لیکن اب صورت حال کا تقاضا کچھ اور تھا۔
تم یہاں سے اٹھو اور وہاں سامنے بیٹھو حضرت عمر نے جبلہ کو اپنے پہلو سے اٹھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ تم اب میرے میزبان نہیں ملزم ہو۔۔۔ جبلہ بادل نخواستہ اٹھا اور وہاں جا
 بیٹھا جہاں حضرت عمر نے بیٹھنے کو کہا ،اس کے چہرے پر غصے کا تاثر آ گیا اور کچھ حیرت بھی۔
 جبلہ بن ایھم ،،،،حضرت عمر نے پوچھا کیا تم نے اس شخص کی ناک پر مکہ مارا ہے ۔
ہاں جبلہ نے نڈر ہو کر جواب دیا میں نے اس کی ناک پر مکہ مارا ہے کیونکہ اس نے میرے احرام پر پاؤں رکھ دیا تھا۔
اس شخص کا بیان ہے کہ بھیڑ کی وجہ سے اسکا پاؤں تمہارے احرام پر آگیا تھا ۔۔۔۔
حضرت عمر نے کہا۔۔۔۔اور طواف کے دوران ایسا ہو ہی جاتا ہے اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اس نے دانستہ تمہارے احرام پر پاؤں رکھ دیا تھا تو یہ بتاؤ تمہیں یہ حق کس نے دیا ہے کہ تم اسے سزا دو؟
تم نے یہ معلوم کرنے کی زحمت کیوں گوارا نہ کی کہ اس شخص سے پوچھ لیتے کہ اس نے یہ حرکت کیوں کی ہے؟
یہاں تو میں نے اسے ایک مکا مارا ہے۔۔۔۔
 جبلہ نے کہا ۔۔۔۔اگر یہ میرے یہاں ہوتا تو میں اسے ایسی سزا دیتا جو دوسروں کے لئے عبرت ہوتی۔۔۔۔۔
 وہاں تمہارا اپنا قانون چلتا ہوگا ۔۔۔۔
حضرت عمر نے کہا تم نے اسلام قبول کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے اسلام کے عدل و انصاف کے اوصول بھی قبول کر لیے ہیں اسلام کے قانون کے مطابق تمہیں اس کی سزا بھگتنی ہوگی۔
میں نے آپ کو امیر المومنین تسلیم کرلیا ہے۔ جبلہ نے ناگواری کے لہجے میں کہا۔
 لیکن میں حیران ہوں کہ آپ کیسے امیرالمومنین ہیں کہ چھوٹے بڑے کے فرق کو بھی نہیں پہچانتے میں اپنے خطے کا بادشاہ ہوں اور یہ ایک معمولی سا آدمی ہے کیا یہ میری توہین نہیں کہ آپ نے مجھے ایک معمولی آدمی کے ساتھ بٹھا دیا اور میرے ساتھ ایک ملزم جیسا سلوک ہو رہا ہے۔
 اسلام نے تم دونوں کی حیثیت ایک کر دی ہے حضرت عمر نے کہا۔۔۔۔۔ صرف زہد اورتقوی ہے جو کسی کو کسی پر فضیلت دے سکتا ہے چھوٹے بڑے کے لیے دولت اور بادشاہی کا پیمانہ اسلام میں نہیں چل سکتا ۔
اللہ نے سب کو ایک جیسا پیدا کیا ہے تمہارا ایک جرم یہ ہے کہ تم نے خانہ کعبہ میں بدتمیزی کی اور دوسرا یہ کہ ایک آدمی کو مکا مار کر اس کا خون بہایا جس کی وجہ سے وہ طواف مکمل نہ کر سکا ۔
معلوم ہوتا ہے کہ میں غلط جگہ آ گیا ہوں ۔
جبلہ نے کہا ۔۔۔۔میں تو سمجھتا تھا کہ مسلمان کوئی امیر کبیر لوگ نہیں بلکہ ان میں اکثریت غریبوں کی ہے اس لیے مجھے یہاں زیادہ احترام ملے گا۔
 اگر احترام چاہتے ہو تو ایک طریقہ ہے ۔
حضرت عمر نے کہا ۔۔۔۔اس شخص سے معافی مانگ لوں اگر یہ تمہیں معاف کردیتا ہے تو میں تمہیں کوئی سزا نہیں دوں گا۔
 تو کیا اس سے بہتر نہ ہوگا کہ میں عیسائی مذہب میں چلا جاؤں ۔جبلہ نے کہا ۔۔۔عیسائیوں میں تو میرے ساتھ ایسا سلوک کبھی نہ ہو ۔
میں تمہیں اسلام کا یہ قانون بھی بتا دیتا ہوں حضرت عمر نے کہا۔۔۔۔ کہ اگر تم سزا سے بچنے کے لئے عیسائیت میں چلے جاؤ گے تو میں تمہارے قتل کا حکم دے دوں گا۔
 یہ بھی سوچ لے امیرالمومنین۔
 جبلہ نے کسی حد تک رعونت سے کہا۔۔۔ اگر آپ میرے ساتھ یہ سلوک روا رکھیں گے تو میری اور میرے اتنے بڑے قبیلے کی دوستی سے محروم ہو جائیں گے میرا قبیلہ اتنا دولت مند ہے کہ زروجواہرات میں کھیلتا ہے ۔
پھر میرا قبیلہ ایک طاقت ہے کیا آپ اپنا اتنا زیادہ نقصان پسند کریں گے؟
ہم صرف اسلام کا نقصان برداشت نہیں کرسکتے۔۔۔۔ حضرت عمر نے کہا۔۔۔ ہم اپنا مال ومتاع اپنے بچے اور اپنی جان  اسلام پر قربان کرنے والے لوگ ہیں۔
 ہمیں اگر کسی کی دوستی کی ضرورت ہے تو وہ صرف اللہ تبارک وتعالی ہے۔
 میں اس معاملے کو اور زیادہ طول نہیں دوں گا اس شخص سے معافی مانگوں اگر یہ تمہیں معاف کرتا ہے تو تمہارے لیے کوئی سزا نہیں ورنہ تمہیں سزا لینی پڑے گی۔
 جبلہ گہری سوچ میں کھو گیا۔
 امیرالمومنین!
آخر اس نے سر اٹھا کر کہا ۔۔۔مجھے صرف آج رات کی مہلت دے دیں میں صبح ہوتے ہی بتا دوں گا کہ میں اس شخص سے معافی مانگوں گا یا سزا بھگتوں گا ۔
حضرت عمر نے اسے سوچنے کی مہلت دے دی اور اسے یہ اجازت بھی دے دی کہ وہ اپنی قیام گاہ میں چلا جائے اور کل صبح پھر پیش ہو جائے۔
 یہ معاملہ اتنا مشہور ہوگیا کہ جب جبلہ باہر نکلا تو حاجیوں کا ایک ہجوم باہر کھڑا تھا ۔
یہ سارا ہجوم انصاف کا مطالبہ کر رہا تھا ۔
آخر ہجوم کو بتایا گیا کہ فیصلہ کل ہوگا۔
 اگلے روز کی صبح طلوع ہوئی تو جبلہ نہ آیا اسے نماز پڑھنے بھی نہ دیکھا گیا، سورج طلوع ہوا اور پھر اوپر آنے لگا، تب امیرالمومنین نے حکم دیا کہ جبلہ کو پکڑ کر لایا جائے ۔
کچھ آدمی دوڑے گئے تو دیکھا کہ جبلہ وہاں نہیں تھا خیمے لگے ہوئے تھے لیکن خالی تھے جبلہ اور اس کے ساتھیوں کے گھوڑے غائب تھے ۔
جبلہ بھاگ گیا تھا اس کے پانچ سو سوار اور دیگر افراد مدینہ میں موجود تھے۔
 اس کا تعاقب بیکار تھا کیوں کہ ایک رات سے زیادہ وقت گزر گیا تھا ۔
اور جبلہ یقینا بہت دور نکل گیا تھا وہ اپنے ان چند ایک ساتھیوں کے ساتھ مدینہ پہنچا اور اپنے تمام ساتھیوں کو بڑی عجلت سے تیار کروایا اور مدینہ سے بھاگ گیا ۔
مدینہ والوں کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ جبلہ کیوں واپس جارہا ہے؟
اور امیرالمؤمنین مکہ میں کیوں رہ گئے ہیں؟
 اس وقت ہرقل روم قسطنطنیہ میں تھا جبلہ اس کے پاس گیا اور اس سے معافی مانگی کے اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
 اور یہ واقعہ ہوگیا اس لیے وہاں سے بھاگ آیا ہے ۔
ہرقل بہت خوش ہوا کہ اتنا طاقتور قبیلہ پھر اس کا حلیف بن گیا ہے۔ ہرقل نے اسے کچھ اور جاگیر دے دی ۔
یہ تھی اسلام کی وہ قوت جس نے آتش پرست ایرانیوں اور رومیوں کو شکست دی تھی۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
 اب ہم ہرقل کی طرف آتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ تاریخ کیا بتاتی ہے کہ وہ شام سے کس طرح بھاگا تھا۔
 اسے اپنی طاقت پر اس قدر ناز تھا کہ اسے یقین ہو گیا تھا کہ اس کی بادشاہی کو کبھی زوال نہیں آئے گا۔
اور روم کی سلطنت وسیع ہوتی چلی جائے گی ۔
لیکن مسلمانوں نے اس کے لیے ایسی صورت حال پیدا کر دی تھی کہ وہ پیچھے ہٹتا ہوا جس شہر میں پہنچتا وہاں مسلمان پہنچ جاتے۔
  اور اس شہر کو محاصرے میں لے لیتے تھے۔
 آخر وہ انطاکیہ کے قلعہ بند شہر میں جا پہنچا لیکن ابو عبیدہ نے اسے وہاں بھی بیٹھنے نہ دیا آخر وہ چھوٹے سے ایک شہر رہاء پناہ گزین ہوا ۔
ایلفرڈ بٹلر لکھتا ہے کہ اسے توقع تھی کہ وہ اپنی بکھری ہوئی فوج کو وہاں ایکجا کر لے گا اور مسلمانوں کا جم کر مقابلہ کرے گا ۔
ہوسکتا ہے وہ مسلمانوں کو شکست دے دے لیکن وہ جدھر بھی پیغام بھیجتا تھا ادھر سے کوئی جواب آتا ہی نہیں تھا۔
 اور اگر جواب آتا بھی تھا تو وہ مایوس کن ہوتا تھا اسلام کے عظیم سپہ سالاروں نے رومیوں کی بکھری ہوئی فوج کے مطابق اپنی فوج کو بھی تقسیم کر دیا تھا اور رومیوں کے لیے ناممکن ہو گیا تھا کہ وہ اپنی فوج کو کسی ایک مقام پر یکجا کر لیتے۔
 ہرقل رہاء میں قیام کیا۔
 اس کا شاہی خاندان اس کے ساتھ تھا دو جوان بیٹیاں تھیں، اور بیویوں کی تعداد بھی خاصی تھی، وہ بیویاں تو برائے نام تھی سب داشتائیں تھیں ،اس کے علاوہ تمام تر شاہانہ لوازمات اس کے ساتھ تھے اس حالت میں بھی وہ فرعون جیسا بادشاہ تھا ۔
اس نے دربار منعقد کیا جیسا وہ کیا کرتا تھا۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس نے بڑے ہی قابل جوتشی اور نجومی اپنے ساتھ رکھے ہوئے تھے ۔
مسلمان اپنے اللہ پر یقین رکھتے تھے اور اس کی خوشنودی کی خاطر لڑتے اور جانیں قربان کرتے تھے۔
 لیکن ہرقل اگلا قدم اٹھانے سے پہلے جوتشوں اور نجومیوں سے پوچھتا تھا کہ اسے یہ قدم اٹھانا چاہیے یا نہیں اور اگر اٹھانا ضروری ہے تو اس کے لئے کون سا دن اور کون سا وقت موزوں ہوگا۔
 اس نے دربار منعقد کیا اور حکم دیا کے اس کے نجومی کو حاضر کیا جائے۔
 نجومی پیغام ملتے ہی دوڑا آیا اور ہرقل کے سامنے جا کر آداب بجا لایا۔
 وہ خوش ہو رہا ہو گا کہ ہرقل اس سے اب پوچھے گا کہ اب ستاروں کا حساب بتا کہ میں کہاں جاؤں لیکن ہرقل کی آنکھیں کھل گئیں تھیں۔
 اب بتا ائے ستاروں کے بھیدی۔۔۔ ہرقل نے شاہانہ عتاب کے لہجے میں پوچھا تیرے ستارے کیا کہتے ہیں تو نے ہر بار مجھے بتایا کہ اب میں یوں کرو تو ایسا ہو جائے گا اور مسلمان اندھے ہو کر بھاگ جائیں گے۔
 اپنی پیشن گوئیوں کو یاد کر اور بتا کے مجھے یہ کیوں نہ بتایا کہ میری قسمت میں دربدر چھپتے پھرنا نہ لکھ دیا گیا ہے اور میرے لئے کوئی پناہ نہیں ۔۔۔مجھے جواب دے۔۔۔
 نجومی نے علم نجوم کی اصطلاحوں میں بات کی اور پوری کوشش کرنے لگا کہ ہرقل کو قائل کرلے۔
 کہ غلط پیشنگوئی گوئیوں کا قصوروار نجومی نہیں بلکہ ستارے ہیں جو خلا کی وسعتوں میں گردش کر رہے ہیں۔
 مجھے تمہاری ایک بھی بات سمجھ نہیں آ رہی۔ ہرقل نے کہا ۔۔۔تو نے مجھے یہ کیوں نہیں بتایا کہ میری قسمت میں اپنی ہی سلطنت میں دربدر چھپتے پھرنا اور پناہ ڈھونڈنا لکھ دیا گیا ہے۔
 یہ حقیقت مجھ پر اب کھلی ہے کہ جس طرح میں بھٹکتا پھر رہا ہوں اسی طرح یہ ستارے افلاک کی وسعتوں میں بھٹک رہے ہیں ۔
اور دوسری حقیقت یہ کہ تو مجھے دھوکہ دے  دے کر اور مجھے خوش فہمیوں میں مبتلا کر کر کے دولت بٹورتا رہا ہے۔
 نجومی کو کوئی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا ہرقل اٹھا اور آہستہ آہستہ نوجوان کے سامنے جا کھڑا ہوا سارے دربار پر سناٹا طاری ہو گیا سب جانتے تھے کہ ہرقل ویسا ہی اٹھ کر نوجومی تک نہیں گیا ۔
ہر قل ایک بڑا ہی خوبصورت خنجر جس کے دستے میں ہیرے جڑے ہوئے تھے اس طرح اپنی کمر کے ساتھ لٹکائے رکھتا تھا جس طرح عورتیں زیور پہنتی ہیں۔
بجلی کی تیزی سے ہرقل کا ہاتھ خنجر کے دستے پر گیا، خنجر نیام سے باہر آیا اور دوسرے ہی لمحے نجومی کے پیٹ میں اترا ہوا تھا ۔
نجومی پیٹ پر ہاتھ رکھ کر ایک دو قدم پیچھے ہٹا اور اس کا جسم ڈولنے لگا پھر وہ گر پڑا۔
ہرقل نے خنجر ایک طرف پھینکا جو ایک آدمی نے پکڑ لیا ۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ صاف کر کے دے دیا جائے۔
 ہرقل اپنے تخت پر جا بیٹھا باہر سے کچھ ادمی دوڑائے آئے اور وہ مرے ہوئے کو اٹھا کر لے گئے۔
 شاہ مردین کو لے او۔۔۔ ہرقل نے حکم دیا۔۔۔ آج میں ان دونوں کی قسمت کا فیصلہ کرنا چاہتا ہوں جو میری قسمت کا جھوٹا عکس دکھایا کرتے تھے۔

 زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ہرقل کی عمر کے ہی ایک آدمی کو اس کے دربار میں لایا گیا ۔
سب درباری اسے دیکھ رہے تھے اور سب کی نظروں میں اس کے لیے رحم تھا۔
وہ یقینا سوچ رھے تھے کہ اس شخص کو اگر بتایا جائے کہ اس کی زندگی دو تین منٹ ہی رہ گئی ہے تو اس پر کیسی بے رحم کیفیت طاری ہوجائے گی ۔
صرف ہرقل تھا جس کی نظروں میں اور جس کے دل میں اس وقت کوئی رحم نہیں تھا۔
 ایک درباری نے اس کا خنجر صاف کر کے اس کے حوالے کردیا ہرقل نے خنجر نیام میں ڈال لیا ۔
شاہ مردین نام کا یہ شخص جو اس کے سامنے کھڑا تھا ،شاہی جوتشی تھا۔
ہرقل ہرجنگ اور ہر پیش قدمی سے پہلے اس شخص سے زائچہ بنوایا کرتا تھا۔
 اے میری قسمت کے زائچہ بنانے والے! ۔۔۔ہرقل نے شاہ مردین سے پوچھا ۔۔۔کیا تو بتا سکتا ہے تیری قسمت میں کیا لکھا ہے۔۔۔؟ وہی جو میں نے چاہا تھا،، ۔۔۔شاہ مردین نے جواب دیا آج جب مجھے موت کی دہلیز پر کھڑا کردیا گیا ہے تو میں مرنے سے پہلے سچ بولنا چاہتا ہوں ۔
اے روم کے طاقتوربادشاہ! جب تونے مجھے زائچہ بنانے کے لیے کہا تو میں وہی کچھ لکھا جو تو چاہتا تھا۔
 میں نے تجھے خوش فہمی میں مبتلا رکھا اور یہی مژدہ سناتا رہا کہ تو انسان نہیں دیوتا ہے اور تیرے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔
 مطلب یہ کہ تو مجھے دھوکا دیتا رہا اور انعام واکرام وصول کرتا رہا ۔۔۔ہرقل نے کہا۔۔۔ تیرے زائچوں کے عوض تجھے شاہی رتبہ دے رکھا اور تجھ پر دولت لوٹاتا رہا ۔
اورتو اسی دولت اور رتبے خاطر مجھے دھوکا دیتا رہا۔
 دولت کی خاطر نہیں! ۔۔۔شاہ مردین نے کہا۔۔۔ انتقام کے خاطر میں نے تجھ سے انتقام لیا ہے تجھےاس مقام تک پہنچا دیا ہے جہاں سے اب تو واپس ملک شام میں حکومت کرنے کے لئے نہیں جاسکتا ۔
انتقام ۔۔۔۔ہرقل نے حیرت کے لہجے میں پوچھا۔۔۔ انتقام کیسا ؟میں نے تیرا کیا نقصان کیا تھا؟
 ہاں انتقام! ۔۔۔شاہ مردین نے بڑی دلیری سے کہا۔۔۔ اب سن میں نے تیرے اس گناہ کا انتقام لیا ہے۔
 ستائیس اٹھائیس برس پہلے کا ایک دن یاد کر تجھے وہ دن یاد نہیں آئے گا کیونکہ تیری اس شاہانہ زندگی کا ایک ایک دن ایسا بھی گزرا ہے۔
 تو کچھ دور جنگل میں شکار کھیلنے گیا تھا۔ میں اپنی چھوٹی اور نوجوان بہن کے ساتھ اس جنگل سے گزر رہا تھا میری بہن بہت ہی خوبصورت تھی اور مجھے اس کے ساتھ اتنا زیادہ پیار تھا جتنا اپنے مذہب کے ساتھ بھی نہیں تھا ۔
تیرے دو محافظوں نے میری بہن کو دیکھ لیا اور اسے پکڑ لیا میں نے اسے بچانے کی کوشش کی تو انہوں نے مجھے مارا پیٹا اور کہا کہ بادشاہ ہرقل کے لیے اس قسم کی ایک خوبصورت لڑکی چاہیے انہوں نے کہا کہ ہرقل تین چار دن جنگل میں قیام کرے گا اور اسے اس لڑکی کی ضرورت ہے وہ میری روتی چیختی بہن کو تیرے پاس لے گئے میں تیرے پاس آنا چاہتا تھا لیکن مجھے کوئی آگے نہیں جانے دیتا تھا۔
 میں وہیں رکا رہا اور جب تو اپنے خیمے سے شکار کے لیے نکلا تو میں دوڑتا ہوا تیرے قدموں میں جا گرا اور اپنی پیاری بہن کی بھیک مانگی۔
 تو نے مجھے پاؤں سے بڑے زور سے ٹھوکر ماری اور کہا کہ اسے اٹھا کر دور پھینک دو۔
تیرے آدمیوں نے مجھے مار مار کر بہت دور جا چھوڑا۔
میں پھر بھی وہیں بیٹھا رہا تین چار دن وہی بھوکے پیاسے گزار دیا ۔
اور جب تو شکار سے واپس چلا گیا تو میں اس جگہ گیا جہاں تیرے خیمے لگے ہوئے تھے وہاں میری بہن کی برہنہ لاش پڑی ہوئی تھی میں جانتا تھا کہ تو نے اور تیرے ہمراہیوں نے میری بہن کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔
 میں نے اسی وقت عہد کرلیا تھا کہ ہرقل سے انتقام لوں گا ۔
میرا باپ علم نجوم اور علم جوتش کی سوجھ بوجھ رکھتا تھا اور وہ لوگوں سے پیسے لیکر زائچے بھی بناتا تھا۔
 اس نے یہ فن مجھے بھی سکھا دیا تھا لیکن میں نے اس میں دلچسپی نہ لی اور پھر میرا باپ اپنی بیٹی کا صدمہ دل میں لیے دنیا سے رخصت ہوگیا۔
 میں ہر وقت اس سوچ میں گم رہنے لگا کہ تجھ سے انتقام کس طرح لو ایک طریقہ میرے دماغ میں آگیا۔
 لوگ میرے باپ کی کرامت کی وجہ سے مجھے بھی عزت کی نگاہوں سے دیکھتے تھے میں نے اپنے متعلق مشہور کر دیا کہ میں باپ کی گدی پر بیٹھ گیا ہوں۔
 اور جوتش اور نجوم کا کام شروع کر دیا ہے۔ میں نے باپ والا علم تو نہ سیکھا اس کی جگہ کچھ فریب کاریاں اور شعبدہ بازی سیکھ لی۔
 میری شہرت پھیلتی گئی ۔
اور میں ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ تجھے یہ بتاؤ کہ سات آٹھ برس بعد میں نے کس طرح تجھ تک رسائی حاصل کی اور تو نے مجھے اپنے محل میں رکھ لیا میں نے انتقام لینا شروع کردیا۔
 ہرقل بڑا ہی ظالم اور درندہ صفت حکمران اور جرنیل تھا ۔
درباریوں کو توقع یہی تھی کہ ابھی ہرقل اٹھے گا اور شاہ مردین کو اسی طرح پیٹ میں خنجر گھونپ کر قتل کر دے گا جس طرح اس نے نجومی کو قتل کیا تھا ۔
لیکن مؤرخ لکھتے ہیں کہ عجیب بات ہوئی کہ ہرقل بت بن گیا تھا۔
 اور آنکھیں پھاڑے شاہ مردین کو دیکھے جا رہا تھا۔
 غالبا اس لیے کہ اس کے منہ پر کبھی کسی کو سچ بولنے کی جرات نہیں ہوئی تھی۔
 اس حالت میں جب کہ شکست کھا کر بھاگا بھاگا پھر رہا تھا۔
 اس کے دربار میں کنیز اور دو تین شہزادیاں موجود تھی اور منظر وہی بنا ہوا تھا جو اس کے محل کے دربار میں بنا کرتا تھا۔
 شہزادیاں اور کنیزیں بھی شاہ مردین کو حیرت اور دلچسپی سے دیکھ رہی تھیں۔


*جاری ہے*

RELATED POSTS





Post a Comment

if you have any doubt please let me know

Previous Post Next Post